حضرت چودھری محمد خانصاحبؓ

حضرت چودھری محمد خانصاحبؓ موضع گل منج ضلع گورداسپور کے نمبردار تھے۔ یہ گاؤں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔آپؓ 1871ء میں پیدا ہوئے اور نوجوانی میں ہی حضرت مسیح موعودؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کے قبولِ احمدیت کا واقعہ اس طرح سے ہے کہ ایک بار آپؓ اپنے ایک عزیز کے ساتھ اپنی برادری کے ایک گاؤں موضع کھبے ضلع امرتسر سے قادیان کے رستے پیدل اپنے گاؤں موضع گل سنج آ رہے تھے کہ مسجد اقصیٰ کے پاس سے گزر ہوا۔ عصر کا وقت تھا۔ آپؓ اپنے ہمراہی سے کہنے لگے کہ آؤ یہاں نماز عصر پڑھ لیتے ہیں ورنہ وقت جاتا رہے گا۔ چنانچہ دونوں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔ نماز ہوچکی تھی اور حضرت مسیح موعودؑ گھر واپس جانے کے لئے اپنا جوتا پہن رہے تھے۔ چودھری صاحبؓ نے حضورؑ کو سلام عرض کیا جس کا بڑی عمدگی کے ساتھ جواب دے کر حضورؑ جوتا اتار کر صف پر تشریف فرما ہوگئے۔ ان دونوں نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ جب یہ فارغ ہوئے تو حضورؑ نے آپؓ سے دریافت فرمایا ’’کیا آپ کے ہاں میرے اشتہار پہنچ گئے ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ جس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا میرے اشتہار تو دور دراز کے جزیروں میں پہنچ چکے ہیں آپ کا گاؤں کتنی دور ہے۔ چودھری صاحبؓ نے عرض کیا یہی کوئی چار کوس کے فاصلہ پر ہے۔ پھر حضورؑ نے آپؓ کو ہمراہ لیا اور اپنے گھر میں مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرے میں ایک الماری کھول کرفرمایا کہ تمہارے گاؤں میں جتنے پڑھے ہوئے لوگ ہیں اتنے اشتہار لے لو۔ چودھری صاحبؓ کہا کرتے تھے کہ ہمارے گاؤں میں پڑھے لکھے تو دو تین ہی تھے لیکن میں نے پندرہ اشتہار اٹھا لئے اور اپنے گاؤں آگیا۔ آپؓ کے والد چودھری ملنگ خان صاحب گاؤں کے نمبردار تھے۔ رواج کے مطابق شام کو لوگ ان کے ہاں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؓ نے اس وقت اشتہار اپنے والد کو دیئے اور پھر حاضرین کو پڑھ کر ایک اشتہار سنایا۔ آپؓ کے والد نے تو کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا لیکن آپکے دل پر اشتہار نے ایسا اثر کیا کہ اگلی ہی صبح بروز جمعہ چار کوس کے فاصلہ پر واقع گاؤں سیکھواں چلے گئے جہاں حضرت میاں جمال الدین صاحبؓ اور ان کے دو بھائی احمدیت قبول کرچکے تھے۔ حضرت چودھری صاحبؓ کے استفسار پر انہوں نے حضورؑ کے دعویٰ کی وضاحت کی تو آپؓ سیکھواں سے سیدھے قادیان پہنچے اوربیعت کرلی۔ پھر واپسی کی اجازت چاہی تو حضورؑ نے کچھ ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپؓ نے اگلے جمعہ تک قادیان میں ہی قیام کیا اور پھر اجازت لے کر واپس چلے آئے۔ آپؓ کا ذکر خیر آپ کے پوتے مکرم خالد سیف اللہ صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔
ایک روز آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے پاؤں دباتے وقت جھجکتے ہوئے حضورؑ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس سے میرے دین و دنیا دونوں سنور جائیں۔ حضورؑ نے فرمایا ہمارا وظیفہ یہی ہے کہ نماز سنوار کر ادا کیا کرو اور استغفار کثرت سے پڑھا کرو ۔ بعد میں ایک مرتبہ پھر جب آپؓ ایسے ہی پاؤں دبا رہے تھے تو پھر یہی عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا استغفار اور درودشریف کثرت سے پڑھا کریں۔
1905ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ نے دینی تعلیم سکھانے کی غرض سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اجراء کی غرض و غایت بیان فرمائی تو یہ باتیں سن کر حضرت چودھری محمد خانصاحبؓ (جن کی شادی تو ہوچکی تھی لیکن ابھی اولاد کوئی نہیں تھی) کا دل رقّت سے بھر گیا اور آپؓ نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ یہ عہد کیا کہ اگر خدا آپ کو دو بیٹے دیدے تو ایک کوآپ دینی تعلیم دلوائیں گے اور دوسرے کو تعلیم الاسلام سکول میں پڑھوائیں گے۔ بعد ازاں آپؓ کے پانچ بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے تین نوعمری میں ہی فوت ہوگئے اور باقی دو بیٹوں میں سے ایک کو آپؓ نے (1909ء میں جاری ہونے والے) مدرسہ احمدیہ میں اور دوسرے کو تعلیم الاسلام سکول میں داخل کروایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں