حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا:- ’’عزیزم چودھری ظفراللہ خانصاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ میری بیماری کے موقع پر تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقع دیا ہے بلکہ میرے لئے فرشتۂ رحمت بنادیا … اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا اور ان کی محبت کو قبول کرے گا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے‘‘۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپؓ کی وفات کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:- ’’ایک دفعہ BBC کے نمائندے نے انٹرویو لیتے ہوئے اچانک آپ پر سوال کیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے۔ بے تکلّف، سوچنے کے لئے ذرا بھی تردّد نہ کرتے ہوئے آپ نے فوراً یہ جواب دیا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا واقعہ وہ تھا جب مَیں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ کے مبارک چہرے پر نظر ڈالی۔ اس دن کے بعد پھر وہ ہاتھ آپؓ نے کبھی واپس نہیں لیا … اور جو عظمتیں بھی آپؓ کو ملی ہیں اس وفا کے نتیجہ میں ملی ہیں، اس استقلال کے نتیجہ میں ملی ہیں‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جنوری و 12؍فروری 2000ء میں حضرت چودھری صاحبؓ کی سیرت پر ایک مضمون مرتبہ مکرم پروفیسر راجہ نصراللہ خان صاحب شامل اشاعت ہے۔
محترمہ صاحبزادی امۃالجمیل صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے حضرت چودھری صاحبؓ کی بیماری کے دوران صرف اور صرف ایک بات سنی اور وہ یہی کہ ’’نماز کا وقت ہوگیا ہے، مجھے نماز پڑھادو‘‘۔ ہمیشہ نماز باجماعت پڑھنی پسند فرمائی۔ آپؓ یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمیشہ باوضو رہیں۔
آپؓ کی بیٹی محترمہ امۃالحئی صاحب کا بیان ہے کہ ایک مہینہ اور دس دن کی آخری بیماری میں پہلے پانچ دن مکمل بے ہوش رہنے کے بعد جب آپؓ ہوش میں آئے تو ظہر کا وقت تھا۔ محمد میاں کو آواز دی اور پوچھا کیا وقت ہے۔ جواب ملنے پر فرمایا کہ مجھے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھادو۔… وصال سے چار پانچ دن پہلے مکمل بیہوشی میں اچانک بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا مگر آنکھیں نہیں کھولیں۔
محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ 1945ء میں حضرت چودھری صاحبؓ اپنے چھوٹے بھائی محترم چودھری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت کراچی کو ٹانگ کے اپریشن کے لئے لندن لائے۔ جنگ کی وجہ سے ہسپتال بھرے ہوئے تھے چنانچہ کہیں داخلہ نہیں ملا۔ ایک روز خوشی سے بتایا کہ رات کو مایوسی کی حالت میں بڑی دعا کا موقع ملا۔ مَیں نے سن رکھا تھا کہ روہیمپٹن کے ایک ہسپتال میں اعضاء لگائے جاتے ہیں، بغیر واقفیت کے وہاں چلا گیا۔ سارا راستہ درودشریف پڑھتا رہا۔ انچارج ڈاکٹر سے کیفیت بیان کی اور علاج کی رپورٹ دکھائی۔ وہ رپورٹ پڑھ رہا تھا اور مَیں آنحضورﷺ پر درود بھیج رہا تھا۔ ڈاکٹر نے سر اٹھایا اور مشکل ہونے کے باوجود مریض کو داخل کرنے کی حامی بھرلی۔ مَیں کمرہ سے نکلا اور لان میں ہی سجدہ شکر بجالایا۔ … آپؓ کئی دفعہ خطبات میں بھی تلقین فرماتے تھے کہ انسان کام میں مصروف ہوتے ہوئے بھی زبان سے درود بھیج سکتا ہے لیکن اگر زبان کام میں مصروف ہو تو فارغ اوقات میں آنحضرتﷺ پر درود و سلام سے بڑھ کر کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں۔
ایک دفعہ آپؓ کے بھائی محترم چودھری شکراللہ خان صاحب ایک مقدمہ قتل میں ماخوذ ہوگئے۔ آپؓ اُن دنوں ملک سے باہر تھے۔ آپؓ کواس امید پر اطلاع دی گئی کہ کسی بڑے افسر کو اشارہ کریں گے تو مقدمہ سے خلاصی ہوجائے گی۔ بڑی انتظار کے بعد آپؓ کا خط آیا کہ شکراللہ خان مجھے بہت ہی پیارا ہے۔ مَیں اس کے لئے دعا ہی کرسکتا ہوں۔ اگر فی الواقع اس نے جرم کیا ہے تو میری محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کو سزا اسی دنیا میں ہی مل جائے، اس کی بخشش کا سامان ہوجائے۔ مَیں آخرت کے حساب کتاب اور سزا کے تصور سے بھی ڈرتا ہوں۔ آپ سب دعائیں کریں مَیں بھی کرتا رہوں گا۔… آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس مصیبت سے نجات مل گئی۔
مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب کا بیان ہے کہ شام کو بیڈروم میں جانے سے قبل آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ فجر کی نماز کا کیا وقت ہوگا اور نماز میرے کمرہ میں آکر پڑھیں گے یا مَیں آپ کے کمرہ میں آ جاؤں؟۔
ایک بار ملکہ مَیری نے آپؓ کو ذاتی مہمان کی حیثیت سے محل میں مدعو کیا۔ آپؓ کو بتایا گیا کہ ملکہ جب تک خود ملاقات کو ختم نہ کریں، آپ ان کی موجودگی میں اشارۃً بھی ملاقات کے اختتام کی کوشش نہیں کرسکتے۔ لیکن ملاقات اتنی لمبی ہوگئی کہ آپؓ کو ڈر ہوا کہ کہیں نماز عصر ضائع نہ ہوجائے۔ ملکہ فوراً سمجھ گئیں کہ آپکی طبیعت پر کوئی بوجھ ہے۔ انہوں نے دریافت کیا اور پھر فوراً کھڑی ہوگئیں اور حکم دیا کہ ظفراللہ خان کی نمازوں کے اوقات نوٹ کرلو اور اگر ملاقات کے دوران ان کی کسی نماز کا وقت ہوجائے تو مجھے بتادیا کرو۔
مکرم خان صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نوجوان نے دورانِ گفتگو کہا کہ فجر کی نماز یورپ میں اپنے وقت پر ادا کرنی بہت مشکل ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن آپ کی تربیت کیلئے یہ کہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے قریباً نصف صدی کا زمانہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر، مَیں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی۔
جو لوگ آپؓ کو دعا کیلئے کہتے اُن کیلئے نام بنام دعا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بروک ووڈ قبرستان گئے تو احمدی احباب کی قبروں پر دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ اس قبرستان میں سر فضل حسین کے صاحبزادے کی بھی قبر ہے جن کو وفات پائے چالیس سال ہونے کو ہیں، اس کے والد کے مجھ پر احسانات ہیں اسلئے مَیں روزانہ بالالتزام اس کیلئے دعا کرتا ہوں۔ قبر کا تعویذ بہت خستہ تھا۔ آپؓ نے قبرستان والوں کو قبر درست کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس کا سارا خرچ مَیں ادا کردوں گا۔
مکرم بشیر رفیق صاحب اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت چودھری صاحبؓ کو مَیں نے ہمیشہ نماز تہجد کا پابند پایا۔ نماز باجماعت کے لئے تیسری منزل پر واقع اپنے فلیٹ سے سیڑھیاں اتر کر تشریف لاتے۔ نماز جمعہ کے لئے اوّل وقت پر تشریف لاتے اور پہلی صف میں تشریف فرما ہوتے۔ روزانہ سیر کے دوران درودشریف اور تسبیحات کا ورد فرماتے اور اسی لئے سیر میں کسی کی معیت پسند نہیں فرماتے تھے۔آپؓ اپنے ایک بزرگ کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اُن کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں۔ قبولیت دعا کا راز دریافت کرنے پر اُن بزرگ نے بتایا کہ مَیں دعا کے لئے اندھیری کوٹھڑی میں چلا جاتا ہوں اور دروازہ بند کرکے اللہ میاں کو جپھی ڈال لیتا ہوں کہ جب تک میری دعا قبول نہیں کروگے، مَیں نہیں چھوڑوں گا۔
مکرم چودھری حمید نصراللہ خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات علالت کی وجہ سے رات کو نیند آور دوا کی بھاری مقدار آپؓ کو دی جاتی لیکن صبح کے وقت بہرصورت جاگ جاتے اور نماز باجماعت ادا کرتے۔ علالت اور دوائی دونوں کبھی نماز کی ادائیگی میں حارج نہیں ہوسکیں۔
آپؓ انتہائی دعا گو شخص تھے۔ ہر ایک شخص کا نام لے کر اس کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر دعا کرتے تھے۔ ایک دفعہ پوچھنے پر بتلایا کہ ایسے اشخاص کے نام دو سو سے تجاوز کرتے ہیں جن کیلئے مَیں روزانہ بلاناغہ ان کے نام لے کر ان کے مقصد کیلئے دعا کرتا ہوں۔
مکرم ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب نے ایک بار حضرت چودھری صاحبؓ سے پوچھا کہ اسلامی شریعت کے میدان میں آپؓ نے جو ورزش فرمائی اُس سے آپؓ کا باطن بھی سراسرنور بن چکا ہوگا۔ اس سے جزا سزا کے معاملہ میں آپ خوداعتمادی اور نفس مطمئنہ حاصل کرچکے ہوں گے۔ دورِ حاضر میں آپ دنیوی اعتبار سے افضل تر انسان ہیں اور دین کے معاملہ میں بھی ایک نہایت ممتاز شخصیت ہیں۔ اس پر حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ آپ نے میرے متعلق جو کہا ہے، مَیں اُس پر تبصرہ نہیں کرتا، میرا حال یہ ہے کہ ایک شعر نے تین راتیں مجھے بہت بُری طرح رلایا اور تڑپایا ہے، شکر ہے اُس وقت میرے قریب کوئی دوسرا شخص نہیں ہوتا تھا۔ وہ شعر ہے:
ہجر کی رات جاگنے والو!
کیا کرو گے اگر سحر نہ ہوئی
اصل بات اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ کسی انسان میں کتنی ہی صفات کیوں نہ ہوں مگر اللہ تعالیٰ اس کو منہ لگانا پسند نہ فرمائے تو وہ کیا کرسکتا ہے… اس کے سامنے انسان کی حیثیت ریت کے چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کے برابر بھی نہیں۔ پس اپنے آپ کو اللہ تعالی ٰکے سامنے ایسے ذرّے سے بھی حقیر سمجھو اور اُس کے حضور میں اپنی ناک اتنی رگڑو کہ صرف تمہارا شعور باقی رہ جائے جو تمہیں بتائے کہ تم بالکل مٹ چکے ہو۔
محترم شیخ عبدالقادر صاحب محقق بیان کرتے ہیں کہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں مَیں اس قدر بیمار ہوگیا کہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور علاج کے لئے لاہور بھجوایا گیا۔ ایک روز تہجد ادا کرکے سویا تو خواب میں کسی نے کہا کہ چودھری ظفراللہ کو دعا کیلئے کہو۔ چنانچہ میرے والد نے آپؓ کو خط لکھا۔ آپؓ نے جواب دیا کہ ’’من آنم کہ من دانم۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ مَیں کیا ہوں لیکن چونکہ عزیز نے خواب دیکھا ہے اس لئے مَیں انشاء اللہ اس کیلئے دعا کروں گا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعاؤں کو قبولیت بخشی اور مَیں صحت یاب ہوگیا۔
مشہور ادیب رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں: چودھری صاحب اُس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے عام طور پر گمراہ بلکہ کافر کہا جاتا ہے لیکن یہ گمراہ اور کافر شخص بغیر شرمائے ہوئے داڑھی رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے جلسوں میں علی الاعلان نماز پڑھتا ہے۔ جھمپیر کا ریلوے حادثہ جب رونما ہوا تو یہ شخص اپنے سیلون میں فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔
حضرت چودھری صاحبؓ نے اپنی زندگی کے آخری سال قرآن کریم، احادیث کی بیس جلدوں اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے تراجم کرنے میں صرف کردیئے۔ آپؓ کو ہزاروں حدیثیں ازبر یاد تھیں۔ آنحضورﷺ سے آپؓ کو مثالی عشق تھا۔ دہلی کا ایک مسلمان DSP جس نے آنحضورﷺ کی توہین کے معاملے میں مخالفین کا ساتھ دیا تھا اور انگریزوں سے بڑھ کر ہندوؤں اور سکھوں کی طرفداری کی تھی، اُس نے اُس وقت آپؓ کو سیلوٹ کیا جب آپؓ چین میں سفیر متعین ہوئے تھے اور دہلی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہورہے تھے۔ جب اُس کے تین بار سیلوٹ کرنے پر بھی آپؓ نے کوئی جواب نہ دیا تو ایک بڑی شخصیت نے آپؓ کو اُس کی طرف توجہ دلائی۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میرے آقاؐ کی توہین کرتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے، اسے شرم آنی چاہئے‘‘۔