حضرت میاں عبد العزیز نونؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 و 17؍مئی 2004ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب اپنے والد حضرت میاں عبدالعزیز نون صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد صاحب نے 1903ء میں بیعت کی تھی، 1915ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے اور 9؍مئی 1935ء کو وفات پائی۔ میں اُن کا اکلوتا بیٹا تھا۔ دوبہنوں کی عمریں مجھ سے بہت زیادہ تھیں۔ میری ولادت حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کی دعاؤں کے طفیل ہوئی تھی۔ 1948ء میں میری والدہ کی وفات ہوئی۔
میرے پردادا حافظ غلام مصطفی صاحب حدیث کے ’’متبحر‘‘ عالم تھے۔ جب چاند سورج کو 1894ء میں گرہن لگا تو انہوں نے بتایا کہ یہ امام مہدی کے ظاہر ہونے کی علامت ہے۔ مگر وہ جلدہی فوت ہوگئے۔ ہمارا گاؤں حلال پور کوردیہہ تھا۔ میرے دادا جان کا نام حافظ غلام محمد تھا۔ جو بہت سخت گیر اور رعب والے تھے۔ میرے والد نے اُن سے اجازت مانگی کہ میں کسی بزرگ سے ملنے جانا چاہتا ہوں۔ داداجان نے کہا کہ گولڑہ شریف چلے جاؤ۔ انہوں نے سفر خرچ لیا اورعازم قادیان ہوگئے۔ فرماتے تھے نوعمری میں مَیں نماز بھی شاذ ہی پڑھتا تھا اور وہ بھی اپنے والد سے ڈر کے مارے۔ جب میں نے اپنی اس کمزوری کا حضور ؑ سے ذکر کیا تو حضور نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اور اس کے بعد مجھے نماز میں لذت آنا شروع ہوئی۔
جب میرے والد صاحب قادیان سے واپس آئے تو دادا جان نے پوچھا کہ گولڑہ شریف سے ہو آئے ہو؟ انہوں نے بتادیا کہ میں تو قادیان گیا تھا اور امام مہدی وہاں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس پر دادا کچھ برہم ہوئے اور جائیداد سے عاق کر دینے کی دھمکی بھی دی مگر ابا اسے خاطر میں نہ لائے۔
ابا بیعت کر کے جب واپس گاؤں میں آئے تو مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری جو اِن کے دوست تھے، وہ قادیان کا حال پوچھتے تھے اور یہ انہیں بتاتے تھے۔ آخر ایک دن جب انہوں نے حضور علیہ السلام کی تصنیف لطیف ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے پہلے دو صفحات پر نظر ڈالی تو فوراً حق کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر اُن کے والد مولانا محمد بخش صاحب اُن پر سخت ناراض ہوگئے لیکن اواخر اپریل 1908ء میں انہوں نے بیعت کی توفیق پالی۔
میرے والدباجود اس کے کہ معمولی پڑھے لکھے تھے لیکن حضورؑ کی کتب اور الفضل باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن للیانی ضلع سرگودھا کے ایک نمبر دار رئیس کے ہاں گئے۔ کچھ تعلق بھی تھا۔ اب جو گئے تو اس کی شامت اعمال کہ اس نے بلا وجہ حضرت اقدس ؑ کو گالیاں دینا شروع کیں۔ ابا نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ بیہودگی اچھی نہیں۔ اگر تمہیں دشنام طرازی کا دورہ پڑا ہوا ہے تو مجھے گالیاں دے لو مگر اس پاک شخص کو گالیاں نہ دو۔ اس پر وہ اور بھی بھڑکا۔ تو ابا سخت غمزدہ ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔ نماز پڑھی، رات کو باوجود اصرار کے کھانا نہ کھایا، نہ دودھ پیا۔ عشاء کی نماز کے بعد غم سے فرمانے لگے کہ فلاں شخص نے حضرت صاحب کی شان میں آج بہت بکواس کی ہے، آٹھ دن کے اندر یہ شخص ہلاک ہوگا۔ بعد میں علم ہوا کہ عین اس کے ساتویں دن وہ رئیس حجامت کروارہا تھا، کچھ اَور آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے بھری مجلس میں اس رئیس کی گردن پر ٹوکے سے دو وار کئے اور وہاں سے بھاگ گیا۔ یہ رئیس تڑپ تڑپ کر وہیں مرگیا اور قاتل کا کوئی پتہ نہیں چلا۔
دیوی رتہ مل کپور ہمارا ایک مزارع ہوتا تھا۔ اُس کی بیٹی میری بہنوں کی ہم عمر اور دوست تھی۔ میری بہنیں قرآن کریم گھر میں پڑھتی تھیں۔ وہ ہندو لڑکی بھی آبیٹھتی تھی۔ بہت ذہین تھی اس نے بھی قرآن مجید ساتھ ہی پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے ماں باپ اور بھائی بھی یہ جانتے تھے مگر وہ ہمارے گھر آنے میں کبھی معترض نہیں ہوئے۔ چنانچہ اُس لڑکی نے کچھ عرصہ میں ہی قرآن کریم ختم کر لیا۔ اُس کی شادی کا فیصلہ چنیوٹ کے ایک بڑے سیٹھ کے بیٹے سے ہوچکا تھا۔ ہمارے گھر میں اخبارات اور رسالے بھی آتے تھے۔ وہ لڑکی بھی میری بہنوں کے ساتھ انہیں پڑھتی رہی۔ آخر ایک دن اس نے میرے ابا سے کہا کہ میں تو احمدی ہونا چاہتی ہوں۔ جب اُس کے سسرال کو اِس کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے ابا کے خلاف چنیوٹ میں پرچہ دیدیا۔ لیکن وہ لڑکی ایمان پر بڑی مستقیم نکلی۔ اگرچہ وکیل ڈرتا تھا کہ مقدمہ سنگین ہے اور چنیوٹ کے سیٹھ بھی بڑی طاقت رکھتے تھے۔ مجسٹریٹ بھی کٹر ہندو تھا۔ ابا حضرت مصلح موعود ؓ کو برابر دعا کی درخواست بھجواتے رہے۔ آخر مقدمہ کے فیصلہ کا دن آگیا۔ قید سخت کی سزا کا خطرہ تھا۔ ابا ایک روز پہلے چنیوٹ پہنچے تو مسجد احمدیہ میں نماز ادا کی۔ ایک اجنبی کو مسجد میں دیکھ کر وہاں کے احمدیوں نے پوچھا تو ابا نے سارا حال انہیں بتادیا اور دعا کی درخواست کی۔ حاضرین میں ایک غریب حجام بھی تھا۔ اُس نے تفصیل پوچھی اور وعدہ کیا کہ کل احاطہ عدالت میں وہ ابا کو پھر ملے گا۔ چنانچہ وہ حجام ہفتہ کے روز صبح احاطہ کچہری میں ابا کو ملا اور بتایا کہ انشاء اللہ تم بری ہو جاؤ گے۔ اور پھر یہ تفصیل سنائی کہ گزشتہ رات میں ہندو مجسٹریٹ کے گھر گیا تھا، اس کی حجامت بنایا کرتا ہوں۔ رات کے وقت آنے پر وہ حیران ہوا کہ تم اس وقت کیسے آئے ہو۔ تو اِس نے کہا جی ضروری کام ہے، وعدہ فرمائیں کہ کام کر دیں گے تو عرض کروں گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ میں آپ کا جدی پشتی کمین تو نہیں ہوں۔ میں تو چار آنے لے کر آپ کی حجامت بنا جاتا ہوں۔ اس لئے میرا دعویٰ یامان تو آپ پر اس طرح نہیں جس طرح جدی کمیوں کا ہوتا ہے مگر میرا یہ کام کر دیں گے تو جب تک زندہ رہوں گا، آپ کے لئے اور آپ کے اہل وعیال کے لئے دعائیں کرتا رہوں گا اور یہ کوئی رسمی دعا نہیں ہو گی اور نہ ہی ہم اس قسم کی دعا کے قائل ہیں۔ مجسٹریٹ نے کہا: اچھا اگر میں کرسکتا ہوا تو کردوں گا۔ اس نے کہا کہ میرے بھائی کا مقدمہ آپ کے پاس ہے اور کل اس کا فیصلہ ہے، اسے بری کرانا ہے۔ اُس نے کہا کہ وہ آپ کا بھائی کہاں سے ہے؟ اِس نے کہا جناب وہ احمدی ہیں اور میں بھی احمدی ہوں۔ ہم بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ مجسٹریٹ نے مقدمہ کے مدعیوں کے اثرورسوخ اور مقدمہ کی سنگینی کا ذکر کیا۔ کچھ مزید باتیں ہوئیں اور بالآخر اُس نے کہا: بہت اچھا، میں اسے تمہاری خاطر بری کردوں گا۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔
1947ء میں جب تقسیم ملک کا اعلان ہوا تو ہندوستان بھر میں شرپسندوں نے قتل وغارت کا بازار گرم کردیا۔ اور اس میں نہ بوڑھوں کو نہ عورتوں کو اور نہ بچوں کا بخشا گیا۔ اور زندگی کے وہ مظاہرے دیکھنے میں آئے کہ جس سے انسانیت شرم کے مارے منہ چھپاتی پھرتی تھی۔ میں تو کالج میں پڑھتا تھا جو قادیان سے ہجرت کرکے لاہور آچکا تھا۔ گھر (سرگودھا) میں میرے والد صاحب اکیلے تھے۔ مگر اس علاقہ میں بعض دیہات کے ہندوؤں کو جائے پناہ کی جب تلاش ہوئی تو 150 کے قریب مردوزن ہما ری حویلی میں پناہ گزین ہوئے۔ کیونکہ انہیں حضرت اقدس کے صحابیؓ کے علاوہ نہ کسی کی امان پر یقین تھا اور نہ کسی نے انہیں حملہ آوروں سے بچانے کی حامی بھری تھی۔ بلکہ لوگ تو اُنہیں لُوٹنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے۔ بہر حال وہ لوگ تین چار ہفتے تک ہمارے ہاں رہے۔ اور پھر ابا نے مجھے سرگودھا بھیجا کہ افسران اعلیٰ کو کہہ کر انہیں ضلعی کیمپ میں منتقل کرادیا جائے کیونکہ گاؤں میں وہ لوگ خوفزدہ بھی تھے۔ چنانچہ مَیں سرگودھا آیا جہاں شہر میں محترم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ جج امیرجماعت تھے۔ وہ میرے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور کہا کہ یہ ایک نوجوان اور اس کا باپ اتنی تعداد میں لوگوں کو تین چار ہفتے سے پناہ دئیے ہوئے ہیں اور لوگ سخت جوش میں ہیں، ان کا انخلا کرائیں۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد ان کو سرگودھا کیمپوں میں پہنچا دیا گیا۔ کیمپ سے ان افراد کی رخصتی کا نظارہ بھی بہت دلفگار تھا۔ وہ ابا کو گلے مل مل کر زاروقطار روتے ہوئے رخصت ہوئے۔
کیمپ میں بھی ان افراد کا قیام کم و بیش ایک ماہ رہا۔ ایک بار جب ابا انہیں ملنے وہاں آئے تو ایک ہندو نے کہا کہ اُس کا کچھ سونا اُس کے ایک ہندو رشتہ دار کے پاس موضع مٹیلہ میں پڑا ہے۔ اگر وہ آپ لاسکیں تو ہمارے لئے کچھ عرصہ کے لئے ان مصیبت کے دنوں میں اخراجات میں کفایت کرسکے گا۔ اباجان کو مٹیلے والے جانتے نہیں تھے۔ مگر آپمٹیلہ گئے۔ اتفاق سے کیمپ والے ہندوؤں سے اُن کے رشتہ داروں نے اباجان کا نام سنا ہوا تھا اور ان کی دیانتداری کے قصے بھی۔ چنانچہ انہوں نے زبانی پیغام سُن کر ایک گٹھڑی میں سونے کے زیورات جو وزن میں کئی سیر تھے، باندھ دیے۔ ابا نے رات للیانی گزاری، وہاں کے عزیزوں نے بہت اعتراض کیا کہ لاکھوں روپے کا مال آپ ہندوؤں کو دینے جارہے ہیں۔ ابا نے کہا اُن کی امانت ہے، اُنہیں واپس دوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ اس پر کیمپ میں مقیم ایک اور ہندو نے کہا کہ میاں جی مٹیلہ میں میرا سونا بھی پڑا ہے۔ چنانچہ آپؓ بخوشی یہ خدمت بھی بجالائے۔
دراصل ایک تو فطرتاً آپؓ نیک نیت واقع ہوئے تھے۔ دوسرے حضرت مصلح موعودؓ کا یہ فرمان بھی جاری ہوچکا تھا کہ یہاں سے جانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ہر قسم کی چھینا جھپٹی کو گناہ قرار دیا گیا تھا۔