حضرت مولانا محمد جلال الدین رومیؒ
دنیائے تصوف کی نامور شخصیت جن کی تصنیف مثنوی نے شہرت دوام پائی اور جن کا سلسلہ جلالیہ ترکی، ایشیائے کوچک، ایران اور پاک و ہند میں پایا جاتا ہے، مولانا محمد جلال الدین رومی، اُن کی سوانح پر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍جولائی 2005ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
نام محمد ، لقب جلال الدین، عرف مولانائے روم، آپ حضرت ابوبکرؓ کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کے والد بہاؤالدین علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ اگرچہ وہ محمد خوارزم شاہ بادشاہ کے نواسے تھے لیکن بیت المال کے روزینہ پر گزراوقات تھی۔ مولانا رومی 604ھ میں بمقام بلخ میں پیدا ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں بلخ چھوڑا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے پائی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ ایک سال بعد بیٹا سلطان پیدا ہوا۔ 629ھ میں 25سال کی عمر تھی جب تعلیم کے لئے شام کا رُخ کیا۔ وہاں حلب کے مدرسہ حلاویہ کے بورڈنگ میں قیام کیا۔ مدرسہ کے ناظم کمال الدین محدث، حافظ، مؤرخ، فقیہہ، کاتب، مفتی اور ادیب تھے۔ مولانا نے حلب کے دیگر مدرسوں میں بھی علم کی تحصیل کی اور طالب علمی ہی کے زمانہ میں عربی، فقہ، حدیث اور تفسیر میں کمال حاصل کیا۔ سات برس شام میں گزارے۔ پھر طریقت اور سلوک کی تعلیم اپنے والد کے مرید برہان الدین سے پائی اور نو سال تک ان کی زیر تربیت رہے۔ مگر مولانا پر ظاہری علوم کا ہی رنگ غالب تھا۔ علوم دینیاء کا درس دیتے، واعظ کہتے، فتویٰ لکھتے تھے۔ سماع وغیرہ سے سخت احتراز کرتے تھے۔
مولانا روم کی زندگی کا دوسرا دَور حضرت شمس تبریز کی ملاقات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس بارہ میں متضاد روایات ہیں لیکن ایک حقیقت ہے کہ شمس تبریز کی ملاقات نے مولانا کی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ مولانا اپنے مدرسہ میں درس د یا کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص حلوہ کی قاشیں بیچتا ہوا مدرسے میں آیا۔ مولانا نے ایک قاش لی اور تناول فرمائی۔ پھر مولانا کی یہ حالت تھی کہ کچھ بولتے چالتے نہ تھے جب کبھی زبان کھلتی تو شعر پڑھتے تھے۔ ان کے شا گرد ان شعروں کو لکھ لیا کرتے تھے یہی اشعار تھے جو جمع ہوکر مثنوی بن گئے۔
شمس تبریز کے والد کا نا م علاؤالدین تھا۔ شمس نے علم ظاہری کی تحصیل کی پھر بابا کمال الد ین جندی کے مرید ہو گئے۔ وہ سوداگروں کی طرح شہروں کی سیاحت کر تے۔ جس سرائے میں اترتے دروازہ بند کرکے مرا قبے میں مصروف ہوجا تے۔ معا ش کا ذریعہ ازاربند فروخت کرنا تھا۔ ایک دفعہ دعا کی کہ ایسا بندہ خاص ملے جو میری صحبت کا متحمل ہو سکتا ہو۔ عالم غیب سے اشارہ ہوا کہ روم جاؤ۔ اسی وقت چل پڑے اور قونیہ پہنچے۔ مولانا کو ان کے آنے کا حال معلوم ہوا تو ملاقات کو چلے۔ دونوں بزرگوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور دیر تک زبان حال سے باتیں ہو تی رہیں۔ شمس نے مولانا سے پوچھا کہ حضرت بایزید بسطامی کے ان دو واقعات میں کیونکر تطبیق ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ حال تھا کہ تمام عمر اس خیال سے خربوزہ نہیں کھایا کہ معلوم نہیں کہ آنحضرتﷺنے اس کو کس طرح کھایا تھا۔ دوسری طرف اپنی نسبت یوں فرماتے ہیں کہ سبحانی ماعاظم شانی (یعنی اللہ اکبر میری شان کس قدر بڑھی ہوئی ہے) حالانکہ رسول کریم ﷺ جلالت شان کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر میں ستر دفعہ استغفار کرتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ بایزید اگرچہ بہت پایہ کے بزرگ تھے لیکن مقام ولایت میں وہ ایک خاص درجہ پر ٹھہر گئے تھے اور اسی درجہ کی عظمت کے اثر سے ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے۔ بخلاف اس کے جناب رسول ﷺ مناظر تقرب میں برابر ایک پایہ سے دوسرے پایہ پر چڑھتے جاتے تھے۔ اس لئے جب بلند پائے پر پہنچتے تھے تو سابقہ پایہ اس قدر پست نظر آتا تھا کہ اس سے استغفار کرتے تھے۔
مولانا روم اور شمس تبریز چھ ماہ تک صلاح الدین زرکوب کے حجرہ میں چلہ کشی کرتے رہے۔ خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ حجرہ میں کسی کو آمدو رفت کی اجازت نہ تھی۔ اس چلہ کشی کے بعد مولانا کی حالت میں نمایاں تبدیلی ہوئی۔ درس و تدریس کو مکمل چھوڑ دیا۔ شمس کی صحبت میں رہنے کو ترجیح دیتے جس سے مرید بھی شمس کے خلاف ہو گئے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے شمس نے چپکے سے گھر سے نکل کر دمشق کی راہ لی۔ مولانا نے لوگوں سے علیحدگی اختیار کی۔ آخر مولانا نے اپنے بیٹے صاحبزادہ سلطان کو خط اور ایک ہزار دینار دیکر دمشق بھیجا۔ شمس خط پاکر مسکرائے اور دمشق سے روانہ ہو کر قونیہ پہنچ گئے۔ پھر سلوب کی مجالس شروع ہو گئی۔ لوگوں میں شمس کی مخالفت بڑھی تو شمس غائب ہو گئے۔ بعض کے نزدیک علاؤالدین محمد نے قتل کردیا۔ یہ واقعہ645 ھ کا ہے۔ شمس کی شہادت اور غیوبت نے مولانا کی حالت بدل دی۔ مدت تک مولانا کو شمس کی جدائی نے بیقرار رکھا۔ ایک دن اس حالت میں گھر سے نکلے۔ راستہ میں شیخ صلاح الدین زرکوب چاندی کے ورق کوٹ رہے تھے۔ مولانا صلاح الدین زرکوب کی صحبت میں نو برس رہے۔ اور شمس کی جدائی سے جو غم تھا کم ہوا۔ جس بات کے لئے مولانا شمس کو ڈھونڈتے پھرتے تھے ان سے حاصل ہوئی۔ مولانا اور شیخ کی صحبتیں گرم رہیں بالآخر 664ھ میں زرکوب کی وفات ہوئی۔ پھر مولانا حسام الدین چیلپی کو ہمدم ہمراز بنایا اور تادمِ آخر انہی سے وابستہ رہے۔
672ھ میں قونیہ میں بڑے زور سے ہیضہ کی وبا پھیلی اور چالیس روز تک زور رہا۔ لوگ پریشان ہو کر مولانا کے پاس آئے کہ یہ کیا بلائے آسمانی ہے، دعا کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ زمین بھوکی ہے، لقمہ تر چاہتی ہے اور انشاء اللہ کامیابی ہو گی۔ چند روز کے بعد مولانا بیمار ہوئے۔ آخر 5جمادی الثانی672 ھ بروز اتوار غروب آفتاب کے وقت انتقال فرمایا۔
مولانا روم نے اپنے زمانے کے مشاہیر میں سے اکثر سے ملاقات کی تھی۔ شیخ شہاب الدین سہر وردی جو شیخ سعدی کے پیر تھے ان سے بھی مولانا کی صحبتیں رہیں۔ شیخ سعدی کا گزر اکثر بلاد روم میں ہوا۔بوستان میں بھی ایک درویش کی ملاقات کی غرض سے سفر روم کا ذکر ہے۔ علامہ قطب الدین شیرازی محقق طوسی کے شاگرد رشید تھے۔ وہ خود لکھتے ہیں دس بارہ علماء کے ساتھ مولانا کے پاس گئے۔ سب نے آپس کے مشورہ سے چند نہائت معرکتہ الآراء مسائل سوچ رکھے تھے کہ مولانا سے دریافت کریں گے۔ جونہی مولانا کے چہرے پر نگاہ پڑی یہ معلوم ہوا کہ گویا کبھی کچھ پڑھا ہی نہ تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا نے خود حقائق اوراسرار پر تقریر شروع کر دی جس میں ان تمام مسائل کا جواب آگیا جو امتحان کی غرض سے یہ لوگ سوچ کر گئے تھے۔ بالآخر سب کے سب مولانا روم کے مرید ہوگئے۔
مولانا کی تصنیفات میں رسالہ ’’فیہ مافیہ‘‘ جو مولانا عبدالماجد دریابادی نے 1928 ء میں شائع کیا۔ یہ ملفوظات پر مشتمل ہے جو سلطان بہاؤالدین نے 4رمضان 711ہجری کو مکمل کی۔
مولانا کے ’’دیوان‘‘ میں تقریباً پچاس ہزار شعر ہیں چونکہ غزل کے مقطع میں عموماً شمس تبریز کا نام ہے اس لئے عوام اس کو شمس تبریز کا دیوان سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ غلطی ہے کیونکہ شمس تبریز کا نام تمام غزلوں میں اس حیثیت سے آیا ہے کہ مرید اپنے پیر سے خطاب کررہا ہے یا غائبانہ اس کے اوصاف بیان کرتا ہے۔
’’مثنوی‘‘ وہ کتاب ہے جس نے مولانا روم کے نام کو آج تک زندہ رکھا ہے۔ اس کے مجموعی اشعار کی تعداد2666 ہے۔ بعض نے تو مثنوی کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک لکھا ہے: ہست قرآں در زبان پہلوی۔
مولانا روم نے حکایات کے ذریعہ عوام کو ان مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بعض اوقات انہوں نے نہائت نازک مسائل کو اپنی حکایات کا موضوع بنایا ہے۔ مثنوی میں جہاں عام اخلاقی مضامین بیان ہوئے ہیں وہاں مولانا روم نے اس زمانے کے علم الکلام کو بھی بیان فرمایا ہے اور عقائد کی اصلاح کی ہے۔ جس سے ان کی شریعت اور قرآن وحدیث پر گہری نظر رکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ مولانا نے الٰہیات میں ذات باری، صفات باری، نبوت مشاہدہ ملائکہ، معجزہ، روح ، مصاد، جبروقدر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ مسلّم ہے کہ مثنوی کا اصل موضوع شریعت کے اسراراورطریقت و حقائق کے مسائل کو بیان کرنا ہے۔ مولانا نے تصوّف میں توحید و وحدت الوجود، مقامات، سلوک، عبادات، نماز، روزہ، فلسفہ و سائنس، تجاذب اجسام، تجاذب ذرّات، تجدد امثال اور مسئلہ ارتقاء کو بھی بیان کیا ہے۔
بر صغیر پاک و ہند کے اکثر بزرگان اور صوفیاء اپنی تقاریر اور تحریرات میں مولاناروم کے اشعار اور حکایات کو بیان کرتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی کتب اور تقاریر میں موقعہ محل کی مناسبت سے بہت سے بزرگان اور شعراء کی حکایات اور اشعار استعمال فرمائے ہیں۔ حضورؑ نے دوسرے فارسی شعراء شیخ سعدیؒ ، مولانا رومؒ، حافظ شیرازیؒ، مولانا جامیؒ، مولانا نظام گنجوی، امیر خسرو، عمر خیام اور سرمد وغیرہ کے کل اڑھائی سو کے قریب اشعار نقل کئے ہیں۔ بعض بزرگوں کے شعر اور مصرعے حضرت اقدسؑ کو الہام بھی ہوئے۔ چنانچہ سعدی کے آٹھ، حافظ شیرازی کے تین، نظام گنجوی کے دو اور ناصر علی سرہندی، عمر خیام اور امیر خسرو کا ایک ایک شعر الہام ہوا۔ ذیل میں صرف مولانا روم کے اُن اشعار اور مصرعوں کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتب اور تقاریر میں استعمال فرمائے ہیں۔
-1- دلائل پر بھروسہ کرنے والوں کا پاؤں لکڑی کا ہوتا ہے اور لکڑی کا پاؤں سخت کمزور ہوتا ہے۔
-2- شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔
-3- جب تیرے دانتوں میں کیڑا لگ جائے تو وہ تیرے دانت نہیں رہے، حضرت انہیں اکھاڑ پھینکئے۔
-4- گندم سے گندم ہی اُگتی ہے اور جَو سے جَو۔ تُو اپنے عمل کی پاداش سے غافل نہ ہو۔
-5- اگر دین کا مدار دلیلیں پیش کرنے پر ہوتا تو فخرالدین رازی دین کے رازدان ہوتے۔
-6- جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا۔
-7- (بنسری کہتی ہے) میں نے ہر مجلس میں اپنا رونا رویا اور برے بھلے ہر قسم کے لوگوں کی صحبت میں رہی۔
-8- ہر شخص اپنے ظن کی بناء پر ہی میرا دوست بنا لیکن کسی نے میرے دل کے بھیدوں کو جاننے کی کوشش نہ کی۔
(مندرجہ بالا دونوں اشعار کے بارہ میں حضورؑ نے لکھا کہ گویا مولانا رومیؔ نے میرے لئے ہی یہ شعر بنائے تھے۔)
-9- ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدّر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔
-10- وہ (امام الزمان) کُل کی طرح ہے اور توجزو کی مانند ہے کلی نہیں۔ اگر تو اس سے تعلق توڑ لے تو سمجھ کہ ہلاک ہوگیا۔
-11- اس بزرگ کی دعا کسی اور دعا کی طرح نہیں ہوتی وہ فانی فی اللہ ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔
-12- احمد کا نام سب نبیوں کے نام کا مجموعہ ہے۔ جب سو کا ہندسہ آگیا تو نوے بھی ہمارے سامنے ہے۔
-13- اے شخص جس نے یونانیوں کی حکمت پڑھی ہے، ایمان والوں کی حکمت بھی پڑھ۔
-14- میں آفتاب کا ٹکڑا ہوں آفتاب کی ہی باتیں کرتا ہوں۔ میں نہ رات ہوں نہ رات کا پجاری کہ خواب کی باتیں کروں۔
-15- بہت سے شیطانوں کی شکل انسانوں جیسی ہوتی ہے پس ہر کسی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چاہئے۔
-16- یہ دنیا کا جنگل درندوں اور پھندوں سے خالی نہیں۔ بارگاہ الٰہی کی تنہائی کے سوا کہیں امن نہیں۔
-17- آنکھیں کھلیں، کان کھلے اور یہ عقل موجود۔ خدا کرے ان کی آنکھیں سینے پر حیران ہو۔
-18- یہ کمان تیروں سے بھری رکھی ہے۔ شکار جو نزدیک ہے اسے دورپھینک دیا جائے۔
-19- ہونٹ، کان اور آنکھیں بند کرلے۔ اگر تجھے خدا کا نور نظر نہ آئے تو ہمارا مذاق اڑا۔
-20- وہ فلسفی جو رونے والے ستون کا منکر ہے وہ اولیاء کی باطنی حسوں سے بے خبر ہے۔
-21- قطب شیر کی مانند ہے شکار کرنا اسی کا کام ہے۔ باقی سب اس کا بچا کھچا کھانے والے ہیں۔
-22- ایک لمبے عرصہ تک اس مثنوی میں تاخیر ہوگی۔ سالہا درکار ہیں تا خون دودھ بن جائے۔
-23- میں 770 یعنی بے شمار سانچوں سے گزرا ہوں اور بار بار نباتات اور ہریاول کی شکل میں اگا ہوں۔
ایک ایک مصرع:
-1- جواں مردوں کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتے۔
-2- تُو زبردست کا ساتھی بن، تا تُو بھی غالب بن جائے۔
-3- ہر شخص کو کسی نہ کسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
-4- انجام پر نظر رکھنے والا شخص خوش قسمت ہوتا ہے۔