حضرت مولوی محمد اسماعیل ؓ ہلالپوری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مئی 2009ء میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ ہلالپوری کے بارہ میں مکرم پروفیسر محمد اسلم سجاد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کا ذکر خیر قبل ازیں 8 ستمبر 2000ء کے شمارہ کے اسی کالم میں شائع ہوچکا ہے۔
حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحبؓ ہلالپوری نے 1908ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا تو اپنے خاندان میں احمدیت کی بنیاد بھی رکھ دی۔ آپؓ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کے خاص تلامذہ میں سے تھے اور جماعت کے ابتدائی مولوی فاضل منشی فاضل عالم دین تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب گویا آپؓ کو حفظ تھیں۔ تذکرہ کی تالیف اور سن ہجری شمسی کی تدوین میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ تنویر ابصار، محامد خاتم النبیّین، درود شریف، رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب آپؓ کی تصانیف ہیں۔ جامعہ احمدیہ میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کا طویل موقعہ پایا اور روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اُس زمانہ کے اکثر علماء آپؓ کے شاگرد تھے۔
آپؓ کے احمدی ہونے پر آپؓ کے بڑے بھائی نے آپؓ سے وعدہ لیا کہ تم نے جو کیا سو کیا، اب مجھے تبلیغ نہ کرنا۔ چنانچہ آپؓ نے براہ راست تبلیغ سے تو اجتناب کیا لیکن ایک بار حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ کو ہمراہ لے گئے۔ اس پر چند مخالفین نے رات کی تاریکی میں ان دونوں کو کانٹوں والی زمین میں پھینک دیا۔ تہجد کی نماز پر جانے والے ایک احمدی حضرت حافظ عبدالعزیز نون صاحب نے اِن کے کراہنے کی آواز سنی تو دوسرے لوگوں کی مدد سے انہیں کانٹوں سے نجات دلائی۔ یہ حرکت کرنے والے مخالفین بعد میں عبرتناک انجام کو پہنچے۔ اسی طرح ایک بار آپؓ کے گھر میں چوری بھی کروائی گئی۔ لیکن مجرموں کا علم ہونے پر آپؓ نے انہیں معاف کردیا۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنے آخری وقت میں لواحقین کو ضروری نصائح کیں اور پھر وقت دیکھ کر فرمایا کہ بس دس منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور درود شریف اور ذکر الٰہی کرتے کرتے ٹھیک دس منٹ بعد جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ آپؓ ابتدائی موصیوں میں سے تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے مختلف اوقات میں چار شادیاں کیں اور دو بیویوں سے اولاد ہوئی۔ آپؓ کی ایک اہلیہ (مضمون نگار کی نانی) محترمہ رسول بی بی صاحبہ نے علاقہ میں بے شمار بچوں اور بچیوں کو قرآن پڑھایا۔ عورتیں بکثرت اُن سے دعا کروانے آتیں اور دَم کرنے پر اصرار کرتیں۔ اُن کی وفات پر احمدیوں اور غیروں نے علیحدہ علیحدہ نماز جنازہ ادا کی اور تدفین میں (جو امانتاً گاؤں میں کی گئی) سب ہی شامل ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی ایک دوسری اہلیہ سے جو اولاد ہوئی اُن میں حضرت مولوی محمد احمد جلیل صاحب مرحوم (سابق مفتی سلسلہ) نمایاں ہیں۔