حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا ذکر خیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل کے شماروں (یکم مارچ 1996ء، 25؍جولائی 1997ء، 26؍ستمبر 1997ء، 23؍اپریل 1999ء، 25؍جون 1999ء، 8؍اکتوبر 1999ء) کے اسی کالم میں مختلف حوالوں سے کیا جاچکا ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍جولائی 1999ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم چودھری محمد صدیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1925ء میں جب مَیں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوا تو حضرت میر صاحبؓ مدرسہ کے ہیڈماسٹر تھے۔ آپؓ علم و عمل کا مجسمہ اور نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جسمانی تعلق بھی حاصل تھا۔ آپؓ حضرت اماں جانؓ کے چھوٹے بھائی تھے۔
حضرت میر صاحبؓ کا وجود حضرت مسیح موعودؑـ کی صداقت اور استجابت دعا کا زبردست نشان تھا۔ کیونکہ ایک مرتبہ طاعون کے ایام میں آپؓ کو تپ ہوگیا اور حضور علیہ السلام نے شماتت اعداء کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت تضرع سے دعا کی تو بذریعہ الہام بشارت ملی کہ سلامتی ہو، یہ ربّ رحیم کا قول ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آپؓ کو مہلک تپ سے بچایا اور لمبی زندگی سے نوازا جو خدمت دین میں گزری۔ آپؓ عام طور پر علم حدیث اور علم کلام پڑھایا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے ارشادات کی ایسی تشریح فرماتے کہ دورانِ سبق سماں بندھ جاتا اور نہ صرف آپؓ کی بلکہ سامعین کی آنکھیں بھی آنحضورﷺ کی ذات سے فرط محبت اور جذبہ عشق سے اشک آور ہوجاتیں۔ علم کلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو فصاحت و بلاغت کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ ہر بات مدلل اور سائل کی تشفی کا باعث ہوتی۔ بے حد باریک بین تھے اس لئے کسی مسئلہ کی منطقی اور فلسفیانہ ایسی وضاحت فرماتے جو معترض کی کامل تشفی کردیتی۔ آپ نے مختلف مضامین پر مشتمل احادیث مرتب کیں اور باترجمہ اشاعت کروائی۔ قرآن کریم کا بھی آپؓ نے بامحاورہ سلیس اردو ترجمہ کیا جو متعدد مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔ تقابل ادیان میں بھی آپؓ کو خاص ملکہ ودیعت ہوا تھا چنانچہ ہندودھرم اور عیسائیت پر آپؓ کی بیس کے قریب تصانیف موجود ہیں۔ جامعہ میں تدریس کے علاوہ موسمی تعطیلات کے ایام میں یونیورسٹی کے طلبہ کو گھر پر وقت دے کر نصاب پورا کرواتے۔
آپؓ نہایت ذہین و فطین اور نہایت اعلیٰ منتظم تھے۔ تقریباً ساری زندگی ناظر ضیافت کے عہدہ پر فائز رہے اور لنگرخانہ اور جلسہ سالانہ کے انتظامات میں مصروف رہے۔ پیشگوئی مصلح موعود کے سلسلہ میں ہوشیارپور اور لاہور کے جلسوں کا سارا انتظام آپؓ کی ذاتی نگرانی میں ہوا۔ جلسہ لدھیانہ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آگیا۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے آپؓ کی وفات پر اپنے مضمون میں تحریر فرمایا کہ نظارت ضیافت کا کام آپؓ بڑی محنت سے سرانجام دیتے اور اس سلسلہ میں کبھی الاؤنس نہیں لیا۔ بارہا مجلس میں یہ معاملہ پیش ہوا کہ آپؓ کے ذمہ کام بہت ہے اس لئے کچھ الاؤنس آپؓ کو دیا جائے مگر آپؓ نے ہمیشہ انکار کردیا۔ آپؓ ہمیشہ اپنی رائے پر قائم رہتے مگر اختلاف رائے پر ناراض نہ ہوتے تھے۔ قاضی بھی تھے، دارالشیوخ کے مہتمم تھے، انجمن کے ممبر تھے۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے آپؓ کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھا کہ مَیں نے ایک رسالہ میں اُن لیکچراروں کی فہرست پڑھی تھی جنہیں شارٹ ہینڈ میں لکھنا ممکن نہیں تھا، اُن میں دوسرے نمبر پر حضرت میر صاحبؓ کا نام تھا۔ مَیں نے خود حضرت خلیفہ اوّلؓ سے سنا تھا کہ کوئی قابل سے قابل آدمی بھی اگر قرآن کریم پر اعتراض کرے تو مَیں اُسے دو منٹ میں خاموش کراسکتا ہوں مگر میر محمد اسحٰق جب مجلس میں بیٹھے ہوں تو مَیں بہت احتیاط سے بات کرتا ہوں۔
حضرت زین العابدین صاحبؓ نے تحریر فرمایا کہ جلسہ ہوشیارپور کے بعد مَیں نے اکثر مرحوم کو اداس دیکھا اور اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ مَیں تھکا ہوا سا ہوں۔ مَیں نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تو جواب دیا کہ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، چند روزہ زندگی ہے، جو بھی خدمت ہوسکے غنیمت ہے، معلوم نہیں کس خدمت سے اللہ تعالیٰ راضی ہو‘‘۔ جس روز بیمار ہوئے تو گیارہ بجے میرے مکان پر تشریف لائے۔ اور یہ دیکھ کر کہ آپؓ کو بخار اور سردرد کی شکایت ہے مَیں نے دو تین دفعہ کہا کہ آپؓ آرام کریں بلکہ چاہا کہ رخصت لے لوں اور اس بہانہ سے انہیں گھر پر روک رکھوں تا انہیں آرام کا موقعہ ملے مگر نہیں مانے اور فرمایا کہ کام سے طبیعت بہلتی ہے، مدرسہ میں امتحانات ہیں، کچھ مہمان خانہ کا بھی کام ہے، وہیں کچھ آرام کرلوں گا۔ میرا خیال تھا کہ انجمن کے اجلاس میں تشریف نہیں لاسکیں گے لیکن جب مَیں گیا تو دیکھا کہ میر صاحبؓ وہاں پہلے سے موجود ہیں۔
حضرت مولوی عبدالرحیم دردـ صاحبؓ نے لکھا کہ ایک زمانہ میں مَیں ناظر تعلیم تھا اور آپؓ ہیڈماسٹر تھے اور مجلس کے ممبر بھی تھے۔ مَیں نے ہمیشہ دیکھا کہ دیگر معاملات میں تو آپؓ میری رائے کے ساتھ بعض اوقات اختلاف کر لیتے مگر محکمانہ سوال ہوتا تو ناظر کی رائے سے ہرگز اختلاف نہ کرتے۔ تقویٰ اللہ اور نظام کی شدید پابندی کے جذبہ کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ آپؓ جب ناظر ضیافت تھے تو انجمن کی طرف سے تقاضا ہوتا تھا کہ خرچ کم کیا جائے۔ آپؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی مقرر کردی جائے۔ چنانچہ کمیٹی نے جانچ پڑتال کے بعد بعض لوگوں کے متعلق کہا کہ یہ نہ غرباء ہیں اور نہ مہمان ہیں، یہ لنگر سے کھانا کیوں کھاتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’آپ لوگ جو فیصلہ کریں گے مَیں اس کی تعمیل کروں گا مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ مَیں اپنے آپ حضرت مسیح موعودـ کے لنگر سے کسی کا کھانا بند کردوں۔‘‘
حضرت میر صاحبؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی تربیت کی وجہ سے احمدیت کے عقائد میں بے حد پختگی حاصل تھی۔ چنانچہ خلافتِ اولیٰ میں جب آپؓ نے اپنی ذہانت سے یہ معلوم کیا کہ بعض کمزور طبع اندر ہی اندر زہریلا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں تو آپؓ نے خلافت کے بارہ میں چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں پیش کئے اور حضورؓ نے خود ان کا جواب دینے کی بجائے مولوی محمد علی صاحب جو سیکرٹری صدرانجمن تھے، کو بھجوا دیئے۔ اُن کی طرف سے جو جواب موصول ہوا اُس سے خلافت سے متعلق اُن کے خیالات سامنے آگئے اور اس طرح حضرت میر صاحبؓ اس فتنہ کو ناکام کرنے کا موجب ہوئے۔