حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 8 مارچ 2019ء)
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جنوری فروری 2012ء میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیرکوٹلہ کا مختصر تعارف مکرم فخرالحق شمس صاحب کی حضرت نواب صاحبؓ کے حوالہ سے لکھی جانے والی کتاب سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب یکم جنوری 1870ء کو اپنے والد محترم نواب غلام محمد خان صاحب کی چوتھی بیگم نواب بیگم صاحبہ بنت سردار خان صاحب کے بطن سے پیدا ہوئے۔ چھ سات سال کی عمر میں اُس زمانہ کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ ’چیفس کالج انبالہ‘ میں داخل کروائے گئے جہاں رؤسائے پنجاب کے بچے زیرتعلیم ہوتے تھے۔ آپ کے ساتھ ملازم، اتالیق، گھوڑے اور سواری الغرض کافی عملہ بھیجا گیا۔
آپ کا نکاح 14 سال کی عمر میں اپنی خالہ زاد مہرالنساء بیگم صاحبہ سے ہوا۔ 21 سال کی عمر میں تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں حضرت نواب صاحب نے حتی المقدور کسی قسم کی رسم نہ ہونے دی۔ آپ کو رسوم و بدعات سے سخت نفرت تھی۔
ابتدائی عمر میں آپ نے اپنے استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا۔ حضور علیہ السلام کا اُن دنوں کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ بعد میں 1889ء میں آپ نے حضرت اقدسؑ سے خط و کتاب شروع کی اور بعض سوالات کا اطمینان بخش جواب پانے کے بعد بِلاتأمّل بیعت کا خط لکھ دیا۔ رجسٹر بیعت میں آپ کا نمبر 210 زیر تاریخ 19؍نومبر 1890ء درج ہے۔ ابتداء میں آپؓ نے اپنی بیعت کو مخفی رکھا لیکن حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کا اور آپؓ کے خاندان کا ذکر فرمادیا تو اس طرح آپؓ کی بیعت کا اعلان بھی ہوگیا۔ نومبر 1898ء میں آپؓ کی اہلیہ وفات پاگئیں تو حضور علیہ السلام کے مشورہ اور تحریک پر آپؓ نے اپنی اہلیہ مرحومہ کی چھوٹی بہن محترمہ امۃالحمید بیگم صاحبہ سے شادی کرلی۔ 1906ء میں آپؓ کی اہلیہ ثانی بھی وفات پاگئیں۔ ان کا جنازہ حضور علیہ السلام نے پڑھایا۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت 17؍فروری 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ سے ہوگیا۔ اعلانِ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے کیا۔ اس حوالہ سے حضرت نواب صاحبؓ اپنی ڈائری میں رقمطراز ہیں:
’’یہ وہ فضل اور احسان، اللہ کا ہےاگر مَیں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھساؤں تو بھی خداتعالیٰ کے شکر سے عہدہ برآں نہیں ہوسکتا۔ میرے جیسے نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور۔ یہ خدا کا خاص رحم اور فضل ہے۔ اے خدا! اے میرے پیارے مولیٰ! اب تُو نے اپنے مُرسَل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نُور بنادے کہ اس قابل ہوسکوں‘‘۔
حضرت نواب صاحبؓ نے قادیان ہجرت کے بعد شروع میں دارالمسیح کے ساتھ دو کچے کمروں میں رہائش اختیار کی اور پھر قادیان کی آبادی سے باہر کوٹھی ’’دارالسلام‘‘ تعمیر کروائی جس میں باغ بھی لگوایا۔
حضرت نواب صاحبؓ فونوگراف قادیان لائے اور حضورعلیہ السلام کی نظم
؎ آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے
اور کچھ دیگر نظمیں اور تقریریں نیز غیرممالک میں تبلیغ کے لئے پیغام بھی ریکارڈ کیا گیا۔
حضرت نواب صاحب ایک علم دوست شخصیت تھے۔ آپؓ کا روپیہ ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ ہوا۔ آپ کو تعلیم کی عام ترویج کا بہت شوق تھا۔ مدرسہ احمدیہ کے لئے کئی مرتبہ مالی تعاون کیااور آپؓ ہی کی عالی ہمّتی سے قادیان میں کالج کا قیام ہوا۔ (حضرت نواب صاحبؓ کی مالی قربانیوں کے حوالہ سے ایک مضمون الفضل انٹرنیشنل 5؍جنوری 2007ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔)
حضرت نواب صاحبؓ کے اخلاق فاضلہ کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ کسی پر اعتراض نہ کرتے، نہ گلہ شکوہ کرتے۔ غیبت نہ کرتے تھے اور نہ سنتے تھے۔ ادب اور حفظِ مراتب کے بے حد پابند تھے اور اکثر اپنی اولاد اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ تہجّد کی نماز میں آپؓ دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خداتعالیٰ کا نُور کمرہ میں نازل ہورہا ہے۔ بہت گریہ و زاری کرتے۔ تلاوت قرآن مجید کی کثرت کے باعث قریباً تمام قرآنی دعائیں یاد تھیں۔ احادیث کی بھی بہت سی دعائیں یاد تھیں جو اکثر پڑھا کرتے تھے۔
حضرت نواب صاحبؓ نے لمبا عرصہ علیل رہنے کے بعد 10؍فروری 1945ء کو بعمر 75 سال وفات پائی۔