حضرت مولانا محبوب عالم صاحبؓ
حضرت مولانا محبوب عالم صاحبؓ ضلع گجرات پنجاب کے علاقہ سے کشمیر میں آئے تھے اور درس و تدریس کا مشغلہ رکھتے تھے- آپؓ وجیہہ، بارعب اور دلیر آدمی تھے- صاحب کشف و رؤیا اور مستجاب الدعوات تھے- لوگ آپؓ کو ولی اللہ کہہ کر پکارتے تھے- ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر و اکتوبر 1998ء میں حضرت مولانا محبوب عالم صاحب کے ذکرِ خیر پر مشتمل ایک مضمون آپؓ کے پوتے مکرم عبدالوہاب صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
حضرت مولانا صاحبؓ کے مورث اعلیٰ حافظ صدرالدینؒ ہندوستان کے مشہور گدی نشین صوفیا میں سے تھے- وہ دہلی سے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے پنجاب آئے اور گجرات میں آباد ہوکر وہیں وفات پائی- آپؒ کی اولاد علاقہ کے رؤسا میں سے اور گدی نشین تھی- حضرت مولانا محبوب عالم صاحبؓ اندازاً 1850ء میں حضرت میاں شرف الدین ؒ کے ہاں پیدا ہوئے- آپؓ نے اپنے والد کی زیر ہدایت تحصیل علم کے لئے سہارنپور، لکھنؤ اور دہلی کے لمبے سفر اختیار کئے اور اس دوران فاقے اٹھائے لیکن دست سوال دراز نہ کیا- آپؓ کی قابلیت اس قدر مسلّم تھی کہ کئی معاملات میں عدالتوں کے جج بھی آپؓ سے فیصلہ کرواتے رہے اور آپؓ کا فیصلہ فریقین بھی بشاشت قلبی سے قبول کرتے تھے- آپؓ نے 1875ء میں کشمیر کا سیاحتی سفر کیا تو یہاں مسلمانوں کے حالات دیکھ کر آپؓ کا دل بہت دکھا اور آپؓ نے یہ علاقہ اشاعت اسلام کے لئے چُن لیا اور یہی اپنی زندگی کا مقصد بنالیا-
حضرت مولانا صاحبؓ کی شادی ایک نہایت عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون حضرت سارا بی بی صاحبہؓ سے ہوئی جنہیں اپنے بیگانے سب ہی ’’اماں جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے- آپؓ کو قرآن کریم سے اتنی محبت تھی کہ نکاح کے وقت آپؓ کی خواہش پر ہی یہ مہر رکھا گیا کہ جب تک زندہ رہیں گی حضرت مولاناؓ آپؓ کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہیں گے-آپؓ کو خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بھی بہت محبت تھی اور حضرت مصلح موعودؓ کی شان میں کئی نظمیں بھی آپؓ نے رقم فرمائیں-
حضرت مولانا محبوب عالم صاحبؓ حالاتِ زمانہ پر نظر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ یہ زمانہ مصلح ربّانی کا متقاضی ہے- اللہ تعالیٰ نے بہت سے رؤیا و کشوف میں آپؓ پر منکشف کردیا کہ امام مہدی کا ظہور ہوچکا ہے- چنانچہ آپؓ تلاشِ حق میں پاپیادہ کشمیر سے جہلم پہنچے اور اپنے استاد حضرت احمد دین صاحبؓ اور حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ سے ملاقات کرکے کہا کہ آپؓ نے بیعت عجلت میں کی ہے، حدیث کی علامات کے مطابق پرکھ کر اکٹھے قدم اٹھاتے- انہوں نے جواباً فرمایا کہ ہم تو بیعت کرچکے ہیں، آپ جس طرح چاہیں پرکھ لیں- چنانچہ حضرت مولانا صاحبؓ 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے مناظرہ کی نیت لے کر لاہور پہنچے جہاں حضورؑ قیام فرما تھے- مولویوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر رکھا تھا- آپؓ نے سوچا کہ حدیث میں ایک علامت مولویوں کی مخالفت اور انکار بھی بیان ہوئی ہے اس لئے ہو سکتا ہے مدعی سچا ہی ہو- پھر آپؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور روایت ’’لکنت اور ران پر ہاتھ مارنا‘‘ کو درست پایا چنانچہ اس یقین کے ساتھ کہ یہ نورانی چہرہ یقینا سچوں کا ہی ہو سکتا ہے، آپؓ نے مناظرہ کا ارادہ ترک کردیا اور جونہی حضرت اقدسؑ نے گفتگو ختم فرمائی، آپؓ کے صبر و ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور تڑپ کر حضورؑ کے قدموں میں جا پڑے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ہچکی بندھی ہوئی تھی- ذرا قرار آیا تو بے اختیار عرض کی ’’اے خدا کے برحق امام مہدی میں خاکپائے محمدؐ کشمیر کے بلند و بالا پہاڑوں کو پھلانگتا ہوا اور گاہے پہاڑی سفروں کی تھکان کی وجہ سے گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا آیا ہوں اور اے امام ذی شان میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف سے السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کا تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں‘‘-
حضرت مسیح موعودؑ نے ریاست کشمیر میں آباد آپ کے شاگردوں اور مریدوں کو تبلیغ کا کام سپرد کیا- اس ارشاد کے بعد آپؓ نے اپنے وطن (گجرات) کا خیال بالکل دل سے نکال دیا اور کشمیر سے صرف جلسہ سالانہ پر قادیان آتے اور پھر واپس جاکر اشاعت اسلام میں مصروف ہو جاتے- سب سے پہلے آپؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو سمجھانے کے لئے تمہید باندھی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور بار بار یہی پوچھا کہ کیا آپؓ نے بیعت کرلی ہے- جب آپؓ نے ’’ہاں‘‘ میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے دلائل کی ضرورت نہیں، میں پورے طور پر آپؓ کے ساتھ ہوں… بعض رؤیا کے ذریعے میرے خدا نے مجھ پر پہلے ہی امام مہدی کی آمد و صداقت منکشف کردی ہے-
جلد ہی حضرت مولانا صاحبؓ کے دیگر عزیز بھی احمدی ہوگئے اور پھر ہر طبقہ اور ہر مکتبۂ فکر کے لوگ احمدیت میں شامل ہوتے چلے گئے اور بہت سوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر دستی بیعت کا شرف بھی حاصل کیا- ایسے ہی ایک حضرت قاضی فیروزالدین صاحبؓ کو دمہ کی بیماری تھی جو حضور علیہ السلام کی دعا سے ہمیشہ کے لئے دور ہوگئی-
حضرت مولانا صاحبؓ کے شاگردوں میں سے ایک حصہ نے مخالفت اختیار کی اور اس میں حد کردی- کفر کا فتویٰ لگا، بائیکاٹ کیا گیا، گالیاں دی گئیں، پتھراؤ کیا گیا- کوٹلی کی ایک مسجد سے دھکے دے کر باہر نکال دیئے گئے اور رات بھر ایک چبوترے پر سجدہ ریز رہ کر دعاؤں میں گزاردی- پَن چکیوں پر آٹا پیسنے اور چشموں سے پانی لینے سے بھی روک دیا گیا اور پھر اُس بستی سے جس میں آپؓ قیام فرما تھے نہایت اذیّت سے نکال دیا گیا- اگلی بستی میں بھی ویسا ہی سلوک ہوا لیکن یہ طوفان آپؓ کی راہ نہ روک سکے چنانچہ کوٹلی، میرپور اور پونچھ کے اضلاع میں متعدد بڑی بڑی جماعتیں آپؓ کے ذریعہ سے قائم ہوئیں- اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ہاتھ پر کئی نشانات بھی ظاہر فرمائے-
مکرم حاجی امیر عالم صاحب سابق امیر علاقہ آزاد کشمیر بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں حضرت مولانا محبوب عالم صاحبؓ کو مَیں نے کوٹلی محلہ بلیاہ کی مسجد میں نماز اداکرنے پر دھکے دے کر باہر نکالا، مسجد دھوئی اور خوب گالیاں دیں- آپؓ نے فرمایا ’’امیر عالم آپ احمدی ہوگئے ہیں‘‘- اس پر مجھے بہت طیش آیا اور جو منہ میں آیا کہہ ڈالا … لیکن آپؓ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ آسمان پر قبول ہوگئے اور آخر مجھے قبول احمدیت کی توفیق عطا ہوئی-
مکرم مولوی امام الدین صاحب سابق صدر گوئی کا بیان ہے کہ مَیں چھ سات سال تک گونگا تھا- میرے والد صاحب نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں عرض کیا جس پر آپؓ نے فرمایا ’’اپنا منہ کھولو‘‘- مَیں نے منہ کھولا تو آپؓ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اپنا لعاب دہن میری زبان پر لگایا اور فرمایا کہ ’’اب یہ بچہ خوب بولے گا‘‘- چنانچہ معجزانہ طور پر میرا گونگا پن اُسی وقت سے دور ہوگیا اور بعد میں مجھے کئی مجمعوں میں نہایت کامیابی سے خطاب کرنے کا موقع بھی ملتا رہا-
حضرت مولوی صاحبؓ جب بھی کسی نئی بستی میں دعوت الی اللہ کے لئے پہنچتے تو ایک چشمہ کے کنارے کسی درخت کے سائے میں چبوترہ بناکر قیام فرما ہوتے- ایک جگہ ایک شخص کو طیش آیا تو اُس نے درخت پر چڑھ کر کلہاڑی سے درخت کی شاخیں کاٹ دیں- آپؓ نے بڑے جلال میں فرمایا ’’تم درخت کی ٹہنیاں کیا کاٹو گے، خدا کی قہری تجلّی نے تمہیں کاٹ دیا ہے‘‘- یہ سنتے ہی وہ شخص کانپ کر نیچے گرا اور اوپر سے کلہاڑی اُس کے سر پر گری اور اس طرح وہ اپنی ہلاکت سے صداقت احمدیت کا نشان پیچھے چھوڑ گیا-
علاقہ گوئی کے بینساں نامی موضع میں ایک راجو بانیاں نامی شخص رہتا تھا- وہ مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے علاقہ کا راجہ کہلاتا تھا- اُس کے محل سے کچھ ہی فاصلہ پر ایک چشمے کے کنارے پر حضرت مولانا صاحبؓ قیام فرما تھے- راجو آپؓ کو سخت ستاتا اور حضرت اقدس علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کرتا- ایک دن کہنے لگا کہ تمہاری عبادت سے ہمارے آرام میں خلل آتا ہے اس لئے فوراً کہیں اور چلے جاؤ ورنہ صفحۂ ہستی سے مٹادوں گا- آپؓ نے پوچھا ’’راجو! تم میں طاقت ہے؟‘‘- وہ بولا مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ ان درختوں کو اکھیڑ کر جڑیں آسمان کی طرف اور شاخیں زمین میں پیوست کردوں- آپؓ نے فرمایا ’’جاؤ تمہاری جڑیں اکھڑ گئیں اب کوئی طاقت تمہیں ہلاکت سے بچا نہ سکے گی اور یہ درخت ہمیشہ کے لئے سرسبزوشاداب ہوگئے‘‘- چنانچہ ایسا ہی ہوا اور راجو جلد ہی نہایت عذاب کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچا اور اُس کی اولاد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی اور وہ آج بھی اس نشان پر گواہ ہے- اسی طرح وہ درخت ایک صدی گزرنے پر بھی ہرے بھرے ہیں بلکہ ایک درخت جو اُس وقت سوکھ چکا تھا وہ بھی دوبارہ زندہ ہوا اور اُس میں سے نئی شاخیں پھوٹیں-
موضع برموچ کے چودھری اللہ دتّہ نے (جن کا بھائی احمدی ہوچکا تھا) حضرت مولوی صاحبؓ سے درخواست کی کہ اُس کا ایک مکان لے لیں اور اُس کے بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیں- آپؓ نے اُسے مکان کی قیمت عطا کی اور بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا- چند ہی ماہ بعد اُس نے آپؓ کو چھ ماہ میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دیا- آپؓ نے فرمایا کہ اگرچہ میں اس کی قیمت دے چکا ہوں لیکن مجھے ان چیزوں کی پرواہ نہیں- ہاں جس کام کے لئے یہاں ٹھہرا ہوں، وہ پورا ہونے دو- لیکن وہ کسی کے بہکاوے میں آکر بولا ’’چھ ماہ کے اندر یہاں سے نکل جاؤ ورنہ اٹھا باہر پھینکوں گا‘‘- آپؓ نے فرمایا ’’ … تمہیں خدا ایسا اٹھا کر پھینکے گا اور ایسا غائب کردے گا کہ پھر کبھی نظر نہ آؤ گے‘‘- پس اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نشان دکھاتے ہوئے ہفتہ عشرہ میں اسے روپوش کردیا اور اُس کی اولاد نے اُس کی تلاش میں ایک جہان چھان مارا مگر اس کا سراغ نہیں ملا-
چونکہ حضرت مولوی صاحبؓ دن رات دعوت الی اللہ کے سفر پر رہتے تھے تو خونخوار جنگلی درندوں سے بچنے کے لئے آپؓ نے دعا کی- اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک شیر کو آپؓ کے لئے بطور محافظ مامور فرما دیا- ایک دفعہ آپؓ ایک شاگرد کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے- جنگل میں داخل ہوتے ہی جب شیر آ موجود ہوا تو شاگرد کی چیخیں نکل گئیں- آپؓ نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا ’’ڈرو نہیں- یہ شیر تمہیں کچھ نہیں کہے گا- اسے میرے محافظِ حقیقی اللہ نے میری حفاظت کے لئے مامور کیا ہوا ہے- یہ میرے دائیں بائیں آگے پیچھے چلتا رہتا ہے اور دوسرے جنگلی جانوروں سے میری حفاظت کرتا ہے اور جب بستی آتی ہے تو واپس لوٹ جاتا ہے‘‘-
کوٹلی میں آپؓ کے مرید بھی ملاّؤں کے اس فتوے سے خائف تھے کہ محبوب عالم جس کے گھر میں داخل ہوگا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا- آخر آپؓ نے ایک مرید سے کہا کہ میں تمہارے گھر میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ صحن میں چبوترے پر رات گزار لوں گا- اُس نے کہا سرما کی شدید سردی میں آپؓ زندہ کیسے رہیں گے- آپؓ نے فرمایا ’’میں نہیں مروں گا بلکہ تمہیں بھی زندہ کروں گا‘‘- چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ نے ساری رات دعائیں کرتے ہوئے چبوترے پر گزاردی- اگلی صبح گھر والے آپؓ کو زندہ تسبیح و تحمید میں مصروف دیکھ کر آپؓ کے قدموں میں آگرے اور اسی وقت قبول احمدیت کی توفیق پانے والوں میں مکرم حاجی امیر عالم صاحب مرحوم (جو بعد میں امیر علاقہ آزاد کشمیر ہوئے) اور مکرم منشی علم دین صاحب (جنہیں 1974ء میں شہادت نصیب ہوئی) شامل تھے- یہ تاریخی چبوترہ محفوظ رکھا گیا- حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت سے قبل اپنے دورہ کشمیر کے موقع پر اس چبوترے پر دو نفل بھی ادا فرمائے- اب اس پر ایک چھوٹی سی مسجد ’’یادگار‘‘ تعمیر کردی گئی ہے-
ایک بار حضرت مولانا صاحبؓ کو علم ہوا کہ ایک لاعلاج کوڑھی جس کے گھر والوں نے بھی اسے چھوڑ دیا تھا نہایت بُری حالت میں ایک جھونپڑے میں مقیم ہے- آپؓ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگیا ہے- آپؓ نے اُس کا گند صاف کیا اور اُس کیلئے پرہیزی کھانا اپنے گھر سے لانا شروع کیا اور کئی بار اُس کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا- آپ چونکہ ایک مانے ہوئے حکیم بھی تھے اس لئے دوائی بھی شروع کروائی اور کتنی ہی راتیں دعائیں کرتے ہوئے گزاری جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور اُس مردہ کوڑھی کو شفا دے کر قبولیت دعا کا زندہ نشان بنادیا- آپؓ ایک بلند پایہ حاذق طبیب تھے اور آپؓ کے ایسے کئی مریض شفایاب ہوئے جنہیں ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے رکھا تھا-
آپؓ پر جب بے پناہ مظالم ڈھائے گئے تو آپکی کربناک دعاؤں کو سُن کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلّی دیتے ہوئے دکھایا کہ بڑے بڑے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں- چنانچہ آپؓ نے فرمایا کہ بڑے بڑے معاند ہلاک ہوں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دشمن ہلاک ہوئے اور وہ علاقہ احمدیت کی آغوش میں آگیا- اسی طرح ایک بار آپؓ نے دشمنوں کی اذیّت اور سنگلاخ زمین کا سوچ کر اپنے وطن گجرات جاکر دعوت الی اللہ کرنے کا پروگرام بنایا تو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو فرمایا کہ تم یہیں رہو اور دشمن ہی برباد ہوں گے-
حضرت مولانا صاحبؓ نے اردو اور عربی میں کئی نظمیں کہیں لیکن فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے- کشمیر کے کئی رؤسا نے آپؓ کی خدمت میں زمینیں اور جائیدیں پیش کیں لیکن آپؓ نے قبول نہ فرمائیں- ایک رئیس کی پیشکش کے جواب میں فرمایا ’’… میری اولاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے وقف ہے ، دین کی خدمتگار رہے گی اور آسمان سے رزق پائے گی‘‘- چنانچہ آپؓ کے دونوں صاحبزادگان نے زندگی وقف کرنے کی سعادت پائی-
حضرت مولانا صاحبؓ اپنے آقا حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کی تعمیل میں ایسے طور پر دعوت الی اللہ میں محو ہوئے کہ اپنے وطن کو بالکل ہی بھول گئے- لیکن جب حضرت اقدسؑ کا وصال ہوا تو آپؓ کے دل میں بھی گجرات واپس لوٹ آنے اور اپنے عزیزوں میں تبلیغ کرنے کا خیال پیدا ہوا- آپؓ نے اس کی اجازت کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خدمت میں عرض کیا تو حضورؓ نے اجازت نہ دی اور فرمایا ’’… آپ کا وہیں رہنا بہتر ہے‘‘- چنانچہ اس کے بعد آپؓ کشمیر کے ہی ہو رہے اور صرف جلسہ سالانہ سے واپسی پر چند دن گجرات میں قیام کرکے دعوت الی اللہ کا حق ادا کرتے رہے- 1923ء کے جلسہ سالانہ پر تشریف لے جانے سے قبل اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو وفات کی خبر دے دی تھی- چنانچہ آپؓ نے روانگی کے وقت گھر میں ایک رقعہ لکھ کر چھوڑا ’’خدا حافظ اب دوبارہ ملاقات ممکن نہیں‘‘- جلسہ کے بعد اپنے آبائی وطن چک پرانہ ضلع گجرات تشریف لائے اور معمولی سی علالت کے بعد 4؍جنوری 1924ء کو وفات پاگئے-