حضرت مولوی فرزند علی خانصاحب
حضرت مولوی فرزند علی خانصاحب کے حالات زندگی قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 8؍مارچ 2002ء کے اسی کالم کی زینت بن چکے ہیں۔ آپ کے پوتے مکرم شیخ ناصر احمد خالد صاحب کے قلم سے ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی ایک اشاعت میں شامل ہے جس میں بیان کردہ اضافی امور ذیل میں پیش ہیں۔
ہمارا خاندان سکھوں کی عملداری سے پیشتر ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے کسی نواحی گائوں سے موضع ’’صریح‘‘ تحصیل نکودر ضلع جالندھر میں آکر آباد ہوگیا۔ حضرت خانصاحب کے والد کا نام حضرت حکیم میاں عمر الدین صاحبؓ اور دادا کا نام حکیم میاں غلام محی الدین صاحب تھا۔ خاندان کے مورث اعلیٰ حکیم میاں صریح الدین صاحب تھے جن کے نام پر ہی گائوں کی بنیاد پڑی۔ ان سب بزرگوں کا آبائی پیشہ حکمت تھا۔
حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی خانصاحب 27؍ اکتوبر 1874ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے ماموں حضرت خانصاحب منشی برکت علی خانصاحب شملویؓ 1902ء میں احمدیت قبول کرچکے تھے اور آپؓ کی والدہ محترمہ اور نانی صاحبہ بھی اسی سال بیعت کی سعادت پا چکی تھیں۔ تاہم حضرت خانصاحب نے خود لمبی تحقیق کے بعد 1909ء میں خلافت اولیٰ میں بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن پھر آخر دم تک اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کئے رکھی۔
1928ء میں آپ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد قادیان آ گئے۔ 1928ء سے 1932ء تک انگلستان میں بطور امام مسجد فضل لندن خدمات سرانجام دیں۔ پھر کچھ عرصہ ناظر امور عامہ و خارجہ کے طور پر کام کیا۔ بعد ازاں 1934ء سے 1946ء تک اور پھر پاکستان بننے کے بعد 1950ء سے 1955ء تک ناظر مال ربوہ کے عہدے پر فائز رہے۔ نیز اوائل میں ایک سال افسر جلسہ سالانہ کے فرائض بھی ادا کئے۔ اس طرح قریباً 27سال تک صدر انجمن احمدیہ میں شاندار خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔
آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’آپ بڑی خوبیوں کے مالک اور اول درجہ کے مخلصین میں شامل تھے اور تنظیم کا غیر معمولی مادہ رکھتے تھے۔ چنانچہ قادیان آنے سے قبل فیروز پور اور راولپنڈی کی جماعتوں میں بہت کامیاب امیر رہے۔ پنشن پانے کے معًا بعد آپ نے اپنے آپ کو خدمات سلسلہ کے لئے وقف کر دیا۔ … خانصاحب مرحوم نمازوں کے بہت پابند اور دعائوں اور وظائف میں خاص شغف رکھتے تھے۔
حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد حضرت خانصاحب کو ’’داعیان خلافت ثانیہ‘‘ میں شمولیت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ان داعیان کی طرف سے احباب جماعت کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کی تحریک اخبار ’’الفضل‘‘ میں کی گئی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خلافت سے قبل ایک رؤیا کی بنا پر حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے فروری 1911ء میں انجمن ’’انصار اللہ‘‘ بنائی۔ حضرت خانصاحب کا نام اس تحریک کی فہرست ممبران میں چوتھے نمبر پر درج ہے۔
آپ نے انجمن احمدیہ فیروز پور کے 31جولائی اور یکم اگست 1909ء کو ہونے والے دو روزہ جلسہ سیرۃالنبیﷺ کے دوران اپنی قبول احمدیت کا اعلان کیا۔ اس جلسہ کی صدارت کے فرائض بھی آپ ہی سرانجام دے رہے تھے۔ قبول احمدیت کے اعلان کے بعد آپ نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ایک تقریر بھی کی جس میں فرمایا -: ’’میں نے ایک دفعہ شیخ نجم الدین صاحب افسر مال فیروز پور سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ ہمارے خاندانی پرانے تعلقات مرزا صاحب سے ہیں۔ اور ہمیں ان کے حالات سے بخوبی آگاہی ہے۔ اگرچہ مرزا صاحب کا دعویٰ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ وہ راستباز ہیں اور کبھی جھوٹ بولنے والے یا افتراء کرنے والے نہیں۔ اس شہادت نے میرے دل پر بہت اثر کیا کیونکہ یہ شہادت ایک غیر احمدی کی طرف سے ہے‘‘۔
بیعت کے بعد خانصاحب کے ایک دیرینہ دوست مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے فیروز پور آ کر آپ کے مکان کے ساتھ ملحقہ مکان کے وسیع صحن میں ایک لیکچر دیا اور حیات مسیح کے حق میں دلائل دیئے۔ اس کے جواب میں آپ نے ایک کتاب لکھی جس میں بالوضاحت مولوی صاحب کے بیانات کا ردّ کیا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے کتاب کے نام کے متعلق دریافت کیا گیا۔ تو حضور نے فرمایا یہ نام رکھو۔ ’’فرزند علی بجواب ابراہیم‘‘۔
حضرت خانصاحب نے 3جون 1922ء کو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب سے فیروز پور میں ایک کامیاب مناظرہ کیا جس کی پوری تفصیل اخبار الفضل قادیان میں شائع ہوئی۔
دوران ملازمت آپ نے رخصت لے کر شدھی تحریک میں دعوت الی اللہ کا کام کیا اور آگرہ کے علاقہ میں بحیثیت ’’نائب امیر المجاہدین‘‘ خدمات سرانجام دیں۔ 1913ء میں آپ کو اپنے والد حضرت حکیم میاں عمر الدین صاحبؓ کے ہمراہ حج کعبہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ 1919ء میں جب جماعت احمدیہ میں امارت کا نظام قائم ہوا تو حضرت خانصاحب ’’امیر جماعت احمدیہ فیروز پور‘‘مقرر کئے گئے۔
آپ کو اپنی انگریزی قابلیت بڑھانے کا بہت شوق تھا اور ہمیشہ انگریزی کتب زیر مطالعہ رکھتے۔ پانچ سالہ سروس کے بعد آپ کو دفتر کے لائبریری سیکشن کا انچارج بنا دیا گیا اور مزید دو سال بعد دفتر کے Establishment کے انچارج مقرر ہوئے۔ دوران سروس آپ نے بیشمار احمدی احباب کو میرٹ پر اپنے محکمہ میں بھرتی کیا جس پر مخالفت بھی ہوئی لیکن تحقیق میں یہی نتیجہ نکلتا کہ تمام تقرریاں قواعد و ضوابط کے مطابق کی گئی ہیں۔
ایک بارجب آپ کا انگریز چیف کلرک رخصت پر انگلستان چلا گیا تو اس کی جگہ عارضی طور پر ایک انگریز لیفٹیننٹ کا تقرر ہوا جو گو کہ قابل تھا مگر کرنل کے پاس بعض مواقع پر تسلی بخش معلومات مہیا نہ کرسکتا چنانچہ وہ خانصاحب کو کرنل کے پاس بھیجنے لگا۔ ایک روز کرنل کسی اہم خط کا مسودہ تیار کر رہا تھا جس میں اس نے کوئی ایسا انگریزی لفظ استعمال کیا جس کا متبادل بہتر لفظ خانصاحب نے تجویز کر دیا۔ کرنل فوراً چونک پڑا اور اس نے وہ مسودہ مکمل کرنے کے لئے آپ کو ہی دیدیا۔ پھر خانصاحب کو کبھی دفتری پریشانی پیدا نہیں ہوئی۔ تبادلے پر راولپنڈی شہر میں آپ کے اعزاز میں جو شاندار الوداعی پارٹی ہوئی اور اس میں آپ نے جوابی تقریر انگریزی زبان میں اس قدر پُراثر اور عمدہ کی کہ وہاں موجود انگریز بھی آپ کی انگریزی قابلیت کا لوہا مان گئے۔ قیام انگلستان کے دوران آپ لندن روٹری کلب کے ممبر بن گئے۔ انگلستان کے بااثر طبقہ ممبران پارلیمینٹ، لارڈز اور پریس سے ذاتی تعلقات پیدا کئے۔ چنانچہ تینوں گول میز کانفرنسوں کے دوران آپ بطور امام مسجد فضل لندن بہت فعال تھے۔