حضرت چودھری ظفراللہ خانصاحبؓ کا مراکش کی آزادی میں کردار
پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ کراچی جلد 19شمارہ 17 میں ’’تاریخ کا ایک ورق‘‘ کالم میں جناب اشتیاق بیگ رقمطراز ہیں کہ مراکش پر جس وقت فرانس کا تسلّط تھا اور فرانسیسی اسے اپنی ایک نو آبادیاتی حصہ سمجھتے تھے۔مراکش کے موجودہ بادشاہ کے دادا مرحوم محمدکی قیادت میں مراکش نے فرانس سے آزادی کی تحریک جاری کی تھی۔ 1952ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے موقع پر بادشاہ محمد کی طرف سے بھیجے گئے آزادی کے اہم لیڈر احمد عبدالسلام بلفرج سیکورٹی کونسل میں مراکش کی آزادی کے لئے بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرانسیسی نمائندہ نے انہیں یہ کہہ کر منع کر دیا کہ مراکش پر فرانس کا تسلط ہے،اس لئے عبدالسلام بلفرج کو اس پلیٹ فارم پر بولنے کی اجازت نہیں۔ سیکورٹی کونسل کے اس اجلاس میں پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ سرظفراللہ خان نے جب ایک مسلم ملک کے ساتھ فرانس کا یہ رویہ دیکھا تو انہوں نے احمد عبدالسلام بلفرج کو فوری طور پر نیویارک میں واقع پاکستانی سفارتخانہ سے پاکستانی پاسپورٹ جاری کروادیا اور انہیں پاکستانی شہری کے طور پر پاکستان کی چیئر سے اپنا کیس پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد مراکش کی آزادی کی تحریک نے زور پکڑا۔ 28؍اگست1953ء کو بادشاہ محمد نے مڈغاسکر میں جلاوطنی اختیار کر لی اور وہاں سے تحریک کو جاری رکھا۔ پھر 16؍نومبر 1955ء میں مراکش واپس آئے۔
اس تحریک کے نتیجہ میں مراکش کو 19؍نومبر 1956ء کو فرانس کے تسلّط سے آزادی حاصل ہوئی۔ بادشاہ محمد نے احمد عبدالسلام بلفرج کو مراکش کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا۔ مراکش کے شہر رباط میں پاکستانی سفارتخانہ بھی احمد عبدالسلام بلفرج کے نام سے منسوب شاہراہ پر واقع ہے۔ گزشتہ سال مراکش میں متعین پاکستان کے سفیر رضوان الحق نے 51 سال پرانے اُس پاکستانی پاسپورٹ کی فوٹوکاپی احمد عبدالسلام بلفرج کو پیش کی جسے دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے اور انہوں نے پاسپورٹ کی یہ کاپی اپنے دفتر میں آویزاں کی۔ وہ دفتر آنے والوں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ مراکش کی آزادی کی مہم کے دوران پاکستانی پاسپورٹ نے میری مدد کی۔ وہ مراکشی تحریک آزادی کے لئے پاکستان کی کاوشوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
براۓ کرم اس عبارت کا عربی ترجمح بھی ضرور شائع کریں –
ہو سکے تو آپ عربی ترجمہ میرے ای میل ایڈریس پر ارسال فرما دیں-
بہت شکریہ
آپ کا مشورہ بہت عمدہ ہے۔ جزاکم اللہ
نوٹ: قارئین کرام! مکرم انعام اللہ صاحب نے اس مضمون کا عربی ترجمہ کرکے بھجوایا ہے جو درج ذیل ہے:
حضرة شودري ظفر الله خان في تحرير المغرب
في “المصلح” في كراتشي ، المجلد 15 ، العدد 19 ، العدد 17 في عمود “ورقة التاريخ” ، يشير السيد اشتياق بيغ إلى أنه في الوقت الذي كان فيه المغرب تحت الحكم الفرنسي واعتبره الفرنسيون جزءًا من مستعمرتهم. أطلق المغرب بقيادة الملك الراحل محمد حركة استقلال عن فرنسا. وقف أحمد عبد السلام بلفريدج ، أحد قادة الاستقلال الرئيسيين الذي أرسله الملك محمد في اجتماع لمجلس الأمن التابع للأمم المتحدة عام 1952 ، في مجلس الأمن للتحدث عن استقلال المغرب ، لكن المبعوث الفرنسي أوقفه. بالنظر إلى أن المغرب تحت السيطرة الفرنسية ، لا يُسمح لعبد السلام بلفريدج بالتحدث على المنصة. في اجتماع مجلس الأمن ، أرسل وزير الخارجية الباكستاني الأول ، سارزافار الله خان ، عندما رأى موقف فرنسا تجاه بلد مسلم ، على الفور أحمد عبد السلام بلفريدج إلى باكستان من السفارة الباكستانية في نيويورك. تم إصدار جواز السفر وأتيحت له الفرصة لعرض قضيته من رئيس باكستان كمواطن باكستاني. ثم اكتسبت حركة الاستقلال المغربية زخماً. في 28 أغسطس 1953 ، تم نفي الملك محمد إلى مدغشقر وواصل الحركة من هناك. عاد إلى المغرب في 16 نوفمبر 1955.
نتيجة لهذه الحركة ، حصل المغرب على استقلاله عن الحكم الفرنسي في 19 نوفمبر 1956. عين الملك محمد أحمد عبد السلام بلفريدج أول رئيس وزراء للمغرب. تقع السفارة الباكستانية في مدينة الرباط المغربية على طريق سريع يحمل اسم أحمد عبد السلام بلفردج. في العام الماضي ، قدم سفير باكستان لدى المغرب ، رضوان الحق ، صورة من جواز السفر الباكستاني البالغ من العمر 51 عامًا إلى أحمد عبد السلام بلفريدج ، الذي صدم عندما شاهده وعلقه في مكتبه. يخبر بفخر أولئك الذين يأتون إلى المكتب أن جواز السفر الباكستاني ساعدني خلال حملة الاستقلال المغربية. إنه يقدر جهود باكستان من أجل حركة الاستقلال المغربية ويحب الباكستانيين بشدة.