حضرت چودھری غلام حسن صاحبؓ نمبردار سیالکوٹی جٹ باجوہ
الفضل 9ستمبر2010ء میں حضرت چودھری غلام حسن صاحبؓ نمبردار سیالکوٹی جٹ باجوہ ولد چودھری صوبے خان صاحب کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ آپ 1878ء میں بمقام تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں، مَیں نے بیعت کی تھی۔ اس وقت ایک جائیداد کا مقدمہ ہم کو پڑا ہوا تھا جس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوچکا تھا اور ہم نے اپیل کی ہوئی تھی۔ تمام مخالفین سلسلہ ہم سے کہتے تھے کہ اگر تم اس مقدمہ میں کامیاب ہو جاؤ گے تو ہم مرزا صاحب کو سچا سمجھیں گے۔ چنانچہ میں نے ایک طویل خط حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں لکھا کہ یہ لوگ اس مقدمہ میں ہماری کامیابی کو آپ کی صداقت کی دلیل سمجھتے ہیں اور سلسلہ حقّہ کا یہ نشان سمجھیں گے۔ حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی دے اور عزت بچائے کیونکہ یہ مقدمہ طوالت پکڑ چکا ہے اور بہت خرچ اٹھ چکا ہے جس کا اثر ہماری اولادوں پر پڑے گا۔ چند یوم کے بعد حضور کی طرف سے ایک خط آیا کہ ’’دعا کی گئی تم خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو‘‘۔ حضرت چوہدری نصراللہ خاں صاحبؓ ہمارے وکیل تھے۔ ان کو جج صاحب نے بتادیا کہ اپیل تمہارے مخالف ہے۔ خداتعالیٰ نے ایسا معجزہ دکھایا کہ اپیل ہمارا نامنظور ہوگیا لیکن مخالف وکیل پنڈت بیلی رام جموں چلا گیا اور مخالف فریق ہمارے پیچھے لگ گیا کہ آؤ صلح کرلیں۔ چنانچہ وہ جائیداد ہم نے نصف نصفی تقسیم کرلی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی دعا سے ہر ایک نقصان سے بچالیا۔
ایک دفعہ ہم گرمی کے موسم میں قادیان گئے۔ میری بیوی اس وقت میرے ساتھ تھی۔ ملاقات کے موقع پر میری بیوی سے حضرت مسیح موعودؑ نے دریافت فرمایا کہ لڑکی تم کچھ پڑھی ہوئی ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں حضور میں قرآن شریف باترجمہ پڑھی ہوئی ہوں اور تفسیر محمدی بھی پڑھی ہوئی ہوں۔ چنانچہ آپؑ نے اس سے قرآن شریف ترجمہ کے ساتھ سنا۔ آپؑ نے فرمایا ’’ترجمہ وہی ہے جو تم نے پڑھا ہوا ہے لیکن سمجھ میں فرق پڑ گیا ہے۔ میری منشاء ہے کہ چند یوم یہاں ٹھہرو اور مجھ سے پڑھ کر جاؤ تو جا کر عورتوں کو وعظ کرو کیونکہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح وعظ کرسکتی ہیں‘‘۔ اگلے روز صبح کے وقت حضور نے میری بیوی کو سورۃ فاتحہ کا سبق دینا شروع کیا۔ اس وقت میری بیوی کی گود میں ایک چھوٹی لڑکی میمونہ بیگم تھی۔ ایک آنکھ اس کی خراب تھی اور پانی بہتا رہتا تھا۔ ہمیں خطرہ تھا کہ آنکھ ضائع ہوجائے گی۔ سبق دیتے وقت لڑکی نے رونا شروع کر دیا اور دونوں آنکھیں خراب ہوگئیں۔ حضور کوسبق دینا دشوار ہو گیا۔ مَیں خلیفہ اول کے شفاخانہ میں بیٹھا ہوا تھا حضور نے ایک خادم کے ساتھ لڑکی کو شفاخانہ بھیج دیا اور حضرت مولوی صاحب کو لڑکی خادمہ نے کہا کہ مولوی صاحب! حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس لڑکی کی آنکھوں میں کچھ ڈال دیں اچھی ہوجائے گی‘‘۔ چنانچہ مولوی صاحب نے فوراً اس کی آنکھوں میں ایک شیشی سے پانی سا ڈال دیا۔ لڑکی کی آنکھوں کو فوراً آرام آگیا اور ایک آنکھ کا نقص خاص بھی جاتا رہا۔ جب تک وہ لڑکی زندہ رہی اس وقت تک وہ معجزہ کے طور پر ہم لوگوں کو دکھایا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ضمیمہ رسالہ ’’تریاق القلوب‘‘ کے صفحہ 28 پر آپؓ کا نام نشان متعلق لیکھرام کے مصدقین کی فہرست میں نمبر 95 پر لکھا ہے۔ آپ 1924ء میں ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے اور ایک وسیع عمارت ’’حسن منزل‘‘ تعمیر کروائی جہاں آپ 1947ء کے پُرآشوب زمانہ تک رہائش پذیر رہے اور پھر اپنا سارا اثاثہ چھوڑ کر اپنی بہوؤں کے ساتھ پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔
حضرت چودھری صاحبؓ پانچ بھائی تھے۔ سارے شب بیدار، متدین اور مخیر بزرگ تھے۔
حضرت چودھری غلام حسن صاحبؓ کو قرآن سے غایت درجہ محبت تھی اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ بالخصوص حضرت المصلح الموعودؓ کے عاشق صادق تھے اور حضور کی خدمت میں ہر سال نذرانہ پیش کرنا آپ کا معمول تھا۔ آپ نے سلسلہ احمدیہ کی ہر مرکزی تحریک میں سرگرم حصہ لیا مگر اپنی زندگی نہایت سادہ رنگ میں بسر کی۔ آپ کو عمر بھر اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال دامنگیر رہا۔ آپ کی حسن تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ خدا کے فضل سے آپ کے بعض فرزندوں کو یورپ اور امریکہ میں نہایت کامیاب طورپر تبلیغِ اسلام کی توفیق ملی۔