حضرت مہر حامد علی صاحبؓ اور حضرت مہر قطب الدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 ؍مارچ 2004ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب نے ایک ایسے والد اور بیٹے کا ذکر خیر کیا ہے جنہیں ابتداء میں ہی حضرت مسیح موعودؑکی غلامی میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مہر حامد علی صاحب قادیان کے ارائیوں میں سے ایمان لانے والے اولین بزرگوں میں سے تھے۔ آپ کے والد کا نام محکم الدین ارائیں تھا۔ آپ نے 31؍مئی 1898ء کو قبول احمدیت کی توفیق پائی۔آپؓ مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ آپ کے حالات زندگی کے متعلق زیادہ علم نہیں صرف آپ کے آخری عمر میں بیمار ہونے اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا آپ کے گھر بغرض عیادت تین بار جانے کا ذکر محفوظ ہے۔ جب تیسرے دن تشریف لائے تو پندرہ منٹ تک پاس بیٹھے رہے اور فرمایا تم گھبراؤ نہیں جس جگہ تم جا رہے ہو ہم بھی وہیں آئیں گے۔ اس کے بعد آپؓ اسی دن دو بجے کے قریب فوت ہوگئے۔ حضرت اقدس ؑ کو اطلاع دی گئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ان کا جنازہ تیار کرکے مدرسہ کے صحن میں لایا جائے اور ہمیں اطلاع دی جائے ان کا جنازہ ہم خودپڑھائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور جنازہ پڑھوانے کے بعد حضور ؑ نے فرمایا کہ یہ ہمارے پرانے مخلص اور جماعت کی مدد کرنے والے شخص تھے۔ پھر ان کو عید گاہ والے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ بعد میں حضورؑ ان کے بڑے بیٹے میاں مہر الدین صاحبؓ کے ساتھ اسی محبت اور پیار سے پیش آتے جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے سے۔
حضرت مہر حامد علی صاحبؓ نہایت غریب مزاج تھے۔ چونکہ ان دنوں مہمان خانہ چھوٹا سا تھا اس لئے بعض دفعہ مہمان آپؓ کے مکان میں بھی ٹھہر جایا کرتے تھے۔ آپؓ کے تینوں بیٹوں کو بھی اصحاب احمدؑ میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا۔ یعنی حضرت میاں مہر الدین صاحبؓ ، حضرت فیروز الدین صاحبؓ اور حضرت مہر قطب الدین صاحبؓ۔
پہلے دو بیٹوں کے حالات تو محفوظ نہیں۔ حضرت فیروزالدین صاحب نے جوانی میں ہی وفات پائی۔ حضرت مہرالدین صاحب نے 14؍جولائی 1918ء کو بعارضہ ٹائیفائیڈ وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ آپ نے وفات سے چند دن پہلے ہی وصیت کا سارا چندہ ادا کر دیا تھا۔ آپ کے تین بیٹے تھے جن میں سے مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی درویشان قادیان میں سے تھے جو 4؍ دسمبر1906ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور نومبر 1929ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے مدرس متعین ہوئے۔ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر ہونے کے علاوہ نظارت دعوت الی اللہ میں بطور نائب ناظر اور ناظر تالیف و تصنیف کی خدمت کی بھی توفیق پائی۔ آپ کو تفسیر قرآن، علم حدیث، احمدیہ لٹریچر اور مذہب عیسائیت اور عقائد مبایعین کے بارہ میں دسترس حاصل تھی۔ احمدیہ لٹریچر میں آپ کے تصنیف کردہ رسائل سے قابل قدر اضافہ ہوا۔ 27؍ دسمبر 1978 ء کو ایک لمبی علالت کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کی وفات پر ’’اخبار البدر‘‘ نے لکھا: ’’اس دورِ درویشی میں حضرت عبد الرحمن صاحب (امیر مقامی وناظر اعلیٰ) کے بعد ہندوستان کی جماعت احمدیہ سب سے بلند پایہ علم دین سے محروم ہو گئی ہے۔‘‘
حضرت مہر حامد علی صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت مہر قطب الدین صاحب تھے جو 1882ء میں قادیان پیدا ہوئے اور 1894ء میں بیعت کی سعادت پائی۔ قادیان میں اپنی زرعی زمین پر زمیندارہ کام کرتے تھے۔ آپؓ کے دو بیٹے تھے۔
قادیان میں ایک مرتبہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو دعوت طعام دی جو حضور ؓ نے ازراہ شفقت دعوت قبول فرمائی۔
1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ 1966ء میں مجلس شوریٰ میں بطور صحابی شمولیت کا اعزاز ملا۔ اسی حیثیت میں مجلس انتخاب خلافت کمیٹی کے بھی ممبر تھے۔ آپؓ بہت مخلص، دعا گو اور صاحب رؤیا بزرگ تھے۔ 15؍اپریل 1967ء کو بعمر85 سال ربوہ میں وفات پائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اگلے روز نماز جنازہ پڑھائی اور جنازہ کو کندھا بھی دیا۔ بعدہٗ بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہؓ میں تدفین عمل میں آئی۔