حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ
ماہنامہ ’’تحریک جدید ربوہ اگست 2010ء میں حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر مکرم شکیل احمد ناصر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ پٹیالہ کے ایک گاؤں ’سیدخیری‘ میں 30؍اپریل 1868ء کو ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی آپ کو آنکھوں کی بیماری ہوگئی۔ بعد ازاں چیچک ہوگئی اور نظر کو بہت نقصان پہنچا۔ بہرحال ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے لدھیانہ جاکر خوش نویسی میں مہارت حاصل کی۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی پروف ریڈنگ کرنے میں اس فن سے بہت مدد ملی۔
بچپن سے ہی حضرت میر صاحب کو امام مہدی کی آمد کا بشدّت انتظار تھا۔ 1883ء میں صرف چودہ سال کی عمر میں آپ نے اس مقصد کے لئے چلّہ کشی کرنا چاہی۔ لیکن پہلی ہی رات خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو امام مہدی کی زیارت کروادی۔ تب آپ نے چلّہ ختم کرکے استخارہ کیا کہ آپ امام مہدی کو کہاں تلاش کریں۔ استخارہ کے نتیجہ آپ کو بتایا گیا کہ اس مقصد کے لئے کوئی فرق نہیں ہوگا خواہ آپ کہیں جائیں یا اسی جگہ ٹھہریں۔ پھر جب آپ نے ستارہ ذوالسنین دیکھا تو امام مہدی سے ملنے کی تڑپ مزید بڑھ گئی۔
1886ء میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’سرمہ چشم آریہ‘ کے ذریعہ حضورؑ کا تعارف ہوا لیکن چونکہ اُس وقت حضورؑنے دعویٰ نہیں فرمایا تھا اس لئے میر صاحب کے لئے یہ عام بات ہی رہی۔ 1889ء میں آپ نے سبز اشتہار پڑھا تو اس میں پیشگوئی مصلح موعود کے ساتھ حضورؑ کے دعویٰ کی بھی خبر آپ کو ملی۔ عوام کے برعکس آپ کا مؤقف تھا کہ اگر حضورؑ کو بذریعہ وحی خبریں دی جاتی ہیں تو اس پر عوام کو ردّعمل نہیں دکھانا چاہئے۔ گو آپ نے حضورؑ کو قبول نہیں کیا۔ تاہم اس دوران شیعہ اور سنّی علماء کے بہت سے مباحثے سنے اور یہی نتیجہ نکالا کہ دونوں روحانیت سے عاری ہوچکے ہیں۔ پھر آپ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ بھی پڑھی اور مقابلۃً سرسید احمد خان صاحب کی تحریرات کا بھی مطالعہ کیا جنہیں روحانیت سے خالی پایا۔ چنانچہ آپؑ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط میں اپنے دل کی کیفیات قلمبند کیں اور درخواست کی کہ مفصّل طور پر اپنے عقائد و دعاوی سے مطلع فرمائیں۔ جواب میں آپ کو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا خط ملا جس میں حضور علیہ السلام نے لکھوایا تھا کہ دعاوی سے متعلق کتب بھجوائی جارہی ہیں اور فرمایا تھا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا پر بہت زور دیں۔
حضورؑ کا خط ملنے پر آپ نے استخارہ شروع کردیا تو ایک روز ایک غیرمعمولی کشف کے ذریعہ آپ کو حضور علیہ السلام کی صداقت کی خبر دی گئی۔ چنانچہ مارچ 1893ء میں آپ کو قبولِ احمدیت کی سعادت ملی۔ آپؓ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا اور لیکھرام کو بھی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ایک بار آریوں کی مجلس میں بہت تعلیم یافتہ افراد کو دیکھ کر آپ نے گھبراکر دعا کی تو کشفاً آپ نے دیکھا کہ دائیں طرف ایک کرسی پر خدا تعالیٰ تشریف فرما ہے۔ چنانچہ اس مجلس کے دوران ہر ایسے سوال پر جس کا جواب آپ کو نہیں آتا تھا، آپؓ نے دعا کی تو اسی وقت جواب آپ کو سکھادیا گیا۔
1901ء میں آپؓ قادیان میں ہی آبسے اور حضورؑ کی لائبریری و لنگرخانہ کے انچارج کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک بار حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے آپؓ کو بتایا کہ انہوں نے حضورؑ سے ایک کتاب مانگی تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہمارے سید مہدی حسین صاحب باہر گئے ہوئے ہیں اور جب وہ آئیں گے تو کتاب بھجوادی جائے گی۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ کے لئے حضورؑ نے ’ہمارے ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپؓ بھی حضورؑ کو بہت پیارے ہیں۔
جب آپؓ نے قادیان کے لئے ہجرت کا ارادہ کیا تو اخبارات ’الحکم‘ اور ’البدر‘ میں ملازمت کی خواہش کی لیکن یہ اخبار مالی مشکلات کا شکار تھے۔ حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ نے آپؓ کو ’پریس مین‘ بننے کا مشورہ دیا لیکن آپؓ نے سوچا کہ اس صورت میں قادیان سے باہر آنا جانا ہوگا تو پھر قادیان ہجرت کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ چنانچہ آپؓ نے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے درخواست کی کہ حضور علیہ السلام کے گھر میں کوئی خدمت سپرد ہوجائے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ خدمت رضاکارانہ ہی ہوسکتی ہے۔ آپؓ نے عرض کی کہ مَیں تو حضورؑ کی خدمت کرنے کا خواہشمند ہوں اور کسی مالی امداد کی خواہش نہیں۔ پھر ایک دن انہوں نے آپؓ کو یکّہ کے کرایہ کے لئے دو آنہ دیئے اور بٹالہ سے ایک پیکٹ لانے کا ارشاد فرمایا۔ آپؓ پیدل جاکر وہ پیکٹ لے آئے اور دو آنہ حضورؑ کی خدمت میں پیش کردیئے۔ حضرت میر صاحبؓ نے فرمایا کہ یہ رقم آپؓ خود رکھ لیں۔ آپؓ نے عرض کی کہ مَیں حضورؑ کی خوشنودی کا طالب ہوں اور کھانا تو لنگر سے بھی کھاسکتا ہوں۔ حضورؑ آپؓ کے عمل سے خوش تھے اور وعدہ فرمایا کہ حسب ضرورت آئندہ بھی ایسی خدمت آپؓ کے سپرد کی جاتی رہے گی۔
آپؓ نے حضورؑ کی خدمت کی اپنی خواہش کو ایک نظم کی صورت بھی خدمت اقدسؑ میں پیش کیا تھا۔ چنانچہ آپؓ کو امرتسر سے برف لانے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ ایک بار حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے خدمتِ اقدسؑ میں عرض کیا کہ میر صاحبؓ کھانا تو لنگر سے کھا لیتے ہیں لیکن کچھ ذاتی ضروریات کے لئے انہیں کچھ نہ کچھ دیا جانا چاہئے۔ اُن دنوں حضورؑ کو مالی مشکلات بہت درپیش تھیں۔ اس لئے حضورؑ نے مستقل مشاہرہ تو منظور نہ فرمایا تاہم ایک روپیہ بھجوادیا۔ جب آپؓ کو اس بات کا پتہ چلا تو آپؓ نے حضرت میر صاحبؓ سے فرمایا کہ حضورؑکو اس حوالہ سے آئندہ تکلیف نہ دیں اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہی اپنی خدمات کا صلہ چاہتے ہیں۔ پھر آپؓ نے اُس روز خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ وہ خود آپؓ کی ضروریات کا خیال رکھے۔ پھر اسی رات خواب میں آپؓ نے دیکھا کہ کوئی آپؓ سے کہہ رہا ہے کہ مانگو کیا مانگتے ہو!۔ آپؓ نے عرض کیا کہ مَیں صرف سات آٹھ روپے ماہوار چاہتا ہوں تاکہ قادیان میں رہ کر گزارہ کرسکوں، مزید کچھ نہیں چاہتا۔ آواز آئی کہ تم نے خدا سے مانگا ہے اور صرف آٹھ روپے مانگے ہیں۔ یہ تمہیں دیئے جاتے ہیں۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگلی صبح مجھے حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ ایڈیٹر ’البدر‘ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ازخود ملازمت کی پیشکش کی اور خود تنخواہ بتائی کہ آٹھ روپے ماہوار۔ میرے منہ سے لفظ تک نہ نکل سکا۔ پھر مَیں نے اپنی نئی ملازمت کی اطلاع حضورؑ کی خدمت میں دے دی۔
گورداسپور میں ایک مقدمہ کے دوران بعض کتب کی ضرورت پڑی تو حضرت مفتی فضل الرحمن صاحبؓ نے رات کو حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ کو اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ سے تین بار فرمایا کہ میاں مہدی حسین! یہ وقت جنگ کا ہے، ہر کام چھوڑ کران کے ساتھ چلے جاؤ۔ آپؓ نے حضورؑ کو یقین دلاتے ہوئے عرض کیا کہ اگر ملکہ وکٹوریہ بھی مجھے اس کام سے روکے گی تو مَیں اُس کی اطاعت نہیں کروں گا۔ چنانچہ آپؓ گئے، کتب اکٹھی کیں۔ ایک کتاب آپؓ کو اپنے دفتر سے ملی تو وہ بھی لے لی۔ اگلے روز جب آپؓ گورداسپور پہنچے تو حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ بھی وہاں موجود تھے تاکہ مقدمہ کی کارروائی قلمبند کرسکیں۔ انہوں نے آپؓ سے پوچھا کہ بلااجازت کیوں آئے ہیں؟ آپؓ نے ساری بات بتائی تو وہ فرمانے لگے کہ بلااجازت میرے دفتر سے کتاب بھی نکال لی۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے ملازمت شروع کرتے وقت صرف یہی شرط رکھی تھی کہ حضور علیہ السلام کے کام کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دوں گا۔
اس واقعہ کے قریباً چار ماہ بعد حضور علیہ السلام نے حضرت میر صاحبؓ کو یاد فرمالیا اور پھر حضورؑ کی وفات تک آپؓ حضورؑ کی لائبریری میں ہی کام کرتے رہے۔
ایک بار آپؓ حضرت پیرسیراج الحق نعمانی صاحبؓ کے ہمراہ کھڑے باتیں کررہے تھے کہ دل میں شدّت سے یہ خیال آیا کہ آپؓ کو اپنی جگہ پر پہنچنا چاہئے۔ اُن دنوں آپ حضور علیہ السلام کے محافظ کے طور پر خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ چنانچہ آپؓ فوراً وہاں پہنچے تو حضورؑ کو اپنا منتظر پایا۔ حضورؑ نے آپؓ کو قرآن کریم کا ایک نسخہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حافظ فضل دین صاحب سے فلاں آیت نکلوالاؤ۔ اُس وقت آپؓ کے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کہ آپؓ بھی حافظ قرآن ہوتے۔ آپؓ نے دعا کرکے قرآن کریم کھولا تو مطلوبہ آیت سامنے ہی نظر آگئی۔ جو آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں پیش کردی۔
ایک بار حضورؑ نے آپؓ کو چار روپے دے کر حکم دیا کہ لنگر میں کل صبح کا کھانا پکانے کے لئے شام تک جلانے والی لکڑی مہیا کرنے کا انتظام کریں۔ آپ ؓ پریشان تھے کیونکہ پہلے کبھی یہ خدمت نہیں بجالائے تھے، قادیان کے نواحی علاقہ سے بھی غیرمانوس تھے اور اُن دنوں آپؓ کا پاؤں بھی زخمی تھا۔ اسی پریشانی میں آپؓ مسجد مبارک کی چھت پر چلے گئے اور دعا کرنے لگے کہ کیا کروں۔ آواز آئی: صحرا۔ کچھ سمجھ نہ آئی تو پھر دعا شروع کی کہ کدھر کو جاؤں۔ آواز آئی کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں، یہیں آجائے گا۔ چنانچہ آپؓ چھت سے نیچے اُتر آئے تو ظہر کا وقت تھا۔ ایک خادمہ نے آپؓ کو دیکھ کر کہا کہ دوپہر ہوگئی ہے اور آپ ابھی تک لکڑی لینے نہیں گئے۔ پھر وہ آپؓ کی شکایت حضورؑ سے کرنے گھر میں چلی گئی تو آپؓ اس ڈر سے لنگڑاتے ہوئے بٹالہ کی طرف روانہ ہوگئے کہ جواب طلبی ہوئی تو حضورؑ سے کیسے کہوں گا کہ یہ الہام ہوا ہے۔ پھر خیال آیا کہ الہام میں تو یہی ٹھہرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ قادیان کے نواحی علاقہ میں پھِرنے کے بعد مسجد مبارک کے کونہ میں آکر بیٹھ گئے۔ عصر کی نماز سے پہلے ایک خادم نے آپؓ کو دیکھ کر کہا کہ لکڑی کا ایک چھکڑا نیچے آیا ہوا ہے اُسے جاکر خریدلو۔ یہ سن کر آپؓ سجدۂ شکر بجالائے لیکن پھر جاکر دیکھا تو لکڑی کافی مہنگی تھی۔ اس پر آپؓ واپس مسجد میں آگئے اور پھر دعا کی۔ شام ہوئی تو لکڑی بیچنے والے نے آپؓ کے حسب منشاء قیمت میں لکڑی فروخت کردی۔
اکتوبر 1934ء میں حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ بغرض تبلیغ ایران چلے گئے جہاں سے مئی 1935ء میں واپسی ہوئی۔ آپ کی وفات 31؍اگست 1941ء کو ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔