حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 2000ء میں مجاہد انڈونیشیا حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا ذکر خیر مکرم انیس احمد ندیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپ پہلے مجاہد احمدیت تھے جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشاد پر انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں پہنچے۔ آپ کی پیدائش سے ہی آپ کے والد محترم حضرت محمد حسن صاحبؓ کی خواہش تھی کہ آپ کو دعوت الی اللہ کیلئے وقف کردیں۔ آپ نے پرائمری امتحان بھی پاس نہ کیا تھا کہ آپ کے والد صاحب نے آپ کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخلہ کیلئے بھجوادیا اور بھجوانے سے قبل حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے تحریری اجازت حاصل کی۔
اگرچہ ابتدائی طور پر آپ ایک معمولی طالبعلم تھے لیکن حضرت خلیفۃالمسیحؓ کی خاص صحبت میں آپ علمی لحاظ سے اس قابلیت کو پہنچے کہ مولوی فاضل کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کریں۔ عربی فاضل کے بعد جب آپ سرکاری ملازمت کے طور پر ٹیچر لگے تو آپ کو دلی سکون نہ ملا۔ لیکن جلد ہی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپ کے وقف کو قبول فرماتے ہوئے انڈونیشیا جانے کا ارشاد فرمایا۔ ستمبر 1925ء میں آپ سماٹرا کے ایک گاؤں ’’تایاتوان‘‘ میں پہنچے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ’’پاڈانگ‘‘ کو اپنا مرکز بنایا۔ جلد ہی آپ نے زبان سیکھ لی اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے قابل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں مخلص جماعت قائم فرمادی۔ آپ نے قرآن کریم کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرواکر اپنے کام کا آغاز کیا اور تعلیم و تدریس کے ذریعہ پیغام احمدیت کی راہ ہموار کی۔ آپ اپنے سادہ ہندوستانی لباس میں رہتے تھے۔ آپ کے علم و فضل سے متأثر ہوکر بہت سے علماء بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔
حضرت مولوی صاحب نے انڈونیشیا میں چار سال خدمت کی اور 1930ء میں واپس قادیان آگئے۔ چند ماہ بعد حضورؓ کے ارشاد پر دوبارہ انڈونیشیا روانہ ہوئے۔ اس مرتبہ محترم مولوی محمد صادق صاحب سماٹری بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
1936ء میں آپ واپس قادیان آئے اور اگلے ہی سال حضورؓ کے ارشاد پر ایک بار پھر انڈونیشیا روانہ ہوگئے۔ 1938ء میں خلافت جوبلی کی تقریبات میں شرکت کے لئے آپ حضورؓ کی اجازت سے کچھ روز کے لئے قادیان آئے اور پھر واپس تشریف لے گئے اور لمبے عرصہ تک خدمات بجالانے کے بعد 1950ء میں واپس قادیان تشریف لائے۔
حضرت مولوی صاحب نے اسلام کی تائید میں کثرت سے کتب اور مضامین لکھے۔ بکثرت مناظرے، مباحثے اور علمی گفتگو کی۔ آپ نے نظام جماعت احمدیہ کو انڈونیشیا میں مضبوط کیا اور جناب محی الدین صاحب کو 1934ء میں انڈونیشیا جماعت کا نگران اعلیٰ مقرر فرمایا۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے لئے آپ نے خاص کوشش فرمائی۔ باقاعدہ قیام آپ کے قادیان واپس آجانے کے ایک سال بعد 1951ء میں عمل میں آیا۔ 1949ء میں آپ نے انڈونیشیا میں مجلس شوریٰ منعقد کروائی جس میں جلسہ منعقد کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔