حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ کے بیان فرمودہ ایمان افروز واقعات
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ستمبر و اکتوبر 2009ء میں حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ کی کتاب ’’میری یادیں‘‘ سے چند ایمان افروز واقعات پیش کئے گئے ہیں۔ (مرسلہ: مکرم رانا حماد جاوید احمد صاحب)
٭… حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1935ء میں تبلیغی دورہ جات کے دوران حکم تھا کہ سفر کے لیے اپنے ساتھ بھنے ہوئے چنے وغیرہ رکھ لیا کریں کیونکہ زیادہ تر سفر پیدل ہوتا تھا اور اکثرچالیس پچاس کلومیٹر سے بھی زائد ہوتا تھا۔ ایک بار مَیں سفر پر پیدل روانہ ہوا تو کھانے پینے کا سامان جو پاس تھا وہ دو دن پیدل سفر کے دوران ختم ہوگیا۔ تیسرے دن جنگل میں اکیلا خدا کو یاد کرتا ہوا جارہا تھا کہ اشد بھوک نے ستانا شروع کیا اور کمزوری بہت محسوس ہونے لگی۔ غرضیکہ چلنا بھی مشکل ہوگیا۔ اپنے ہمراہ کتابوں کا جوبیگ اٹھایا ہوا تھا اُسے سرہانہ بنا کر تھوڑی دیر کے لیے ایک فصل کے کنارے لیٹ گیا۔ انتہائی کمزوری کی وجہ سے نڈھال تھا۔ کچھ دیر کے لیے آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ باریش سفید کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں بڑا پیتل کا گلاس لیے ہوئے، جو دودھ سے بھرا ہوا تھا، میرے پاس آئے اور کہنے لگے اسے پی لیں۔ مَیں نے اُن کے ہاتھ سے وہ گلاس لے کر دودھ پی لیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو وہاں کوئی شخص موجود نہیں تھا اور میرا پیٹ بھی بھرا ہوا تھا۔ پھر دوبارہ مَیں چل پڑا۔ راستہ میں مجھے دودھ کے ڈکار آتے رہے اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے مَیں اس طرح منزل پر پہنچا کہ کمزوری کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
٭…ہندوستان میں ایک دفعہ سُنّی علماء سے مناظرہ تھا جس کے لیے پیدل لمباسفر کر کے پہنچنا تھا۔ ایک دوست کوساتھ لے لیا۔ اُسے اپنی جماعتی کتابیں اٹھانے کے لیے دی ہوئی تھیں۔ زیادہ سفر کا حصّہ جنگل میں سے گزرنا تھا۔ راستہ میں بارش شروع ہوگئی ۔ بہت تیز بارش تھی چنانچہ فوری طور پر جو قریب بڑادرخت تھا اُس کے نیچے ہم دونوں نے رُکنا ضروری سمجھا وگرنہ کپڑے اور کتابیں سب کچھ بھیگ جاتا۔
ابھی وہاں کھڑے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے تفہیم ہوئی کہ فوراً درخت کو چھوڑ دینا چاہئے اور اتنی شدّت سے ہوئی کہ مَیں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑکر فوراً بارش میں ہی چلنا شروع کر دیا۔ ابھی ہم چند قدم ہی دُور گئے تھے کہ اُس درخت پر آسمانی بجلی گِری اور وہ دو ٹکڑے ہوگیا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ہم دونوں کو معجزانہ طور پر بچالیا۔ الحمدللہ
٭…1993ء میں کسی مربی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو دو واقعات تحریر کیے تھے جس کی حضورؒ کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحبؓ سے تصدیق بھی کروائی گئی۔ اُن میں پہلا واقعہ چارکوٹ کشمیر کا ہے کہ تبلیغ کرتے ہوئے جب آپؓ وہاں پہنچے تو چوپال پر گاؤں کے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوں قحط کا سا حال تھا۔ لمبے عرصہ سے بارشیں نہیں ہوئی تھیں اور جانور چارہ نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے تھے۔
جب آپؓ نے تبلیغ کرنی شروع کی تو اُن میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم اور ہمارے جانور تو قحط سے مر رہے ہیں، ہم تب آپ کی باتوں کو سچّی مانیں گے کہ یہ چشمہ جو آجکل بالکل خشک ہے اگر آپ دعا کرکے اس میں پانی لادیں۔ آپؓ نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہ بات خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہے ہیں یا تمسخر کے طور پر کہہ رہے ہیں۔ اُن سب نے کہا کہ ہم دل سے یہ بات کہہ رہے ہیں ۔ آپؓ کہنے لگے کہ پھر سب میرے ساتھ آؤ۔ آپؓ اُن کو لے کر چشمہ پر پہنچے اور کہا کہ اس چشمہ کے اردگرد لائن میں جوتیاں اتار کر اُوپر پاؤں رکھ لو اور میرے ساتھ مل کر دعا کرو۔ سخت گرمی کے دن تھے اور زمین پتھریلی اوربہت گرم تھی۔ سب نے خدا کے حضور ہاتھ اٹھا لئے اور آپؓ نے دعا شروع کروائی اور اپنے ربّ سے معجزہ مانگا۔ دعا ابھی جاری تھی کہ اس خشک چشمہ میں ’’غٹ، غٹ‘‘ کی آواز سے پانی آنا شروع ہوا اور وہ چشمہ آج تک خشک نہیں ہوا۔ اس معجزہ کو دیکھنے کے بعد اُن میں سے اکثر احباب نے احمدیت قبول کی۔ جس دوست نے یہ واقعہ حضورؒ کی خدمت میں تحریر کیا تھا وہ اس وقت بچے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ دعا میں شامل تھے۔
٭… دوسرا واقعہ کچھ یوں تھا کہ بٹالہ میں ایک لوہار کو اُس کی دوکان پر جاکر آپؓ اکثر تبلیغ کیا کرتے تھے۔ لیکن وہاں کا غیراحمدی مولوی اُسے آپؓ کے خلاف بھڑکاتا رہتا۔ اور آخر اُسے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ ہتھوڑا مار کر آپؓ کو اپنی دوکان کے اندر ہی ختم کر دے۔ یہ بات آپؓ کے علم میں نہیں تھی لہٰذا حسب معمول آپؓ اُس کی دوکان پر گئے۔ ابھی آپؓ نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ اُس نے لوہے کا ہتھوڑا پکڑ کر آپؓ کے سر پر مارنے کے لیے بازو اٹھایا تو اس کا دایاںبازو رسی پر لٹکائی ہوئی ایک درانتی پر اس زور سے لگا کہ ہتھوڑا گر گیا اور اُس کا بازوکٹ گیا۔ اُس نے شور مچانا شروع کر دیا اور اُسے جب لوگ اٹھا کر لے جا رہے تھے تو وہ کہتا جا رہا تھا کہ ان کا مہدی سچا ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بچا لیا اور اُس کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اقرار بھی کروادیا۔