حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ
حضرت مولوی غلام رسول صاحب رضی اللہ عنہ 1877ء یا 1879ء میں راجیکی ضلع گجرات میں ایک بزرگ صوفی گھرانہ میں تولد ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کی والدہ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے تمام گھر جگمگا اٹھا ہے۔ لڑکپن سے ہی آپ کا رحجان تصوف کی طرف تھا چنانچہ نہ صرف بکثرت روزے رکھا کرتے بلکہ روزانہ کئی وظائف بالالتزام کیا کرتے اور ریگستانی ٹیلوں پر جاکر گھنٹوں یاد الٰہی میں رویا کرتے اور دعائیں کرتے۔ ان دنوں آپؓ نے رؤیا دیکھا کہ ایک جدّی بزرگ نے آپؓ کو آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ ایک مرتبہ دیکھا کہ آپؓ نے خود کو آنحضرتﷺ کے لشکر میں بھرتی ہونے کے لئے پیش کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا کہ گیارہ انبیائے کرام نے آپؓ کو ایک اندھے کنوئیں سے باہر نکالا ہے۔ ایک بار حضرت جبریل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا ’’غلام رسول جھولی کر‘‘ آپؓ نے دامن پھیلایا تو جبریل نے چودھویں کا چاند جھولی میں ڈال دیا…۔
18 سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ پڑھ کر ستمبر یا اکتوبر 1897ء میں آپؓ نے اپنی بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس پر علماء سوء نے آپؓ کے کفر اور کم علمی کا خوب چرچا کیا۔ تب آپ کو الہام ہوا: ’’مولوی غلام رسول جوان صالح کراماتی‘‘۔ چنانچہ پھر کئی مولویوں کو آپؓ نے مباحثات میں شکست دی اور بے شمار کرامات آپ کے ہاتھ پر ظاہر ہوئیں۔
1899ء میں آپؓ اپنے استاد حضرت مولوی امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ حضور علیہ السلام کی زیارت کرنے قادیان گئے۔ حضورؑ مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ آپؓ مسجد مبارک کے زینہ پر نذرانہ نکالنے کے لئے رُکے تو اسی اثناء میں حضور علیہ السلام نے مولوی امام الدین صاحبؓ کو، جومسجد میں داخل ہو چکے تھے، فرمایا: ’’وہ لڑکا جو آپ کے پیچھے آ رہا تھا اس کو بلاؤ‘‘۔ چنانچہ وہ واپس لوٹے اور حضورؑ کا پیغام آپؓ کو دیا۔
محترم پرویز پروازی صاحب کا یہ مضمون ’’بدر‘‘ 7و 21 مارچ 1996ء کی زینت ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ اپنی خودنوشت سوانح ’’حیات قدسی‘‘ میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار اخراجات کے لئے رقم نہیں تھی اور بہت پریشانی تھی۔ دفتر سے حکم ملا کہ دہلی اور کرنال جانے کے لئے تیار ہو کر دفتر میں آجائیں۔ آپؓ کی اہلیہ نے کہا کہ لمبے سفر پر جارہے ہیں اور گھر میں گزارہ کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا ’’میں سلسلہ کا حکم ٹال نہیں سکتا کیونکہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے‘‘۔ پھر آپؓ نے گھر کی حالت سامنے رکھ کر نہایت تضرّع سے دعا کی اور روانہ ہونے کے لئے دروازہ کی طرف قدم بڑھا دئیے کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ باہر کھڑے ہوئے شخص نے بتایا کہ کسی نے سوروپیہ بھیجا ہے۔ آپؓ نے فرمایا ’’میں تو اب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خورونوش لینا ہے، وہ آپ میرے گھر پہنچا دیں کیونکہ میرا اب دوبارہ گھر میں جانامناسب نہیں‘‘۔ چنانچہ آپؓ نے بازار سے سامان خرید کر اُنہیں دیا اور بقیہ رقم بھی اُن کے ہاتھ گھر بھجوا دی۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ بغرض تبلیغ ہندوستان بھر میں دورے فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جھنگ تشریف لائے تو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اس وقت کمسن تھے اور آپ نے بولنا شروع نہیں کیا تھا جس پر آپ کی والدہ قدرے پریشان تھیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں بچے کو پیش کر کے دعا کی درخواست کی۔ حضرت مولوی صاحب ؓ نے ننھے عبدالسلام کو گود میں اٹھالیا اور پیار سے کہا : ’’اوئے گونگلو توں بولدا کیوں نئیں!‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے دعا کی اور فرمایا ’’یہ اتنا بولے گا کہ دنیاسنے گی‘‘۔ چنانچہ ایک عالم گواہ ہے کہ یہ دعائیہ کلمات کس شان سے پورے ہوئے۔
محترم عبدالحمید چودھری صاحب کے قلم سے یہ واقعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ اپریل 1996ء کی زینت ہے۔