حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ – سراپا عجز و انکسار
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے نہایت ہی مخلص اور فدائی صحابی حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے بارے میں مکرم کرنل دلدار احمد صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جون 1997ء میں شاملِ اشاعت ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ ادرحمہ ضلع سرگودھا میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد حضرت مولوی نظام الدین صاحبؓ ادرحمہ کے امام اور جید عالم تھے۔ والدہ بھی بہت نیک اور حافظہ قرآن تھیں۔ آپؓ کے بڑے بھائی حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ B.A; L.L.B کو حضورؑ کے 313؍ اصحاب میں شمولیت کا شرف حاصل تھا اور وہ ایک لمبا عرصہ امیر جماعت احمدیہ سرگودھا بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ ایک بار کسی نے حضرت حافظ صاحبؓ سے دریافت کیا ’’حافظ صاحب! کیا آپ بڑے ہیں یا مولوی شیر علی صاحبؓ؟‘‘۔ حضرت حافظ صاحبؓ نے جواباً فرمایا ’’مولوی شیر علی صاحبؓ بڑے ہیں، تاہم پیدا میں پہلے ہوا تھا‘‘۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے پہلی دفعہ 22 سال کی عمر میں 1897ء میں قادیان تشریف لاکر حضرت مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ 1899ء میں آپؓ نے ایف۔سی کالج لاہور سے B.A. کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ پنجاب گورنمنٹ نے آپؓ کو سول جج کے اعلیٰ عہدہ کی پیشکش کی لیکن آپؓ نے قادیان جاکر اپنے آقا کے قدموں میں خود کو پیش کردیا۔ آپؓ سب سے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے اور 1899ء سے 1910ء تک یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ آپؓ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ہر شاگرد گویا آپؓ کا عاشق زار تھا کیونکہ طلباء کو نہ صرف قابل ترین استاد مل گیا تھا بلکہ شفیق ترین باپ بھی میسر آگیا تھا۔ ان کے شاگرد بسااوقات ان کے ذکر سے قلوب میں رقّت اور آنکھوں میں آنسو محسوس کرتے ہیں۔
حضرت مولوی صاحبؓ سکول کی ملازمت کے بعد رسالہ ’’ریویو آف ریلیجینز‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور نہایت شستہ انگریزی میں شاندار مضامین رقم کئے جن کے اہل زبان بھی معترف تھے۔ دوسری طرف سادگی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپؓ اپنے گھر کے قریب ہی اپنی بھینس چرا رہے تھے۔گریبان کھلا اور سادہ سا لباس زیب تن تھا۔ دو انگریز افسر قادیان آئے اور گزرتے گزرتے آپؓ سے ’’ریویو آف ریلیجینز‘‘ کے ایڈیٹر کے مکان کے بارے میں دریافت کیا۔ آپؓ انہیں ہمراہ لے کر اپنے گھر تشریف لائے اور اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ہم تو سمجھے تھے کہ رسالہ کا ایڈیٹر کوئی انگریز ہوگا۔ ادارتی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے ماتحت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کیلئے مقرر ہوئے اور آپؓ کی بقیہ زندگی اسی پاکیزہ مشن کی بجاآوری میں گزری۔ اس مقصد کیلئے آپؓ 3 سال کیلئے انگلستان بھی تشریف لے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ جب قادیان سے باہر تشریف لے جاتے تو بالعموم حضرت مولوی صاحبؓ کو ہی قادیان کا امیر مقامی مقرر فرمایا کرتے۔ 24ء میں جب حضورؓ انگلستان تشریف لے گئے تو حضرت مولوی صاحبؓ پورے برصغیر کے امیر مقرر ہوئے۔ حضرت مولوی صاحبؓ سے ’’السلام علیکم‘‘ کہنے میں پہل کرنا ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار فرمایا تھا کہ حضرت مولوی صاحبؓ جب امام الصلوٰۃ ہوتے تو ’’اھدناالصراط المستقیم‘‘ اتنی بار پڑھتے کہ مقتدین کو ایسا احساس ہوتا جیسے گراموفون ریکارڈ کی سوئی اس آیت پر اٹک گئی ہو۔
حضرت مولوی صاحبؓ مجسم انکسار تھے۔ محترم ملک غلام فرید صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی غیرموجودگی میں ایک بار حضرت مولوی صاحبؓ نے نماز جمعہ پڑھائی اور پھر سنتیں شروع کیں تو اتنی لمبی ہوگئیں کہ مسجد نمازیوں سے خالی ہوگئی۔ مجھے کسی دوست کا انتظار تھا اس لئے بیٹھا رہا۔ آپؓ نماز پڑھتے رہے، پڑھتے رہے یہانتک کہ میں بھی چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد دوست کے ہمراہ واپس مسجد پہنچا تو مولوی صاحبؓ وہاں اکیلے اپنے بازؤں کا تکیہ بنائے سو رہے تھے۔ شدید گرمیوں کے دن تھے۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ یہ مولوی صاحبؓ آجکل ہمارے امیر ہیں اور ہم ان کی اسی طرح فرمانبرداری کرتے ہیں جیسے امیرالمومنین کی لیکن یہ غریب دل انسان کس سادگی سے خالی زمین پر سو رہا ہے۔
محترم مولوی تاج الدین صاحب مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ جلسہ سیرۃ النبیؐ میں تقریر کیلئے جالندھر جاؤں۔ میں نے بخار کی وجہ سے معذرت کردی۔ اگلے روز آپؓ نے ہدایت کی کہ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کروں جو میں نے بھیج دیا۔ جلسہ سے ایک روز پہلے آپؓ میرے مکان پر تشریف لائے اور حال دریافت کرنے کے بعد مجھے کچھ رقم دے کر فرمایا یہ جالندھر جانے کا خرچ ہے … مجھے کوئی اور موزوں آدمی نہیں مل سکا اسلئے آپ تشریف لے جائیں میں آپ کی صحت کیلئے دعا کروں گا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے کچھ اس انداز سے جانے کا ارشاد فرمایا کہ میں انکار نہ کرسکا اور اگلے روز علی الصبح گاڑی پر سوار ہونے کیلئے پلیٹ فارم پر پہنچا تو دیکھا کہ آپؓ پلیٹ فارم پر ٹہل رہے ہیں۔ میں نے مصافحہ کیا تو حضرت مولوی صاحبؓ مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا ’’میں ایک جاہل اور بیوقوف آدمی ہوں۔ دراصل اپنے کلرک کے کہنے پر میں نے آپ سے ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ طلب کرلیا تھا ورنہ میری طبیعت ایسا نہیں چاہتی تھی۔ میں بہت شرمسار ہوں اور معافی مانگنے آیا ہوں‘‘۔ … غور کیجئے یہ سراپا عجز و انکسار وہ شخص تھا جسے حکومت نے سول جج کا عہدہ پیش کیا تھا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کے ایک عزیز مکرم بدر سلطان صاحب کا بیان ہے کہ میں نو دس برس کا تھا جب پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ پر قادیان آیا اور آپؓ کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچا۔ آپ جوتوں کے قریب ہی خالی جگہ پر بیٹھ گئے تو یہ امر مجھے طبعاً ناگوار گزرا اور میں نے فوراً پوچھا کہ چچا جان لوگ تو آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جگہ تلاش کرتے ہیں آپ کیوں جوتوں میں بیٹھتے ہیں۔ فرمایا ’’بیٹا! میں نے جوتوں میں ہی رہ کر سب کچھ حاصل کیا ہے!‘‘۔ یہ فقرہ نہ صرف حضرت مولوی صاحبؓ کے انکسار پر مبنی ہے بلکہ ایک لفظی حقیقت بھی ہے ۔ مضمون نگارسے بعض بزرگوں نے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحبؓ مسجد مبارک میں اس جگہ بیٹھتے جہاں حضورؑ نے اپنے نعلین اتارنے ہوتے تھے۔ اور جب حضور نماز پڑھنے کیلئے تشریف لاتے تو حضرت مولوی صاحبؓ حضورؑ کے نعلین اپنی چادر کے دامن سے صاف کرتے اور پھر انہیں سیدھا کرکے رکھ دیتے۔
۔…٭…٭…٭…۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے بارے میں ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 28 و 29 مئی 1998ء میں مکرم پروفیسر سعود احمد خانصاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس سے قبل بھی ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بعض مضامین حضرت مولوی صاحبؓ کے بارے میں شائع ہوچکے ہیں اسلئے ذیل میں زیادہ تر وہی امور پیش کئے جاتے ہیں جو گزشتہ سے اضافہ ہیں۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب 24؍دسمبر 1875ء کو ادرحمہ ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ 1897ء میں قادیان جاکر دستی بیعت کی توفیق پائی۔ حضرت اقدسؑ نے آپؓ کا نام اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اور ’’انجام آتھم‘‘ میں 313؍ اصحاب کی فہرست میں شامل فرمایا ہے۔ B.A. میں آپؓ نے یونیورسٹی میں ساتویں پوزیشن حاصل کی اور آپ کو اعلیٰ سول سروس کی پیشکش ہوئی لیکن آپؓ نے خود کو خدمت دین کے لئے پیش کردیا اور قادیان چلے آئے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ جب مستقلاً قادیان آگئے تو آپؓ کی صحت بہت کمزور تھی۔ حضورؑ نے آپؓ کا بازو پکڑ کر فرمایا ’’میں تب خوش ہوں گا جب شیر علی کا بازو دوگنا موٹا ہو جائے گا‘‘۔ پھر فرمایا ’’شیرعلی دودھ بہت پیا کرو‘‘۔ چنانچہ آپؓ کئی بار صرف دودھ پی کر گزارہ کرتے اور دن میں سولہ سیر تک دودھ بھی پی لیتے۔ حضورؑ کی توجہ اور دعا کی برکت سے جلد ہی صحت بہت اچھی ہوگئی۔ 1899ء میں آپؓ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈماسٹر مقرر کیا گیا اور 1903ء سے 1905ء تک کے وقفہ کے علاوہ 1910ء تک آپؓ یہ خدمت بجا لاتے رہے۔ اس دوران ’’ریویو آف ریلجنز‘‘ کی قلمی معاونت بھی آپؓ نے مسلسل جاری رکھی اور کئی ضخیم مضامین تحریر فرمائے۔ریویو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ پھر آپؓ کے سپرد قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کا کام کیا گیا اور جن جید علماء کو اس اہم کام میں آپؓ کی مدد کی توفیق ملی ان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی شامل تھے۔ حضرت میاں صاحبؓ فرماتے ہیں ’’حضرت مولوی صاحبؓ باوجود پیرانہ سالی کے جس محبت اور شغف اور توجہ کے ساتھ قرآن مجید کا کام کرتے تھے وہ ہم سب کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔ انگریزی زبان میں حضرت مولوی صاحبؓ کا مقام بہت بلند تھا اور نہایت صاف اور صحیح اور بامحاورہ انگریزی لکھتے تھے جس کی سلاست اور صحت پر رشک آتا تھا‘‘۔
حضرت مولوی صاحبؓ بہت سادہ مزاج اور درویش صفت تھے۔ قادیان کے غریب سے غریب انسان کو یہ احساس تھا کہ حضرت مولوی صاحبؓ کو سلام میں پہل کرنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔ محترم ملک غلام فرید صاحب کو بھی ایک لمبا عرصہ آپؓ کے ہمراہ ترجمہ قرآن میں مدد کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ وہ بہت سے واقعات بیان کرتے ہیں جب حضرت مولوی صاحبؓ نے پیرانہ سالی میں خود انتہائی تکلیف اٹھانے کے باوجود بھی کسی کے سامنے اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دوسروں کے آرام کو مقدّم رکھا۔
محترم ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ قادیان سے کہیں باہر تشریف لے جاتے تو حضرت مولوی صاحبؓ کو امیر مقامی مقرر فرماتے۔ ایک بار شدید گرمیوں کے موسم میں حضرت مولوی صاحبؓ نے نماز جمعہ پڑھائی اور پھر اتنی لمبی سنتیں ادا کرنی شروع کیں کہ مسجد نمازیوں سے خالی ہوگئی۔ میں بیٹھا کسی کا انتظار کر رہا تھا، آخر میں بھی چلا گیا۔ کچھ دیر بعد واپس آیا تو دیکھا کہ مولوی صاحبؓ مسجد میں اکیلے اپنے بازؤں کا تکیہ بنائے سو رہے ہیں۔
اگرچہ حضرت مولوی صاحبؓ دفتری افسر بھی تھے اور دفتری آئین و ضابطہ ملحوظ رکھتے تھے لیکن جہاں خدمت خلق کی بات ہوتی تو وہاں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر مدنظر رہتا تھا:
مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمتِ خلق است
(یعنی میرا مقصد اور خواہش مخلوق کی خدمت کرنا ہے)
چنانچہ جنگ عظیم دوم میں کسی دوسرے صوبے کے ایک احمدی دوست کرایہ کا مکان لے کر اپنے بال بچوں کو قادیان چھوڑ گئے۔ کئی روز بعد اُن کی بیوی مکرم عبدالرحمان شاکر صاحب کے گھرآئیں اور بتایا کہ اُن کے ہاں خورونوش کی اشیاء بہت دیر سے ختم ہیں۔ شاکر صاحب نے باقاعدہ انتظام کے لئے امیر مقامی حضرت مولوی صاحبؓ سے رابطہ کیا تو آپؓ نے اُسی وقت کہیں سے کچھ رقم لاکر شاکر صاحب کو مہیا کی اور کہا کہ محض رقم دینا کافی نہیں بلکہ ہر قسم کی ضروریات بازار سے مہیا کرنا بھی آپکی ذمہ داری ہے ۔ اور پھر شام کو دوبارہ دریافت فرمایا کہ کوئی ضرورت تو باقی نہیں؟۔
قادیان میں ایک دفعہ انفلوئنزا اور ٹائیفائیڈ کی وبا پھیلی تو حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنے طور پر ٹیکوں اور ڈاکٹر کا انتظام کیا اور غرباء کے گھروں میں خود جا جا کر اُن کو ٹیکے لگوانے کی تلقین کی۔
ایک موسم سرما میں حضرت مولوی صاحبؓ نماز فجر کے بعد مسجد مبارک کی سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ ایک آدمی نے عرض کیا کہ میں ایک غریب مسافر ہوں اور سردی سے بچنے کیلئے مناسب کپڑے نہیں ہیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے اُسی وقت اپنے کندھوں پر سے اٹلی کا بنا ہوا نیا کمبل اتار کر اُسے دے دیا اور خود بغیر کمبل کے اپنے گھر تشریف لے گئے۔
مکرم ماسٹر فضل حسین صاحب کا بیان ہے کہ ایک موقعہ پر جب قادیان کے اکثر احمدی حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر سننے کیلئے لاہور تشریف لے گئے تو سیرۃ النبیؐ کے جلوس کی حاضری غیرمعمولی کم ہوگئی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ امیر مقامی حضرت مولوی صاحبؓ تشریف لائے اور فرمایا میرے لائق کوئی خدمت ہے؟۔ میں بہت شرمسار ہوا لیکن موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاکر عرض کیا کہ وہ دوست جو قادیان میں موجود ہیں لیکن جلوس میں شامل نہیں ہوئے انہیں تحریک فرمائیں۔ یہ سن کر حضرت مولوی صاحبؓ نہایت خندہ پیشانی سے تشریف لے گئے اور خود مختلف گلی کوچوں اور گھروں سے لوگوں کو تحریک کرکے جلوس میں بھجواتے رہے، پھر جلوس ترتیب دینے میں بھی مدد فرمائی اور آخر وقت تک جلوس میں شریک رہے۔
حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پہلی بار حضرت مولوی صاحبؓ کو قادیان میں 1905ء میں دیکھا تھا جبکہ میں آپکو جانتا نہ تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ معہ اہل و عیال گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر واپس تشریف لارہے تھے۔ جب آپؓ ایک تانگہ میں مسجد مبارک کے سامنے والے چوک میں پہنچے تو وہاں موجود کچھ لڑکے شوق سے لپکے گویا اُن کے بہت قریبی عزیز آگئے ہوں۔ اتنے میں اور لڑکے بھی آگئے۔ کوئی ان کا بستر اٹھا رہا ہے، کوئی ٹرنک، کوئی اور سامان، کسی نے بچے کو گود میں اٹھالیا۔ میں حیران تھا کہ یہ کون صاحب ہیں جن کے گرد دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر لڑکے جمع ہوگئے۔ تب علم ہوا کہ یہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہیں۔
حضرت مولوی صاحبؓ کا نام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے الہام میں ’’فرشتہ‘‘ رکھا تھا۔ 1936ء سے 1938ء تک آپؓ ترجمہ قرآن کے سلسلہ میں انگلستان میں قیام پذیر رہے۔ جب آپ انگلستان روانہ ہو رہے تھے تو قادیان کے بہت سے ہندو اور سکھ بھی الوداع کہنے کیلئے اسٹیشن پر موجود تھے اور اکثر نے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ہی دعا کیلئے ہاتھ بھی اٹھائے۔ وہ سب حضرت مولوی صاحبؓ کو ایک برگزیدہ شخصیت سمجھتے تھے اسی لئے دوسرے دیہات کے لوگ بھی قادیان آکر آپؓ سے اپنے کنوؤں کے سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے قیام انگلستان کے بارے میں ایک انگریز احمدی بلال نٹل نے بے ساختہ کہا “He was an angel”.
1940ء میں جب مجلس انصاراللہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مولوی صاحبؓ اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے اور 1947ء تک اس منصب پر فائز رہے۔