حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جون اور 12؍جون 2003ء میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے اخلاق عالیہ کے متفرق واقعات بیان ہوئے ہیں۔
مکرم عبدالسلام اختر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی صاحبؓ گزر رہے تھے کہ پاس ہی گلی ڈنڈا کھیلنے والے بچوں میں سے کسی نے گُلی کو اس زور سے پھینکا کہ وہ آپؒ کے سر پر لگی۔ مَیں نے غصہ سے اُس لڑکے کو آواز دے کر بلایا تو حضرت مولوی صاحبؓ نے میری آواز سن کر فوراً پیچھے دیکھا اور فرمایا: ’’بچوں کو مارنا ٹھیک نہیں، صرف سمجھا دیں کہ گزرگاہوں پر نہ کھیلا کریں‘‘۔
مکرم تاج الدین صاحب بیان کرتے ہی کہ ایک دفعہ لائبریری میں مَیں مطالعہ میں مصروف تھا اور حضرت مولوی صاحبؓ اپنے تحریری کام میں مشغول تھے کہ آپؓ کو کسی کام سے باہر جانا پڑا۔ آپؓ نے اپنی چھتری مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا دھیان رکھیں۔ مَیں ’’بہت اچھا‘‘ کہہ کر پھر مطالعہ میں محو ہوگیا۔ کچھ دیر بعد آپؓ تشریف لائے تو چھتری نہ ملی۔ آپؓ نے مجھ سے پوچھا تو مَیں نے عذر کیا کہ مجھے چھتری کی حفاظت کا خیال نہیں رہا۔ آپؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’دراصل مطالعہ کتب ایسی ہی محویت سے ہونا چاہئے‘‘۔ آپؓ کی چھتری اگلے روز مل گئی لیکن آپؓ کی چشم پوشی اور بردباری کی یاد میرے دل سے فراموش نہ ہوسکی۔
حضرت ماسٹر فقیراللہ صاحب خلافت ثانیہ کے انتخاب پر بیعت کرنے کی بجائے لاہور چلے گئے۔ 1920ء میں وہ ایک شادی پر قادیان گئے تو اتفاق سے حضرت مولوی صاحبؓ سے ملاقات ہوگئی۔ آپؓ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا: ’’ماسٹر صاحب! بعض لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی خدمات ہوتی ہیں کہ ان میں کوئی کمزوری بھی ہوتو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ لیکن ہمیں بڑی احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہو۔ آپ کو بیعت کرلینی چاہئے اور مولوی صاحب کی ریس نہیں کرنی چاہئے‘‘۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں سمجھ گیا کہ آپؓ کا پہلا اشارہ مولوی محمد علی صاحب کی طرف ہے اور دوسرا میری طرف، اس نصیحت نے میرے دل کی گہرائیوں میں ایسا اثر چھوڑا کہ بالآخر مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کی توفیق مل گئی۔
حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضرت مولوی صاحبؓ کو جب کسی دوست سے کوئی دنیاوی قسم کی بات کرنا ہوتی تو آپؓ مسجد کے احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کو مسجد سے باہر لے جاتے اور بات ختم ہونے پر مسجد میں تشریف لاتے۔
مکرم چودھری شبیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک عزیز جب بسلسلہ ملازمت سمندر پار گئے تو عرصہ دراز تک لاپتہ ہوگئے اور طویل انتظار نے اُن کے عزیز و اقارب کو اُن کی زندگی سے بھی مایوس کردیا۔ مَیں جب بھی حضرت مولوی صاحبؓ سے اُن کی خاطر دعا کے لئے عرض کرتا تو آپؓ فرماتے کہ مَیں نے دعا کی ہے، وہ خدا کے فضل سے بخیریت ہیں۔ چنانچہ قریباً چار پانچ سال بعد حکومت کی طرف سے ہمیں اُن کی خیریت کی اطلاع ملی اور 1945ء میں وہ بھی واپس آگئے۔
محترم ماسٹر محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1937ء سے 1942ء تک میری ایک ہی لڑکی تھی اور مَیں اولاد نرینہ کا بے حد خواہشمند تھا۔ ایک روز حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں تحریراً عرض کیا تو آپؓ نے تحریری جواب میں لکھا کہ ’’مَیں نے دعا کی ہے، خدا تعالیٰ آپ کو نرینہ اولاد عطا کرے گا‘‘۔ چنانچہ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے لڑکا عطا فرمایا۔
مکرم محمد حسین جہلمی صاحب ٹیلر ماسٹر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولوی صاحب موضع پھلروال تشریف لائے تو ایک غیراحمدی عورت کی درخواست پر مَیں نے اُس کیلئے دعا کی درخواست کی کہ اُس کی شادی کو چھ سات سال کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن وہ اولاد سے محروم ہے۔ آپؓ نے اُسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیئے۔ ایک سال کے اندر اُس عورت کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا فرمادیا۔
مکرم شیخ فضل حق صاحب کا بیان ہے کہ میرے بھائی سراج الحق کو ایک خطرناک مرض ہوا کہ ڈاکٹروں نے بھی جواب دیدیا۔ مَیں نے باقاعدگی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے دعا کے لئے عرض کرنا شروع کیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے ایک دعا لکھ کر مجھے ارسال کی کہ اس دعا کو ہر روز بلاناغہ پڑھ کر مریض پر دم کیا کرو۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف پانچ سات روز میں ہی میرے بھائی کو صحت عطا ہوگئی۔