حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جولائی 2007ء میں مکرم محمد افضل ظفر صاحب کے قلم سے حضرت مولوی ابوالعطاء جالندھری صاحب کی سیرۃ کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت مولوی صاحب کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ سفر میں اکثر وقت تلاوت یا مسنون دعاؤں کے ورد میں گزرتا۔ رمضان میں اپنے آرام کا بیشتر وقت بھی تلاوت کیا کرتے کہ گھر والوں کو آپ کی صحت کے متعلق فکر ہونے لگتا۔ آپ نہ صرف رمضان میں مرکزی انتظام کے تحت درس قرآن کریم دیتے بلکہ اپنے محلہ میں بھی درس کا اہتمام کر رکھا تھا اور اپنے گھر میں مستورات کے لئے باپردہ درس کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ احکام قرآن کی سختی سے پابندی فرماتے۔ جب باہر سے تشریف لاتے تو گھر کے باہر کھڑے ہوکر بلند آواز سے السلام علیکم کہتے اور جب تک اجازت نہ دے دی جاتی، اندر نہ آتے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں دو نعتیہ مشاعروں کا بھی اہتمام کروایا اور احادیث کے مجموعے بھی مرتب کئے۔
آپ سفر میں بھی تہجد کی پابندی کرتے۔ بڑے متّقی، پرہیزگار اور نماز باجماعت کے سختی سے پابند تھے۔ نظام خلافت سے کبھی روگردانی نہ کی۔ خلافت سے عشق کا برملا اظہار ہوتا۔ ایک بار فرمایا: ’’مجھے خلافت ثالثہ کے انتخاب سے دو روز قبل ہی یہ بتادیا گیا تھا کہ ووٹ کس کو دینا ہے اور کس نے خلیفہ منتخب ہونا ہے‘‘۔
آپ اکثر دعوتوں کا اہتمام کرتے جن کا اصل مقصد خدمت دین اور دعوت الی اللہ تھا۔ ان دعوتوں میں غیرازجماعت مہمان بھی شامل ہوتے۔ اپنے بچوں سے بغیر کسی فرق کے محبت کرتے۔ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور اُن کے جذبات کا خیال رکھتے۔ جلسہ سالانہ کے ایام میں شدید مصروفیت کے باوجود ایک غریب طالبعلم کا نکاح پڑھانے خاص طور پر تشریف لے گئے تو واپسی پر بڑی خوشی سے اپنے بیٹے کو بتایا کہ یہ میرا غریب طالبعلم تھا، اس کی پہنچ مجھ تک تھی اور اس کا حق بھی تھا کہ وہ مجھے کہے۔ اس لئے مَیں نے باوجود تکلیف کے آنا ضروری جانا۔
حضرت مولانا صاحب صاحب کشف و رؤیا تھے۔ آپ کو اپنی وفات کی اطلاع بھی کئی دن پہلے دیدی گئی تھی اور آپ نے اشاروں میں اپنے بیٹوں کو بتابھی دیا تھا۔ کئی سال قبل بھی آپ کو 1977ء خواب میں دکھادیا گیا تھا۔اور ایک شربت کی بوتل دکھاکر بتایا گیا تھا کہ یہ 75 سال تک کارآمد رہے گی۔
آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے آپ کے بچوں اور شاگردوں نے بارہا دیکھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے قریباً لاعلاج مریضوں کو بھی نئی زندگی عطا فرمائی۔
آپ کا چہرہ ہمیشہ ہشاش بشاش اور متبسم رہتا۔ ہمیشہ باوضو رہتے۔ طبیعت سادہ تھی اور تکلفات کو پسند نہ فرماتے۔ لالچ، طمع اور خوشآمد سے دور تھے۔