حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرویؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جون 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت میاں نجم الدین صاحبؓ بھیروی کی سیرۃ و سوانح پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں نجم الدین صاحبؓ کی ولادت 1864ء میں میاں احمد یار صاحب کے ہاں ہوئی جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ چنانچہ حضرت میاں نجم الدین صاحب کو ابتداء میں ہی یعنی 4 ؍اگست 1889ء کو بیعت کی توفیق مل گئی۔
آپ کو دوسرے جلسہ سالانہ منعقدہ 27 دسمبر 1892ء میں شامل ہونے کی توفیق بھی ملی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے آخرمیں جلسہ کے شرکاء کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آپؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔ نیز ’’انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کا نام اپنے 313؍ اصحاب میں 252ویں نمبر پر شامل فرمایا ہے۔ اسی طرح ’’نزول المسیح‘‘ میں پوری ہونے والی پیشگوئیوں کے ضمن میں پیشگوئی نمبر 43 (بابت ہلاکت لیکھرام) کے گواہوں میں آپؓ کا نام شامل فرمایا ہے۔ پھر حضورؑ نے اپنے اشتہار بعنوان ’’ کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کرسی ملی؟ ‘‘ مطبوعہ 7 مارچ 1898ء میں معزز گواہوں کے اسماء میں آپؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔
آپ حضرت مسیح موعود کی زندگی ہی میں ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے وہاں اپنا مکان بنوایا۔ قادیان میں آپ لنگر خانہ کے مہتمم مقرر ہوئے۔ آپؓ نے نہایت دیانت اور امانت سے اس خدمت کو سر انجام دیا۔ آپ نے مجتہدانہ طبیعت پائی تھی۔ سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کے آرام کا اپنی طاقت اور سمجھ کے موافق بہت خیال رکھتے تھے۔ حضورؑ بھی وقتاً فوقتاً آپ کو مہمانوں کے آرام کے متعلق تاکید فرماتے رہتے تھے۔ 25 دسمبر 1903ء کو جبکہ بہت سے مہمان بیرون جات سے آگئے تھے حضور نے آپ کو بلا کر فرمایا : دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو، سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔
حضورؑ ہمیشہ ایسی تاکید کرتے رہتے۔ بعض وقت یہ بھی فرماتے کہ میں نے تم پر حجت پوری کردی ہے اگر تم نے غفلت کی تو اب خدا کے حضور تم جوابدہ ہوگے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ آپ کے متعلق فرماتے ہیں: بہت بڑے مخلص، جفاکش اور مجتہدانہ طبیعت کے آدمی تھے۔ بہت بڑے تعلیم یافتہ نہ تھے مگر طبیعت رسا تھی اور اپنی سمجھ کے موافق بعض اوقات قرآن کریم کے نکات بھی بیان کر دیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو مہمانوں کی خدمت اور لنگر خانہ کے انتظام کے لیے مقرر کیا۔ وہ بہت نیک دل اور خیرسگال واقع ہوئے تھے حضورؑ کی محبت میں مگن اور سرشار تھے اور اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے مفوّضہ کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے رہتے۔ حضورؑ خود کوئی حساب نہ رکھتے بلکہ لنگر خانہ کا تمام حساب کتاب ان کے ہی سپرد تھا۔ حضورؑ ہمیشہ ان کی محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی قدر فرماتے رہے۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ قادیان میں پہلی بار بغرض تحقیق آئے تو فرماتے ہیں: مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں نے یہاں کے علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا اور خود مدعی مسیحیت اور مہدویت کی بھی زیارت کی اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہیے چنانچہ اس امتحان کے لیے لنگرخانہ چلا گیا۔ وہاں ایک چھوٹے سے دیگچہ میں دال تھی اور ایک چھوٹی دیگچی میں شوربہ تھا۔ میں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا انہوں نے مجھے روٹی اور دال دی۔ میں نے کہا کہ میں دال نہیں لیتا گوشت دو۔ انہوں نے دال اُلٹ کر گوشت دے دیا۔ لیکن میں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو۔ تب انہوں نے گوشت الٹ کر دال ڈال دی۔ میری غرض یہ تھی کہ تا میں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں۔ الغرض میں نے کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں۔ منتظمین لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ اُس دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حافظ حامد علی صاحب مرحوم مہمانوں کے خدمت گزار تھے اور میاں نجم الدین صاحب لنگرخانہ کا کھانا پکوایا یا برتایا کرتے تھے اور بہت مشقت برداشت کرکے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ دونوں ساتھ ساتھ حضورؑ کی باتیں بھی سناتے جاتے تھے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت میاں نجم الدین صاحبؓ نے اپنی عمر کا آخری حصہ حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر خانہ کی خدمت میں نہایت دیانت اور امانت سے گزارا، خدمت خلق کا خاص جذبہ ان میں تھا۔ شحنہ حق کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا تو دوبارہ اپنے صرفہ سے طبع کروا کر حضرت کی خدمت میں پیش کردیا، نہایت محنتی اور جفاکش تھے۔ مہمانوں کو کھانا کھلا چکنے کے بعد بھی دیر تک لنگرخانہ میں رہتے کہ کوئی سائل آجاوے یا مسافر ہو اور پھر کچھ ٹکڑے لے کر شکستہ مکانوں اور گلیوں میں جاتے تاکہ بعض کتوں وغیرہ کو بھی جو کسی وجہ سے حرکت نہ کرسکتے ہوں دے دیں۔…جب طاعون کا اثر ہوا اور بعض اموات ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض جنازوں کو صرف میں نے اور حضرت میاں نجم الدین صاحب نے اٹھایا اور جاکر دفن کردیا ۔
حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساویؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضورؑ نے حضرت میاں نجم الدین صاحب کے متعلق فرمایا: …ان کی یہ بات بہت ہی پسند ہے روٹی لے کر گلیوں اور مساجد میں ہوآتے ہیں کہ اگر کوئی بھوکا ہو تو اسے دے آئیں۔
پھر فرمایا: کہ امانت دار بھی ہیں۔
حضرت میاں نجم الدین صاحبؓ نے 2؍ دسمبر 1915ء بعمر تقریباً 80 سال وفات پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔
آپ کی اہلیہ کا نام بادشاہ بیگم صاحبہ تھا اور اولاد میں صرف دو بیٹیاں تھیں۔ آپؓ نے وصیت فرمائی ہوئی تھی کہ آپؓ کا قادیان والا مکان دونوں بیٹیوں کے قبضہ میں اُن کی زندگی تک رہے گا اور اُن کی وفات کے بعد صدر انجمن کی ملکیت ہوگا۔