حضرت نواب سید مولوی مہدی حسنؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍فروری 2007ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت کے قلم سے حضرت مولوی مہدی حسن صاحبؓ فتح نواز جنگ کا تفصیلی ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
فتح نواز جنگ حضرت سید مولوی مہدی حسن صاحبؓ بیرسٹر ایٹ لاء، سابق چیف جسٹس و ہوم سیکرٹری حیدرآباد دکن، لکھنؤ میں آسودۂ خاک ہیں۔ آپ علیگڑھ کالج کے ٹرسٹی اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نامور اور ممتاز ممبران میں سے تھے۔ 26 دسمبر 1900ء کو قادیان میں حاضر ہوئے۔ چونکہ مغربی طرز تمدن میں نشوونما پائی تھی اور ناز ونعم کے ماحول میں پل کر علمی شہرت حاصل کی تھی لہٰذا ان کا سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے قادیان میں پہنچنا بجز کشش اور اخلاص کے ممکن نہیں تھا۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ کی آمد پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہر ایک قدم جو صدق اور تلاش حق کے لئے اٹھایا جاوے اس کے لئے بڑا ثواب اور اجر ملتا ہے مگر عالم ثواب مخفی عالم ہے جس کو دنیا دار کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی… خدا کی راہ میں سختی کا برداشت کرنا، مصائب اور مشکلات کے جھیلنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جانا ایمانی تحریک ہی سے ہوتا ہے۔ ایمان ایک قوت ہے جو سچی شجاعت اور ہمت انسان کو عطا کرتا ہے۔ اس کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگی میں نظر آتا ہے‘‘۔ پھر حضرت اقدسؑ نے صحابہؓ کی قوت ایمانی پر نظائر پیش کرکے واضح فرمایا کہ ترقی یورپ کے اتباع میں نہیں بلکہ قرآن پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔
حضورؑ نے اس ناصحانہ خطاب کے بعد سید مہدی حسن صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ کو چونکہ خدا تعالیٰ نے موقعہ دیا ہے کہ اس قدر دُور دراز کا سفر اختیار کر کے اور راستہ کی تکلیف اٹھا کر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ایمانی قوت کی تحریک نہ ہوتی تو اس قدر تکلیف برداشت نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے اور اس قوت کو ترقی دے تاکہ آپ کو وہ آنکھ عطا ہو کہ آپ اس روشنی اور نور کو دیکھ سکیں جو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دنیا پر نازل کیا ہے۔ بعض اوقات انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ کہیں جاتا ہے اور پھر جلد چلا آتا ہے، مگر اس کے بعد اس کی روح میں دوسرے وقت اضطراب ہوتا ہے کہ کیوں چلا آیا۔ ہمارے دوست آتے ہیں اور اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے جلد چلے جاتے ہیں لیکن پیچھے ان کو حسرت ہوتی ہے کہ کیوں جلد واپس آئے۔‘‘
اس موقع پر انہوں نے عرض کیا کہ میرا بھی یقینا یہی حال ہوگا۔ اور اگر میں نواب محسن الملک صاحب اور دوسرے دوستوں کو تار نہ دے چکا ہوتا تو میں اَور ٹھہرتا۔ حضورؑ نے آپ کی معذرت کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے فرمایا: ’’بہرحال میں نہیں چاہتا کہ آپ تخلّف وعدہ کریں اور جبکہ ان کو اطلاع دے چکے ہیں، تو ضرور جانا چاہئے‘‘۔
جلسہ میں حضرت نواب صاحبؓ کی شمولیت کے حوالہ سے اخبار ’’الحکم‘‘ نے لکھا: معزز مہمان علیگڑھ کالج کے ٹرسٹی نواب عماد الملک فتح نواز جنگ مولوی سید مہدی حسن صاحب بیرسٹرایٹ لاء ہیں۔ آپ نے علوم عربیہ کو باقاعدہ تحصیل کیا ہے اور نئی روشنی سے بھی پورا حصہ لیا ہے۔ مولوی صاحب ممدوح کو حضرت اقدس امام ہمام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق اس طرح پیدا ہوا کہ آپؓ نے ’’پانئیرؔ‘‘ میں بشپ لاہوری کے متعلق ایک چٹھی پڑھی تو خیال آیا کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہوسکتا جو اتنے بڑے آدمی کو ایک فوق العادت دعوت کرتا ہے جس کے متبعین میں اس درجہ اور طبقہ کے لوگ شامل ہیں۔ اس کے بعد آپ کو سیرت مسیح موعودؑ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور پھر حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ اور حضورعلیہ السلام سے خط وکتابت بھی کی۔ آپ جب حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اسسٹنٹ سرجن سے ملے اُن کے اخلاق حمیدہ نے بھی آپ کو بہت متاثر کیا۔ ’’الحکم‘‘ بھی آپ کے زیر مطالعہ رہا۔ غرض بارش کی وجہ سے راستہ کی مشکلات اور علیگڑھ کالج کی تعلیمی کانفرنس میں شمولیت پر آپ نے قادیان کے سفر کو مقدم کرلیا۔ اور 26 دسمبر1900ء کی تقریر کے بعد آپ کو کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔
قادیان میں حضرت نواب صاحب کی ملاقات حضرت سید عبد اللہ صاحب بغدادیؓ سے ہوئی تو آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ انہوں نے بھی مذہب شیعہ ترک کر کے احمدی مذہب اختیار کیا تھا۔ بغدادی صاحب نے نواب صاحب سے پوچھا کہ آپ نے حضرت اقدسؑ کو کیسا پایا تو نواب صاحب نے عربی زبان میں کہا کہ یہ نبیوں جیسا اور اس کا کلام نبیوں جیسا ہے اور بے شک و شبہ صادق ہے۔
چونکہ کانفرنس میں شریک ہونا تھا اس لئے جلد تشریف لے گئے۔ اور پھر دارالامان آنے کے واسطے تڑپتے رہے اور بارہا تلاش موقع رہے مگر افسوس کہ وہ یہ آرزو دل ہی میں لے گئے۔
قادیان سے واپس جاکر حضرت نواب صاحب موصوف کی ارادت اور عقیدت سلسلہ کے ساتھ بہت بڑھ گئی تھی۔ قادیان کی قومی ضرورتوں میں باضابطہ حصہ لیتے تھے۔ الحکمؔ کے ساتھ ان کو محبت تھی اور تفسیر القرآن کے ساتھ بھی ان کو بڑا عشق تھا۔ انہوں نے ایک درجن سے زیادہ معزز اور با رسوخ لوگوں میں الحکمؔ اور تفسیرالقرآن کی اشاعت بھی کی۔ المختصرکہ لکھنؤ میں زور شور سے خدمت دین میں سرگرم ہوگئے۔
وفات سے قبل آپ کو ایک عظیم ملّی کارنامہ انجام دینے کی توفیق ملی۔ 1904ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا تو لکھنؤ میں اس کی خوفناک مخالفت شروع ہوگئی اور بقول نواب محسن الملک مرحوم تعجب نہ تھا کہ کانفرنس کا چراغ گل ہوگیا ہوتا۔ یہ مخالفت معمولی نہ تھی اور اس کا دبانا آسان نہ تھا اس لئے کہ وہ ایسے گروہ کی طرف سے شروع ہوئی تھی جو عوام میں مقدس اور رہنما اور دین کا ہادی سمجھا جاتا ہے اور جس کا حکم خدائی کہا جاتا ہے۔ پیشوا شیعوں کے اور علمائے فرنگی محل جو سنیوں کے امام سمجھے جاتے ہیں، وہ دونوں ایک ہوگئے اور انہوں نے کانفرنس کے شرکاء پر الحاد، ارتداد اور کفر کے فتوے جاری کئے، اشتہارات تقسیم کئے، جلسے کئے اور تقریروں میں کہا کہ کانفرنس کے شرکاء اسلامی حقوق سے محروم ہوجائیں گے اور مرنے کے بعد ان کی نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا۔
مسلمان فرقوں کی مصالحت اور کانفرنس کی کامیابی کا سہرا جن بزرگوں کا مرہون منت تھا ان میں حضرت نواب صاحبؓ سرفہرست تھے۔
کانفرنس کے بعد جلد ہی 13؍جنوری 1904ء کو آپؓ انتقال فرماگئے۔ آپؓ کے المناک انتقال پر الہ آباد کے مشہور اخبار پانیئرؔ نے لکھا: نواب مہدی حسن فتح نواز جنگ صاحب کے انتقال پُرملال پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے تھوڑا ہے۔ آپ صرف تین ہفتے بیمار رہے تھے۔ اور مرض خون میں زہریلے مادہ کا زیادہ ہونا تشخیص کیا گیا تھا۔ آپ نے سر سالار جنگ ثانی کے پُرآشوب زمانہ کے بعد حیدرآباد میں نہایت حسن لیاقت سے کام انجام دیا اور پہلے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے لئے کیا بلحاظ اپنی انگریزی قابلیت اوربلحاظ قانونی واقفیت وہ نہایت ہی مناسب تھے۔ پھر ہوم سیکرٹری مقرر ہوگئے…
حضرت سید مہدی حسن صاحبؓ عبقری شخصیت اور صاحب طرز انشاء پرداز تھے آپ کے یادگار علمی لٹریچر میں تین تصانیف کا سراغ مل سکا ہے:
۱۔ ’’مرقع عبرت‘‘: یہ نواب سالار جنگ کی سوانح ہے۔
۲۔ ’’سالانہ جوڈیشل رپورٹ 1885ئ‘‘: یہ جوڈیشل پہلی رپورٹ تھی جو نواب فتح نواز جنگ کے زمانہ معتمدی عدالت کوتوالی و امور عامہ میں مرتب ہوئی۔
۳۔ ’’ہندوستانی زندگی‘‘