حضرت میاں پیر محمد صاحب
حضرت میاں پیر محمد صاحب 1889ء میں پیدا ہوئے۔ 1904ء میںبذریعہ خط بیعت کی لیکن قادیان جانے کی مالی توفیق نہ ہونے کی وجہ سے حضور علیہ السلام کی زیارت سے محروم رہے۔ آخر خلافت اولیٰ کے ابتدائی دَور (1910ء) میں اپنے گاؤں مانگٹ اونچے سے پاپیادہ قادیان کے لئے روانہ ہوئے۔ اپنی چادر صرف 10؍پیسے میں فروخت کر کے زادراہ کے طور پر مصرف میں لائے۔
قادیان میں اپنے بھائی حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ کے ہاں مقیم ہوئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے کا قصد کیا لیکن عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے داخل نہ کئے گئے۔ چنانچہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی شکایت لے کر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے جواباً فرمایا ’’حضرت ابو ہریرہؓ کس سکول کے پڑھے ہوئے تھے؟ مسجد اقصیٰ میں بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نہ پڑھائے تو پھر مجھے بتانا‘‘۔ چنانچہ آپ نے مسجد اقصیٰ میں آنے والے بزرگ علماء سے اسباق لے کر ترجمہ قرآن سیکھا۔ قادیان میں دس ماہ گزار کر کچھ برس حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی شاگردی اختیار کی اور پھر واپس اپنے گاؤں چلے آئے۔
پڑھنا تو قادیان میں آپ نے سیکھ لیا تھا لیکن لکھنا تب سیکھا جب گاؤں میں حکومت نے بینک کھولے اور آپ اُس بینک کے کیشئر مقرر ہوئے۔ یہ بینک بعد میں ختم ہوگئے لیکن آپ کے سپرد کی جانے والی امانتوں کا کام پھر عمر بھر جاری رہا۔ اپنی گاؤں کے امام مسجد بھی رہے۔ سو سال کی عمر میں 13؍فروری 1989ء کو آپ نے وفات پائی۔ بروقت اور کم کھانا آپکی صحت کا راز تھا۔
حضرت میاں پیر محمد صاحب کا ذکر خیر محترم محمد طاہر صاحب نے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اپریل 1996ء میں کیا ہے۔