حضرت چودھری امین اللہ صاحبؓ
حضرت چودھری امین اللہ صاحبؓ کا ذکر خیر ان کے بیٹے مکرم چودھری محمد یوسف صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍دسمبر 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔
آپ 1886ء میں موضع ملیاں ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت چودھری محمد بخش صاحبؓ کا تعلق زمیندار متوسط گھرانہ سے تھا اور اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں ایک مبشر خواب کے ذریعہ بہت پہلے اشارہ دیدیا گیا تھا۔ جب وہ حضرت اقدسؑ کی زیارت کے لئے 1898ء میں پہلی بار قادیان پہنچے تو فوراً دستی بیعت کرلی۔ واپس آکر اپنے بیٹوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی تلقین کی چنانچہ تینوں بیٹوں نے بھی اسی سال قبول احمدیت کی سعادت حاصل کرلی۔ جب برادری کو اس گھرانہ کے قبول احمدیت کا علم ہوا تو شدید مخالفت ہوئی اور کسی حد تک بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ اسی دوران حضرت چودھری محمد بخش صاحبؓ کی وفات ہوگئی اور وہ اپنے ملکیتی کھیتوں میں ہی دفن کئے گئے۔ پھر تینوں بھائی تلاش معاش کے لئے اپنے گاؤں سے نقل مکانی کرگئے۔ بڑے حضرت چودھری محمد اسماعیل صاحبؓ نے محکمہ مال اور چھوٹے حضرت چودھری مہراللہ صاحبؓ نے محکمہ ریلوے میں ملازمت کرلی جبکہ حضرت چودھری امین اللہ صاحب فوج میں بھرتی ہوکر بیرون ملک بھجوادیئے گئے۔ بعد ازاں تینوں بھائیوں نے قادیان میں زمینیں خرید کر مکانات تعمیر کروائے اور زرعی زمینوں کو مستقل چھوڑ دیا۔
جنگ عظیم اوّل کے اختتام پر حضرت چودھری امین اللہ صاحبؓ نے قادیان میں سکونت اختیار کرلی، نظام وصیت سے بھی منسلک ہوگئے۔ نماز اور چندہ کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہ کرتے۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے مجاہد تھے۔ قرآن کریم سننے کا خاص اہتمام کرتے۔ ہر سال پندرہ دن کے لئے وقف عارضی پر جاتے اور ہر سال اپنے گاؤں جاکر اپنے عزیزوں کو بھی دعوت الی اللہ کرتے۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا۔ ایک بیٹا بچپن میں فوت ہوگیا باقی سارے اچھی تعلیم سے آراستہ اور بااولاد ہوئے۔
حضرت چودھری صاحبؓ 1947ء میں حفاظت مرکز کے سلسلہ میں ڈیوٹی دیتے رہے۔ اس دوران سکھوں کے ایک حملہ کے نتیجہ میں آپؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت چودھری محمد اسماعیل صاحبؓ شدید زخمی ہوئے۔ پہلے نور ہسپتال میں علاج ہوتا رہا اور پھر اسی حالت میں ہجرت کرکے لاہور پہنچے جہاں میوہسپتال میں زیر علاج رہ کر صحت یاب ہوئے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ مَیں قادیان میں صدر انجمن کی ملازمت میں تھا جو لاہور آنے کے بعد بحال ہوگئی جبکہ والد صاحب (حضرت چودھری صاحبؓ) کو ایک مکان لاہور میں الاٹ ہوگیا اور اس طرح یہ گھرانہ کچھ پُرسکون ہوگیا۔ 1950ء میں آپؓ کو سلانوالی ضلع سرگودھا میں زرعی اراضی اور مکان الاٹ ہوگیا۔ جلد ہی سلانوالی میں جماعت قائم ہوگئی اور آپؓ نے اراضی پر کاشت کا سلسلہ شروع کردیا جو بہت بابرکت ہوا۔ 1953ء کے فسادات میں سلانوالی کے احمدیوں کا بھی بائیکاٹ کردیا گیا جبکہ آپؓ کی والدہ حضرت کرم بی بی صاحبہؓ جو موصیہ تھیں اور اسی دوران وفات پاگئی تھیں، اُن کا جنازہ بھی ربوہ لے جانے نہیں دیا گیا چنانچہ اُن کی تدفین امانتاً سلانوالی میں ہی کرنا پڑی۔ لمبا عرصہ کھانے پینے کی اشیاء نہ ملنے کی وجہ سے آپؓ کو معدہ میں خرابی کی شکایت پیدا ہوئی جو بعد ازاں ٹائیفائیڈ میں بدل گئی۔ لاہور میں بھی زیر علاج رہے لیکن 21؍اگست 1954ء کو وفات ہوگئی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔