حضرت مولوی سکندر علی صاحبؓ
حضرت مولوی سکندر علی صاحب ایک گاؤں لکھن کلاں (نزد کلانور) میں چودھری ولی داد صاحب کے ہاں 1865ء میں پیدا ہوئے۔پانچویں تک تعلیم حاصل کرکے قریبی گاؤں دیرووال کے عیسائی مشن سکول میں پڑھانا شروع کردیا۔ وہاں عیسائیوں سے مباحثے بھی ہوئے۔ پہلے آپ وہابی تھے، پھر آپ نے بہت فرقے تبدیل کئے لیکن کہیں بھی سکون نہیں ملا۔ پھر دہریہ ہوگئے اور پھر ملنگ ہوکر سبز چادر اوڑھ لی اور دعاؤں اور نوافل کی طرف توجہ کی۔ ایک رات خواب میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کروائی۔ پھر آپ نے پہلی بار حضورؑ کو اُس وقت دیکھا جب حضورؑ گورداسپور میں پادری مارٹن کلارک کے مقدمہ میں عدالت سے بری ہوئے تھے۔ آپ نے حضورؑ سے ملاقات بھی کی۔ بعد میں کچھ کتابیں پڑھیں اور پھر 30 یا 31؍مارچ 1902ء کو قادیان جاکر بیعت کرلی۔
بیعت کے بعد آپ کی بیوی نے بہت ناراضی کا اظہار کیا اور چچا نے تھپڑ بھی مارا اور گاؤں میں اعلان کروادیا کہ جو بھی آپؓ کو روٹی دے گا اُسے گاؤں سے نکال دوں گا۔پھر آپؓ دیرووال آگئے۔
ایک بار آپؓ اپنے ساتھی حضرت منشی غلام محمد صاحبؓ کے ہمراہ قادیان گئے تو حضرت مسیح موعودؑ نے نماز عصر کے بعد گھر جاتے جاتے فرمایا کہ جو لوگ بیعت کرکے چلے جاتے ہیں اور بار بار قادیان نہیں آتے یا قادیان نہیں رہتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ سن کر آپؓ اور آپؓ کے ساتھی بہت فکرمند ہوئے اور دعا کی کہ قادیان میں رہنے کا کوئی سبب بن جائے۔ جب سکول پہنچے تو پادریوں نے کہا کہ یا تو مرزا صاحب کی بیعت چھوڑ دو یا نوکری چھوڑ دو۔ اس پر ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم نوکری چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ مارچ 1903ء میں انہیں نوکری سے علیحدہ کردیا گیا۔
پھر آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی دعوت پر احمدیہ سکول قادیان میں پڑھانے لگے۔ بیوی احمدی نہیں تھیں لیکن آپؓ کے ہمراہ قادیان آگئیں۔ جلد ہی آپؓ نے قریبی گاؤں بھینی نگر میں رہائش کے لئے مکان خرید لیا۔ یہیں 1904ء میں آپؓ کی اہلیہ بھی احمدی ہوگئیں۔ اُس وقت تک آپؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک بار آپؓ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں اولاد کیلئے درخواستِ دعا کی تو حضورؓ نے فرمایا کہ ہم دعا بھی کریں گے اور دوا بھی۔ پھر 1913ء یا 1914ء میں آپؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔
آپؓ کے گاؤں سے لوگوں نے بار بار آکر آپؓ سے واپس گاؤں چلے آنے کی فرمائش کی لیکن آپؓ یہی جواب دیتے کہ میرے آقا کا حکم تھا کہ میرے پاس آجائیں اس لئے اب یہ در نہیں چھوڑوں گا۔ تقسیم ہند تک آپ بھینی نگر میں مقیم رہے اور احمدیہ سکول میں پڑھاتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد فیصل آباد (لائلپور ) آگئے۔ آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور اپنے پاس مختلف کتابیں اور بائبل ہر وقت رکھتے۔
آپؓ نے اپنے بیٹے عطاء اللہ کی جوانی میں وفات کا صدمہ بہت ہمت اور صبر سے برداشت کیا اور اُس کے چار بچوں اور اپنی بہو کا بہت خیال رکھا۔ آپؓ کی وفات 22؍دسمبر 1955ء کو 90 سال کی عمر میں ہوئی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
آپؓ کا وصیت نمبر 78 ہے۔ 24؍ستمبر 1907ء کو آپؓ نے پانچویں حصہ کی وصیت کی تھی۔ مئی 1928ء میں آپؓ نے ماہانہ آمدنی پر چندہ دسویں حصہ سے بڑھاکر 8/1 کردیا اور 1936ء میں ساتواں حصہ کردیا۔ آپؓ کو نماز باجماعت ادا کرنے کا بہت خیال رہتا۔ نماز تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتے۔ سورۃالبقرہ کے علاوہ بھی قرآن کریم کی کئی سورتیں حفظ تھیں۔
آپؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍مئی 2003ء میں مکرم شاہد محمود احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔