حضرت چودھری غلام احمد خان صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 2جون 2010ء میں مکرم رانا عبدالرزاق صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ایک مضمون میں محترم چودھری غلام احمد خان صاحب رضی اللہ عنہ رئیس کاٹھگڑھ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
کاٹھگڑھ میں جماعت احمدیہ کا قیام حضرت چوہدری غلام احمد صاحبؓ آف کریام کے ذریعہ 1900ء میں عمل میں آیا۔ سب سے پہلے حضرت محمد علی شاہ صاحبؓ احمدی ہوئے۔بعد ازاں حضرت مولوی عبدالسلام صاحبؓ ابن سوہنے خاں کے گھرانے میں احمدیت آئی۔ پھر کاٹھگڑھ کے رئیس محترم چوہدری غلام احمد خاں صاحب نے بھی احمدیت کے بارہ میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور اپنے بھائیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بنیادی دعویٰ کے متعلق معلومات لیں اور کتب پڑھیں۔ آپ نے حضورؑ کی خدمت میں ایک خط برائے دعا نرینہ اولادبھی لکھا تھا۔ اُس وقت تک آپ کا کوئی بیٹا نہ تھا، صرف بیٹیاں تھیں اور آپ ادھیڑ عمر کے تھے۔آپ کو جواب آیا تھا جس میں آپ کی خواہش کے مطابق اولاد نرینہ کے لئے دعا کر نے کا ذکر ہے۔ اس کے ایک سال بعد خدا تعالیٰ نے آپ کو فرزند عطا کیا جس کا نام آپ نے عبدالرحیم خاں رکھا۔
حضرت چوہدری غلام احمدخاں صاحبؓ بہت ہی وجیہہ اوردانشمند تھے۔ آپ کی برادری کافی بڑ ی تھی۔ کاٹھگڑھ میں سات نمبرداریاں تھیں مگر بڑے نمبردار اور رئیس کاٹھگڑھ آپؓ ہی تھے۔ آپؓ کے والد رحیم خاں ولد سمند خاں ولد جمال خاں ولد کافی خاں تھے جن کا تعلق گھوڑے واہ راجپوت خاندان سے تھا۔ آپؓ کے جدّامجد کافی خاںصاحب مغلیہ دَور میں راجستھان کے علاقے جے پور سے ہجرت کرکے اس علاقہ میں آکر آباد ہوئے تھے۔
جب حضرت چوہدری غلام احمدخاں صاحبؓ 1903ء میں قادیان جاکر احمدی ہوئے تو برادری کے ایک صد آدمیوں نے بھی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ آپؓ بڑے بااخلاق اور اثرورسوخ والے انسان تھے۔ آپؓ کے قبولِ احمدیت کے بعد سارے علاقے میں جابجا جماعتیں قائم ہوئیں۔ آپؓ کے تعاون سے مولوی عبدالسلام خاں صاحب نے بچوں کے لئے پرائمری سکول کھولا تھا جو بعد میں احمدیہ مڈل سکول کی شکل میں 1947ء تک خدمت میں مصروف رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے (قبل از خلافت) کاٹھگڑھ کو برکت بخشی تھی۔
حضرت چودھری صاحبؓ کے تحریر شدہ ایک خط سے آپؓ کے علمی مرتبے، علم قرآن اور قبول احمدیت کے متعلق کافی کچھ پتہ چلتا ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ مَیں سن تمیز کوپہنچ کر وہابی عقائد کا بڑی مضبوطی اور استقلال سے معتقد رہا۔ پھر سرسید احمد خان کی تحریرات نکلنی شروع ہوئیں تو ان کو ہی بلا تعصب مطالعہ کرتا رہااور بہت سی باتوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا رہا۔مگر جب اخیر نتیجہ پر غور کیا تو عملی حالت دن بدن بگڑتی نظر آئی۔ اب دل میںسوچ پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنی کلام پاک میں اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرماتا ہے۔ مگر اس کا ایفاء کب ہو گا؟ مَیں مرزا صاحب کی تحریرات بھی اس وقت سے دیکھتا ہوں جب کتاب ’براہین احمدیہ‘ کا اشتہار سفیر ہند پریس امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس چھپنے کے لئے گیا۔ پھر ’براہین احمدیہ‘ کی بعض جلدیں بھی مطالعہ کیں جس سے مرزا صاحب کے بیان صداقتِ اسلام اور اظہار نکات و رموز قرآن کا قائل ہوگیا اور مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کو بھی سچ مانتا رہا۔ مگر خیال یہ تھا کہ اس سے اسلام کے متروک شدہ عمل کوکیا فائدہ ہوا۔اسی اثنا میں مرزا صاحب نے دعوی مہدویت و مسیحیت کر دیا۔ اور بیعت لینی شروع کردی۔ اب میں اس تجسس و تحقیق میں ہوا کہ آیا مرزا صاحب امام ہیں اور امام میں چار اوصاف کا ہونا ضروری سمجھتا تھا کیونکہ امام کی فطرت نبیوں کے قریب قریب ہوتی ہے۔اور وہ اوصاف یہ ہیں: (1) اس ریفارم کا جس کے لئے مامور ہوا ہے پورا عامل اور سچا عاشق ۔ (2) ارادہ مستقل ایسا کہ کوئی تکلیف جسمانی یا مالی یا کوئی سختی دنیاوی اس کو اپنے کام سے روک نہ سکے۔ (3) کشش مقناطیسی ۔ (4)شرف مکالمہ اور تائید غیبی۔
اس کے بعد حضرت اقدس کی تصدیق کے لئے اول مجھے دو ہی معیا ر میسر تھے۔حضرت کا مضبوط ارادہ سے عملی اصلاح میں لگے رہنا۔ جماعت کے بعض افراد کا سچے دل سے دین کی پیروی کرنے سے ان کے ریفارم کا اثر۔ بس یہ ہی میرا مطلوب تھا، یہی مقصود۔ عرصہ تخمینہ تین سال سے خود قادیان حاضر ہوکربیعت سے مشرف ہوا۔ پھر مجھ کو باقی امر بھی حضرت اقدس کی ذات میں تصدیق ہوگئے۔
میرا یقین ہے کہ مامور کی کشش سعیدفطرت دلوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے نہ کہ شقی القلب لوگوں کو خواہ وہ قادیان میںرہیں یا کہیں۔ (اخبار الحکم 1907ء(
حضرت شیخ جان محمد صاحب راہوں کی روایت ہے کہ مَیں چوہدری غلام احمد صاحب رئیس کاٹھگڑھ بمع شیخ برکت اللہ مرحوم گورداسپور حاضر ہوئے تو حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ (خلیفہ اوّل) نے چوہدری صاحب کی وجہ سے ایک چھولداری ہم کو دیدی۔ ایک دن چوہدری صاحب نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ باورچی خانہ میں بٹیر پکائے گئے ہیں۔مجھے بھی بٹیر لادو۔ باورچی نے کہا کہ لاہور سے مہمان آئے ہوئے ہیں یہ اُن کے لئے پکائے گئے ہیں۔ میں اصرار کر رہا تھا کہ چوہدری غلام احمد ایک امیر اور خوش خور آدمی ہیں، دوسرے والد صاحب کے دوست بھی ہیں۔ اتنے میں حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ بالائی حصہ سے مکان کے نیچے آ گئے۔ یہ ماجرا سنا تو کہا کہ یہ خواجہ کمال الدین صاحب کے لئے بٹیر پکائے گئے ہیں۔تھوڑی دیر میں حضرت حافظ صاحبؓ طشتری میں دو بٹیر رکھ کر آگئے اور فرمایا کہ حضرت اقدسؑ سے ذکر کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ جلدی سے انہیں بٹیر پہنچا دو۔ اور فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیر پکائیں گے۔ دوسرے دن ایک بڑے دیگچے میں بٹیر پکائے گئے اور سب نے کھائے۔
راجپوت قوم میں اسلام کی اشاعت کی خاطر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے حضرت چوہدری غلام احمد خاں صاحبؓ کو انجمن راجپوتانِ ہند کا صدر 26 مارچ 1910ء کے اجلاس میں نامزد کیا تھا۔
حضرت چوہدری صاحبؓ نہایت سادہ، پابند نماز، دعاگو، صابر، معاملہ فہم،ہمدرد،مہمان نواز،بذلہ سنج، خوش گفتار، خوش خور، خوش طبیعت اور وجیہہ شکل، دانشمند اور بارعب انسان تھے۔ آپ نے 1924ء میں وفات پائی۔ آپؓ کے ایک ہی بیٹے تھے یعنی محترم چوہدری عبدالرحیم خاں صاحب۔