حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ
حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ فروری 1890ء میں محترم پیر میاں عدل دین صاحب کے ہاں پیدا ہوئے- ستمبر 1905ء میں آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت عطا ہوئی اور 3؍ستمبر 1979ء کو آپؓ نے وفات پائی- روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 و 20 اگست 1998ء میں آپؓ کا ذکر خیر مکرم عبدالرشید احمد شاہد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے-
محترم پیر میاں عدل دین صاحب اپنے علاقہ میں اپنے پیر کی جانب سے خلیفہ نامزد کیے گئے تھے اس لئے انہیں بھی بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور لوگ دور دور سے ان کی زیارت، دعا اور دوسرے کاموں کے لئے آیا کرتے تھے-ان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے گدّی نشین ہوگئے اور چھوٹے بیٹے حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ نے جلد ہی حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی قبول کرکے اپنے باپ دادا کے کاروبار سے لاتعلّقی کا اظہار کردیا- تاہم تب بھی لوگ آپؓ سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کروایا کرتے تھے اور آپؓ علاقہ میں قاضی جی کے نام سے شہرت رکھتے تھے-
آپؓ کے قبولِ احمدیت کا واقعہ یوں ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں جب حضرت اقدسؑ کے دعویٰ کا بہت شور تھا تو آپؓ کے علاقہ کے بہت سے لوگ احمدی ہوگئے جن میں آپؓ کے ایک رشتہ دار بھی شامل تھے- چنانچہ آپؓ کے کانوں میں اکثر حضرت اقدسؑ کے الہامات اور پیشگوئیاں پہنچنے لگیں- انہی پیشگوئیوں میں سے ایک زلزلہ کے آنے کے بارے میں تھی- چنانچہ جب وہ قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے آپ کے علاقہ میں بھی تباہی مچادی اور لوگوں کی توجہ بڑے زور سے حضرت مسیح موعودؑ کی طرف ہوئی تو آپؓ نے باوجود ابھی بیعت نہ کرنے کے احمدیوں کے ساتھ ہی نماز پڑھنی شروع کردی- پانچ چھ ماہ بعد آپؓ ایک احمدی بزرگ کے ساتھ قریباً 25 میل پیدل فاصلہ طے کرکے قادیان پہنچے اور لنگر خانہ میں قیام کیا- جتنا آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے دیدار کا اشتیاق تھا اتنا ہی انتظار طویل لگ رہا تھا کیونکہ آپؓ کی خواہش تیسرے روز پوری ہوئی جب حضورؑ بعض صحابہؓ کے ساتھ مسجد اقصیٰ تشریف لے جا رہے تھے- آپؓ نے بھاگ کر مصافحہ کیا تو حضورؑ نے نہایت محبت سے اپنے ساتھ بائیں طرف لگالیا- آپؓ اپنی دلی محبت سے حضورؑ سے چمٹ گئے اور حضورؑ بڑی شفقت سے آپؓ کے سر اور کمر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور تھوڑی دیر بعد آگے چل پڑے- حضرت اقدسؑ کی اقتداء میں آپؓ نے نماز ظہر ادا کی اور پھر جب حضورؑ صحابہ سے گفتگو فرمانے لگے تو آپؓ نے حضورؑ کا جسم دابنا شروع کردیا- کچھ دیر بعد بعض دوستوں کی خواہش پر حضورؑ نے بیعت لی اور دعا کروائی- بیعت کے بعد آپؓ مزید دو دن قادیان رہ کر واپس اپنے گاؤں آگئے-
حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ کو حضرت اقدسؑ کی زیارت کا شوق بارہا قادیان لے گیا- مارچ 1906ء کے لگ بھگ آپؓ کے گاؤں میں اور اس کے ارد گرد طاعون کی وبا بہت پھیل گئی- آپؓ کو یقین تھا کہ حضرت اقدسؑ کی بیعت کی برکت سے اللہ تعالیٰ آپؓ کو اس وبا سے محفوظ رکھے گا- چنانچہ جب مُردوں کو نہلانے کے لئے کوئی اور تیار نہ ہوتا تو آپؓ اپنے ایک غیر احمدی دوست کے ساتھ مل کر یہ خدمت بجالاتے- چند دن کے بعدآپؓ کا دوست بھی طاعون سے فوت ہوگیا- اور پھر ایک روز آپؓ کو بھی بیماری محسوس ہونے لگی اور پھوڑا نکلنے لگا، بخار اور درد کی وجہ سے کھانا پینا موقوف ہوگیا- یہ دیکھ کر آپؓ کی والدہ گھبرا گئیں اور اگلے روز آپؓ کی حالت دیکھ کر تو انہوں نے باقاعدہ رونا شروع کردیا- جبکہ آپؓ کے دل میں اطمینان تھا کہ طاعون آپؓ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی چنانچہ آپؓ نے اپنی والدہ کو تسلّی دی- پھر پھوڑے پر جونکیں لگوائی گئیں اور کچھ جڑی بوٹیوں سے علاج کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامل شفا عطا فرمادی-
آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ 1906ء کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں حضورؑ تقریر فرما رہے تھے جب مسجد بالکل بھر گئی تو کچھ لوگ اُس دیوار پر چڑھ کر بیٹھنے لگے جس کے دوسری طرف آریہ رہتے تھے- ایک آریہ نے بلند آواز سے اُن لوگوں کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں دیں کہ نیچے اُترو- کسی نے یہ بات تقریر کے دوران حضورؑ تک بھی پہنچادی تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ آریہ لوگ ہمارے ہمسائے ہیں، اِن کو کیوں دکھ دیتے ہو، نیچے اتر آؤ- چنانچہ سب لوگ نیچے اتر آئے اور سکڑ کر بیٹھ گئے-
جلسہ سالانہ 1907ء کے موقع پر، دار مسیح کے اُس صحن میں جس میں بعد میں حضرت امّ طاہر رہا کرتی تھیں، مہمانوں کو باری باری کھانا کھلایا جا رہا تھا- جب آپؓ کی باری آئی تو اتفاقاً حضرت اقدسؑ بھی تشریف لے آئے اور یہ دیکھ کر کہ پہلے کھانا کھانے والے اپنے پیالوں میں کچھ دال باقی چھوڑ گئے ہیں، فرمایا ’’ہمارے لنگر کی دال بھی پی لیا کرو‘‘- چنانچہ وہاں موجود تمام لوگوں نے تعمیل ارشاد میں وہ پیالے اٹھا اٹھا کر اسی وقت دال پی لی-
ایک موقع پر جب ایک بڑا افسر حضورؑ سے ملاقات کی غرض سے قادیان آیا اور اُس کے لئے ایک خیمہ نصب کیا گیا تو اگلے روز حضورؑ اُس سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے- بہت سے احباب بھی ہمراہ ہولئے جن میں حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ بھی شامل تھے- راستہ میں ایک جگہ حضورؑ نے ایک درخواست قبول فرماتے ہوئے تمام احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا- جب احباب مصافحہ کر رہے تھے تو آپؓ ایک بار مصافحہ کرکے دوبارہ قطار میں شامل ہوگئے اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا- پھر تیسری دفعہ قطار میں شامل ہونے لگے تو ایک اور دوست نے آپؓ کو پکڑ کر روکا- یہ واقعہ چونکہ حضرت اقدسؑ کے بالکل سامنے کچھ فاصلہ پر ہو رہا تھا اس لئے حضورؑ نے مسکراکر دوسرے صاحب سے فرمایا ’’کیوں روکتے ہو، آنے دو‘‘- چنانچہ آپؓ نے تیسری دفعہ شرف مصافحہ حاصل کیا اور بیان کرتے ہیں کہ اس مصافحہ سے جو خوشی حاصل ہوئی وہ اس سے پہلے دو دفعہ کے مصافحہ سے حاصل نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس بار خود حضورؑ کی اجازت شامل تھی- پھر حضورؑ آگے روانہ ہوئے تو اُس افسر کا ایک ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میرا افسر کہتا ہے کہ حضورؑ میری ملاقات کے لئے یہاں نہ آئیں، میں خود حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا- حضورؑ یہ بات سن کر اُسی وقت واپس چل پڑے-
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کی اطلاع آپؓ کے گاؤں میں مغرب کے بعد پہنچی اور وہاں سے ایک قافلہ فوری طور پر پیدل قادیان روانہ ہوا اور مسلسل چلتا ہوا اگلے روز جب قادیان پہنچا تو حضرت اقدسؑ کی تدفین ہوچکی تھی- چنانچہ یہ لوگ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بیعت کرکے واپس گاؤں آئے- خلافتِ اولیٰ کے دوران میں بھی آپؓ کو کئی بار قادیان جانے کا موقع ملا- حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات پر بھی آپؓ کے گاؤں سے ایک قافلہ رات عشاء کے بعد پیدل روانہ ہوا اور اگلی صبح نو بجے قادیان پہنچا اور پانچ دن وہاں مقیم رہا-
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ حضرت میاں صاحبؓ جون 1919ء میں اپنی والدہ کی وفات کے بعد کاروبار کے لئے امرتسر چلے گئے اور جولائی 1922ء میں آپؓ کی شادی ہوئی- آپؓ بارہا چھوٹے چھوٹے واقعات حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے اور ایک بات خاص طور پر کہا کرتے تھے کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کے چہرے پر اتنا نور تھا کہ اُس کی طرف زیادہ دیکھا نہیں جاتا تھا‘‘-