حضرت مولوی وزیر الدین صاحب رضی اللہ عنہ
روزنامہ ’’ الفضل‘‘ ربوہ 21؍مارچ 1996ء میں حضرت مولوی وزیر الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر آپؓ کے پوتے محترم حکیم دین محمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ ’’ براہین احمدیہ‘‘ کے مطالعہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد ہوئے اور حضورؑ کے دعویٰ سے قبل ہی حضور علیہ السلام کی دعا سے آپؓ کے ہاں چھ لڑکیوں کے بعد 1888ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت اقدسؑ نے ہی محمدعزیزالدینؓ تجویز فرمایا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کا اصل وطن میکریاں ضلع ہوشیارپور تھا لیکن ساری عمر کانگڑہ مڈل سکول میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر گزاری۔ حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شرکائے جلسہ میں 323 نمبر پر آپؓ کا نام بھی رقم فرمایا ہے۔ نیز اپنی کتاب ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں نمبر 14 پر آپؓ کا اور نمبر 166 پر آپؓ کے فرزند حضرت محمد عزیز الدین صاحب ؓ کا نام درج فرمایا ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے 4 ؍اپریل 1905ء کو کانگڑہ میں آنے والے زلزلہ میں پیشگوئی کے مطابق محفوظ رکھا۔ قادیان میں سکونت آپؓ کی خواہش تھی لیکن حضور علیہ السلام کے ارشاد پر سروس نہ چھوڑی۔ البتہ اپنے اہل خانہ کو کچھ عرصہ قادیان میں کرایہ کے مکان میں رکھا۔ اکتوبر 1905ء میں آپؓ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت گو نظام وصیت جاری نہ ہوا تھا لیکن آپؓ نے کئی مالی تحریکات میں حصہ لیا تھا۔ آپ کا اردو اور فارسی منظوم کلام بھی اخبارات میں شائع ہوتا رہا اور حضورؑ بھی اس کلام کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ اپنے علاقے کی معروف علمی شخصیت تھے اور کہا جاتا تھا کہ آپ کی قابلیت کا اس علاقہ میں کوئی اَور شخص نہ تھا۔ جب پہلی مرتبہ آپؓ قادیان تشریف لائے تھے تو حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے چائے لا کر آپؓ کو پلائی تھی۔