حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍نومبر 2002ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہؓ کے ایمان افروز واقعات مکرم شیخ عبدالقادر صاحب مرحوم (سابق سوداگرمل) کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کے متعلق مکرم مرزا عبدالحق صاحب فرماتے ہیں کہ آپؓ میں تقویٰ کا ایک خاص رنگ تھا چنانچہ ایک بار بھامبڑی میں ہونے والے احمدیوں کے جلسہ میں معاندین نے فساد کردیا اور بعد میں ہمارے بزرگوں کے خلاف جھوٹی رپورٹ بھی دیدی۔ ان بزرگوں میں حضرت میر صاحبؓ بھی تھے۔ آپؓ کو باوجود ملزم ہونے کے عدالت میں کرسی دی جاتی تھی۔ ایک روز حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب جو ہمارے گواہ صفائی تھے، نے عدالت میں حضرت میر صاحبؓ کے بارہ میں کئی وجاہت کے پہلو بیان کئے کہ آپؓ ایک نہایت معزز سید خاندان سے ہیں، عالم قرآن و حدیث ہیں وغیرہ۔ جب خانصاحب یہ بیان کر رہے تھے تو حضرت میر صاحبؓ کے آنسو رواں تھے۔ آپؓ نے رومال نکال کر اپنی آنکھوں پر رکھ لیا اور نہایت رقّت سے مجھے فرمایا: ’’مرزا صاحب! ان چیزوں سے انسان بخشا نہیں جاتا، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے‘‘۔ پھر جس روز عدالت میں آپؓکا بیان ہوا تو آپؓ نے گھر آکر مجھے بلایا اور بڑی رقّت سے فرمایا کہ مجھ سے کوئی نادانستہ غلط بیانی تو نہیں ہوگئی۔ مَیں نے تسلّی دی لیکن آپؓ کے آنسو بہنے لگے اور آپؓ فرمانے لگے کہ اللہ! اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھے معاف فرمانا۔ آپؓ کا بیان واقعات کے بالکل مطابق تھا لیکن تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ہر وقت خدا سے ڈرتے رہتے۔
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب امیر قادیان کا بیان ہے کہ مذکورہ بالا مقدمہ میں جب حضرت میر صاحبؓ کے بیان پر جرح ہورہی تھی تو فریق ثانی کے وکیل کے سوال کرنے پر آپؓ نے ایسا جواب دیا جس سے فریق ثانی پر حرف آتا تھا۔ وکیل نے پوچھا کہ آپؓ نے یہ بیان پولیس میں کیوں نہیں دیا تو آپؓ نے فرمایا: مَیں تو اب بھی یہ بیان دینے کیلئے تیار نہ تھا لیکن آپ نے پوچھا ہے تو مجھے مجبوراً جواب دینا پڑا۔
حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب لکھتے ہیں کہ اس مقدمہ میں فریق ثانی کے وکیل نے آپؓ سے سوال کیا کہ جب بھامبڑی والوں نے جلسہ میں مزاحمت کی تو آپؓ کے دل میں اُن کے خلاف غم و غصہ ضرورپیدا ہوا ہوگا۔ آپؓ نے برجستہ جواب دیا کہ غم و غصہ نہیں بلکہ رحم اور ہمدردی کے جذبات ضرور پیدا ہوئے۔ اس جواب سے مجسٹریٹ بھی متبسم اور محظوظ ہوا۔… مجسٹریٹ آپؓ سے باادب پیش آتا تھا لیکن آپؓ جب بھی عدالت میں داخل ہوتے تو تین چار منٹ کے لئے ملزمان کے کٹہرے میں اکیلے اور غمزدہ کھڑے رہتے۔ ہم سب بھی تعظیماً کھڑے رہتے۔ ایک روز مَیں نے اس کا سبب دریافت کیا تو آپؓ چشم پُرآب ہوکر فرمانے لگے کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودؑ کو عدالت میں کھڑا رہنے پر مجبور کیا تھا اس لئے جب کبھی مجھے عدالت میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو مَیں حضرت اقدسؑ کی یاد میں چند منٹ اسی طرح کھڑا رہتا ہوں۔
جب حضرت میر صاحبؓ ناظر ضیافت تھے تو ایک لڑکے نے آکر آپؓ سے بیان کیا کہ وہ کسی معزز ہندو گھرانے کا چشم و چراغ ہے اور وہ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے۔ آپؓ نے ایک اعلیٰ خاندان کا فرد سمجھ کر اُس کی خوب خاطر مدارت کی لیکن دو اڑہائی ماہ بعد پتہ چلا کہ اُس نے محض اپنا اعزاز قائم کروانے کے لئے یہ جھوٹ بولا ورنہ وہ ایک متوسط مسلمان گھرانے کا فرد ہے۔ اس پر آپؓ نے اُسے بلایا اور نہایت ہی نرمی خلق اور محبت کے ساتھ اُس پر یہ بات ظاہر کی کہ گو ہمیں اصلی واقعہ کا علم ہوگیا ہے لیکن ہم آپ کے اعزاز میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ آپ پہلے کی طرح دین کا مطالعہ جاری رکھیں اور ہرگز اس امر کو محسوس نہ کریں کہ آپ سے غلطی ہوگئی ہے… غرض اس کو بہت تسلّی دی۔ لیکن وہ لڑکا بہت شریف النفس اور شرمیلا تھا اس لئے ایک دو دن میں ہی ندامت کی وجہ سے روپوش ہوگیا لیکن حضرت میر صاحبؓ کے شریفانہ برتاؤ اور اخلاق حسنہ کا اُس پر ایسا اثر تھا کہ احمدیت اُس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرگئی چنانچہ وہ جلسہ سالانہ اور دوسری تقریبات پر قادیان آتا مگر اکثر اپنے منہ کو مفلر وغیرہ سے لپیٹے رکھتا۔ دعوت الی اللہ میں بھی مصروف رہتا اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بھی بنا۔ یہ سب حضرت میر صاحبؓ کی بلندی اخلاق کی وجہ سے ہوا، ورنہ اگر اُسے ڈانٹ ڈپٹ کرکے نکال باہر کیا جاتا تو شاید وہ احمدیت کا دشمن ہوجاتا۔