حضرت میاں عبدالکریم صاحب کا توکّل علی اللہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ یکم فروری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27دسمبر 2012ء میں مکرم منظور احمد شاد صاحب نے اپنے والد محترم حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کا ذکرخیر اُن کے توکّل علی اللہ کے حوالہ سے کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نے حضرت سید محمود احمد شاہ صاحبؓ (یکے از 313؍اصحاب) کی تبلیغ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی سعادت اُس وقت حاصل کی جب حضور مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے۔ آپؓ میں توکل علی اللہ قابل رشک حد تک موجود تھا۔ اس سلسلہ میں چند مثالیں پیش ہیں۔
1) خاکسار کے بھتیجے عزیز مکرم منور احمد خورشید (سابق مبلغ سلسلہ گیمبیا اور سینیگال) بچپن میں ایک دفعہ شدید بیمار ہو گئے کہ بظاہر بچنے کی امید نہ تھی۔ باہر کھیتوں میں پیغام بھیج کر وہاں سے حضرت والد صاحب اور بھائی صاحب کو بلالیا گیا۔ حضرت والد صاحب نے بھائی صاحب اور بھابھی صاحبہ سے کہا کہ ہم اسے خدا تعالیٰ کو دے دیتے ہیں وہ بچالے گا ورنہ ہم اُس کی رضا پر راضی ہیں۔ بھابھی صاحبہ نے کہا: مَیں سمجھی نہیں۔ فرمایا: اس کی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی زندگی وقف کر دی گئی۔ ابھی یہ ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک قریبی گاؤں عالمگڑھ کے رہنے والے ڈاکٹر خدابخش صاحب گلی سے گزرتے ہوئے دکھائی دئے۔ جب انہیں بچے کا بتایا گیا تو انہوں نے بچے کا معائنہ کیا اور دوا دی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بچہ صحتیاب ہو گیا۔
2) گندم کی بوائی کے دن تھے۔ ایک بار رات کو دیر سے زمینوں سے آئے تو گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہل کا پھالا (جس سے گندم کی بوائی کی جاتی ہے) کہیں راستے میں گرگیا ہے۔ صبح حسب معمول نماز تہجد کے بعد زمینوں پر جانے کے لئے تیار ہوئے تو والدہ صا حبہ نے کہا، پھالا تو آپ کے پاس ہے نہیں، بوائی کس طرح کریں گے۔ فرمایا: عبدالکریم کا پھالا اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ والدہ صاحبہ ازراہ مذاق کہنے لگیں، چلیں آج دیکھتے ہیں میرے آنے تک کتنی زمین کی بوائی کا کام کرلیتے ہیں۔ جب والدہ صاحبہ دوپہر کا کھانا لے کر گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ واقعی آپ کافی بوائی کر چکے تھے۔پوچھنے پر کہ پھالا کہاں سے ملا، آپ نے بتایا کہ رات کو جب میں گھر آرہا تھاتو پھالابند کی مغرب کی جانب گرگیا تھا۔ اس وقت چاند مشرق کی طرف تھا۔ اس لئے اندھیرے میں پڑا رہا اور کسی کو نظر نہیں آیا۔ صبح سویرے جب مَیں گھر سے نکلا ہوں تو چاند مغرب کی طرف آچکا تھا اور پھالا دُور سے چمکتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے پھالے کی حفاظت بھی فرمائی اور میرے اُس کو دیکھنے کا سامان بھی فرمادیا۔
3) جب میری عمر سات آٹھ سال ہوگی تو مویشیوں میں بیماری پھیل گئی جس سے سارے علاقہ میں بہت نقصان ہوا۔ ایک روز مَیں نے دیکھاکہ ساتھ والے ڈیرے کے لوگ مویشیوں کو کہیں لے کر جا رہے ہیں۔ میرے پوچھنے پر بتایا جو مویشی پیر صاحب کی پگ (پگڑی) کے نیچے سے گزر جائیں گے وہ نہیں مریں گے۔ دُور سے مَیں نے دیکھا کہ دو آدمی ایک پگڑی لئے کھڑے تھے اور لوگ اس کے نیچے سے مویشیوں کو گزار رہے تھے۔ مَیں بھی اپنے مویشی لے کر چل پڑا۔ والد صاحب نے دیکھ لیا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ مَیں نے بتایا تو آپ نے فرمایا: واپس لے آؤ ہمارے مویشی نہیں مریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اردگرد کے ڈیرے والوں کے اکثر مویشی مرگئے لیکن ہمارا ایک جانور بھی نہیں مرا۔
4) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ نے نئی نئی بیعت کی تھی۔ اس وقت ہمارے گھر میں تین افراد تھے اور تینوں کا تعلق مختلف فرقوں سے تھا۔ دادا جان وہابی، دادی جان بریلوی خیالات کی تھیں جبکہ والد صاحب نے احمدیت قبول کرلی تھی۔ دادی جان کاعقیدہ تھا کہ اگر بھینس شیردار ہوتو پہلے تین روزکا دودھ استعمال نہیں کرنا چاہئے ورنہ بھینس مرجاتی ہے۔ ایک بار جب ہماری بھینس شیردار ہوئی تو والد صاحب نے دادی جان سے کہا مَیں دودھ دوہتا ہوں آپ بوہلی پکائیں تاکہ محلے میں تقسیم کریں۔ دادی صا حبہ نے مخالفت کی۔ لیکن والد صاحب نے دودھ دوہا اور خو د ہی چولہے پر رکھ دیا۔ اس پر دادی صا حبہ نے والد صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تم ہمارے گھر کیا بے دین پیدا ہوگئے ہووغیرہ۔ اللہ تعالیٰ بھی کوئی نشان دکھانا چاہتا تھا کہ اچانک بھینس گری اور تڑپنا شروع کردیا۔ اس پر تو دادی جان نے انتہا کر دی۔ حضرت والد صاحب نے چھری تیز کی اور کہا کہ اسے مَیں حرام موت نہیں مرنے دوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ اگر آج بھینس مر گئی تو ان لوگوں کے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت مشکوک ہو جائے گی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بھینس اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اس کے بعد ایک لمبا عرصہ ہمارے گھر میں رہی۔