حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ
حضرت چودھری ظفراللہ خانصاحبؓ کے چند منتخب واقعات (مرتبہ مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب) روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍مارچ، 19؍ اپریل و 24؍ اپریل 2000ء کی زینت ہیں۔
مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ کراچی میں معززین شہر کی ایک مجلس میں حضرت چودھری صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ جب مَیں نے وکالت شروع کی اور اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی تو بعض وکلاء اور دیگر معززین نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کے پاس استعداد موجود ہے کہ آپ بلند مقام حاصل کریں لیکن صرف ایک کمی ہے جو آپ کی ترقی میں روک بن سکتی ہے اور وہ ہے احمدیت، اگر آپ احمدی نہ ہوتے تو اعلیٰ مقام تک پہنچتے۔ مَیں نے کہا کہ اگر مجھ میں کوئی خوبی ہے تو وہ یہ ہے کہ مَیں احمدی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اگر مجھے کوئی مقام دینا ہے تو اسی خوبی کے طفیل ہی ملے گا۔ آج دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے احمدیت کے طفیل اور اپنے بزرگ امام کی دعاؤں کے طفیل دنیا کے بلند ترین مقام سے نوازا یعنی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا صدر جو کہ عدلیہ کا بلند ترین مقام ہے اور جنرل اسمبلی کا صدر جو کہ یواین او کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ یہ دونوں مقام اکٹھے آج تک کسی کو نہیں ملے۔ میری خواہش ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی یہ دونوں مقام کسی احمدی کو ہی ملیں گے۔
مکرم چودھری برکت علی ننگلی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر سٹیج کے دروازے پر داخل ہوتے ہوئے مجھ سے کارکن نے ٹکٹ طلب کیا جو مَیں نے دکھادیا۔ لیکن حضرت چودھری صاحبؓ نے جو مجھ سے پیچھے تھے، نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ آپؓ ٹکٹ گھر پر بھول آئے ہیں۔ اس پر آپؓ آگے بڑھنے کی بجائے فوراً چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے اور کسی کو دوڑایا کہ جاکر ٹکٹ لے آئے۔ اور جب تک ٹکٹ نہ آگیا، آپؓ اندر داخل نہ ہوئے۔
اپریل 1947ء میں میری حضرت چودھری صاحبؓ سے بھوپال میں ملاقات ہوئی۔ آپ اُس وقت بھوپال، بہاولپور اور حیدرآباد کی آزادی کے بعد کے مسائل میں قانونی مشورہ دینے کیلئے نواب بھوپال کے آئینی مشیر کے طور پر وہاں تشریف لے گئے تھے۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپؓ فیڈرل کورٹ کے جج بھی ہیں، ریاستوں کے آئینی مشیر بھی ہیں، دیگر مصروفیات بھی بے شمار ہیں، آپؓ یہ سارے کام اکیلے کس طرح کرلیتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں یہ سارے کام آرام سے کرتا ہوں اور کوئی ایک کام بھی متأثر نہیں ہوتا، یہی سوال مجھے لارڈ ولنگڈن نے بھی کیا تھا اور اُسے مَیں نے جواب دیا کہ تاکہ آپ کو بتایا جاسکے کہ ہندوستان کے لوگ مستقبل میں اپنے ملک کا کاروبار آسانی سے سنبھال سکتے ہیں۔
حضرت چودھری صاحبؓ کو اپنے والدین سے بہت محبت تھی۔ آپؓ نے اپنی کتاب میں اپنی والدہ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ’’جس آدمی کو ہم پسند کرتے ہیں اُس سے مہربانی کرنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ نیکی یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں سے مہربانی کا سلوک کریں جن کو ہم ناپسند کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح وہ فرمایا کرتی تھیں: ’’دوستی وہ ہے جو ہمیشہ قائم رہے، وقتی دوستی، دوستی نہیں ہوتی‘‘۔
مکرم میاں ابراہیم جمونی صاحب بیان کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد جب ہمارا سکول چنیوٹ میں جاری تھا تو وہاں کے ایک روایتی مخالف مولوی نے اپنے بیٹے کو کالج میں داخل کروانا چاہا لیکن غربت آڑے آئی تو اُس نے کئی وزراء، گورنر اور دیگر حکام کو رجسٹرڈ خطوط بھجوائے کہ وہ مدد کریں۔ لیکن کسی طرف سے مدد تو کجا، خط کی رسید بھی نہ آئی۔ ایک روز اُس نے حضرت چودھری صاحبؓ کی خدمت میں بھی خط بھیج دیا۔ جواباً آپؓ نے تین سو روپے کا چیک بھجوایا اور ماہانہ وظیفہ دینے کا وعدہ بھی کیا کہ جب تک اُس کا بیٹا زیرتعلیم رہے گا، یہ وظیفہ جاری رہے گا۔ چونکہ چیک امانت تحریک جدید ربوہ کا تھا اس لئے وہ مولوی اُسے کیش کروانے ربوہ آیا اور اس واقعہ کا کئی لوگوں سے ذکر کیا۔
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا بیان ہے کہ چودھری صاحب کی حاجتمندوں کے لئے فراخدلی قابل اعتراض حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے زندگی بھر کا اندوختہ رفاہی کاموں کے لئے وقف کردیا۔ مسجد فضل لندن سے ملحقہ فلیٹس اور محمود ہال تعمیر کروائے اور بقیہ قریباً پانچ لاکھ ڈالر سے ایک فاؤنڈیشن قائم کی جس سے ضرورت مندوں کو امداد ملتی ہے۔ اُن کی ہدایت پر سالانہ پنشن جو قریباً تیس ہزا رڈالر تھی، براہ راست اس فاؤنڈیشن میں جمع ہوجاتی تھی البتہ آپ اپنے ذاتی اخراجات کے لئے اس فاؤنڈیشن سے سات پاؤنڈ فی ہفتہ لیتے تھے اور سال میں ایک بار جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے پاکستان جانے کا اکانومی کلاس کا کرایہ بھی لیتے تھے۔ آپؓ نے ایک بار فرمایا: ’’مَیں جانتا ہوں کہ اللہ کی عنایت سے مَیں ایک اچھا ایڈووکیٹ ہوں لیکن ایک مقدمہ میں مَیں ہمیشہ ہار جاتا ہوں اور یہ وہ مقدمہ ہوتا ہے جس میں مَیں اپنی ذات کیلئے خود اپنی وکالت کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔
ریٹائرڈ ایئرمارشل ظفر چودھری صاحب کا بیان ہے کہ مسٹر گیسٹیٹنر (سٹیشنری بنانے والی) ایک مشہور فرم کے مالک تھے۔ انہوں نے ایک بار حضرت چودھری صاحبؓ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ مَیں بھی ساتھ تھا۔ میزبان نے ہمیں مطالعہ کے کمرے میں بٹھایا۔ حضرت چودھری صاحب نے یہودیت کی مختلف تحریکوں کے بارہ میں کتاب کو باری باری کھولنا شروع کیا۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ دیکھتے ، اپنا نام ’’ظفراللہ‘‘ تلاش کرتے، کتاب کا وہ صفحہ نکالتے اور وہ حصہ مجھے پڑھاتے۔ آپؓ نے مجھے یہودیوں کے چوٹی کے لیڈروں کی کئی کتابیں دکھائیں۔ اکثر کا مضمون یہ تھا کہ اگر کوئی ہمارا دشمن ایسا ہے جس سے ہمیں ڈرنا چاہئے تو وہ ظفراللہ ہے۔ ساتھ ہی آپؓ کی لیاقت اور قابلیت کی تعریف بھی کی گئی ہوتی۔
مکرم بشیر احمد رفیق صاحب لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کی اس بات پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ’’ظفراللہ خان کا دماغ خداوند کا زبردست انعام ہے‘‘ (ہفت روزہ ’’مسلم آواز‘‘ کراچی جون 1952ٰٰء)۔ حضرت چودھری صاحبؓ کو اپنے حلقۂ احباب میں سینکڑوں یا ہزاروں ٹیلیفون نمبر یاد تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؓ نے کسی جاننے والے کا ٹیلی فون نمبر کسی دوسرے سے پوچھا ہو۔
ایک سفر کے دوران حضرت چودھری صاحبؓ نے فارسی اور اردو کے اشعار سنانے شروع کئے اور عالم یہ تھا کہ ایک کے بعد دوسرا شعر روانی سے ادا ہورہا تھا۔ اس حد تک تو شاید لوگ کسی ہمسری کا دعویٰ کرسکیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ اگر ہم جس راستہ سے آئے ہیں، اسی راستہ سے واپس جائیں تو مَیں آپ کو یہ بھی بتاسکتا ہوں کہ مَیں نے کس جگہ اور کس موڑ پر آپ کو کونسا شعر سنایا تھا۔
جب آپؓ کی سوانح عمری کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا تو آپؓ نے مجھے ایک نسخہ دیکر میری رائے پوچھی۔ میری کیا بساط تھی کہ رائے دیتا تاہم عرض کیا کہ آپؓ نے یہ سارے واقعات جن میں سے بعض ساٹھ ستر سال پرانے ہیں، صرف یادداشت کے سہارے لکھے ہیں، ان میں جابجا معین تاریخیں، سن اور وقت بھی لکھا ہے۔ اگر کسی طرح پڑتال ہوجائے تو بہتر ہے۔ آپؓ نے فرمایا: نہیں! اس کی کوئی ضرورت نہیں، مجھے اپنی یادداشت پر پورا اعتماد ہے۔ مَیں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ اچھا ایک دو واقعات بطور ٹیسٹ نکالیں اور اُن کی پڑتال کریں۔ مَیں نے ایک مشہور شخص سے آپؓ کی ملاقات کے حصہ کو اس مقصد کے لئے چنا کیونکہ آپؓ نے یہ بھی لکھا تھا کہ اُس وقت بونداباندی ہورہی تھی۔ مَیں نے بڑی کوشش کرکے سالہاسال پرانے اخبارات کے فائل نکلوائے اور دیکھا تو حضرت چودھری صاحب کی ملاقات کی خبر بھی اخبار میں آئی تھی اور موسم کی خبر سے بونداباندی کی تصدیق بھی ہوگئی۔
حضرت چودھری صاحب ؓ نے بیان فرمایا کہ گول میز کانفرنسوں کے دنوں میں دوپہر کے کھانے کیلئے بڑا مختصر سا وقت ملتا اور ہندوستانی وفد کے ارکان اکثر دیر سے واپس آتے۔ ایک دن علامہ اقبال نے مجھ سے پوچھا کہ آپ بھی کھانا ہوٹل سے کھاتے ہیں اور ہم بھی، پھر آپ کس طرح بروقت کانفرنس ہال میں پہنچ جاتے ہیں۔ مَیں نے کہا کل میرے ساتھ چلے چلیں۔ چنانچہ اگلے دن وفد کے ارکان کو لے کر مَیں قریبی سیلف سروس ریستوران میں پہنچا اور وہاں قطار میں کھڑے ہوکر کھانا حاصل کیااور سب ممبران وقت پر کانفرنس ہال میں پہنچ گئے۔ اگلے روز جب میں نے وفد کے ارکان کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو اکثر نے کہا کہ ہم سے قطار میں کھڑے ہوکر کھانا نہیں حاصل کیا جاتا۔ مَیں نے کہا: ٹھیک ہے، پھر آپ کو وقت پر آنا بھی ممکن نہ ہوگا۔
ایک دفعہ فرمانے لگے کہ صوفیاء نے جو لکھا ہے کہ ’’روحانیت کے لئے کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا ضروری ہے تو مَیں کم کھانے اور کم سونے پر تو عمل کرتا ہوں البتہ کم بولنے پر ابھی عمل نہیں کرسکا‘‘۔ نیز فرمایا کرتے کہ جب چالیس سال کی عمر میں مجھے ذیابیطس کی تکلیف شروع ہوئی تو مَیں سوچا کرتا تھا کہ اگر میری عمر ساٹھ سال بھی ہوگئی تو بہت ہوگی۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے عمر میں اضافہ فرمادیا ہے تو یہ مہلت اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ اسّی پچاسی سال کی عمر میں بھی روزانہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے میز پر بیٹھ کر تصنیف کے کام میں مشغول رہتے تھے۔
محترم حافظ قدرت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت چودھری صاحب کو پابندی وقت کا بہت احساس تھا۔ ایک دفعہ فرمایا کہ زندگی میں میرا سیر کا وقت بھی بالکل معین ہوا کرتا تھا۔ اس حد تک کہ لوگ مجھے دیکھ کر بعض دفعہ اپنی گھڑیاں درست کرلیا کرتے تھے۔
مکرم عبدالمالک صاحب آف لاہور کا بیان ہے کہ مَیں نے ایک بار حضرت چودھری صاحبؓ سے پوچھا کہ انسان ترقی کس طرح کرسکتا ہے؟ فرمایا کہ اکثر انسان اس لئے ترقی نہیں کرتے کہ فلاں کام کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن اگر وہ ہر کام کرنے سے قبل سوچ لیں کہ اس کام سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے تو پھر دنیا کی بالکل پرواہ نہ کریں۔
مکرم چودھری حمید نصراللہ صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جب آپؓ قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کو دہرا رہے تھے تو آپؓ کے ساتھ بعض نوجوان اور آپؓ سے کم عمر دوست صبح سے شام تک کام کیا کرتے تھے۔ لیکن شام کو آپؓ تو ویسے ہی نظر آتے جبکہ دوسرے اکثر شدید تھکے ہوئے ہوتے۔ پھر بعض اوقات آپؓ کی مغرب کے بعد بھی کوئی مصروفیت ہوتی جس میں پوری طرح چاق و چوبند ہوکر حصہ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ خاکسار نے دریافت کیا کہ آپؓ اس قدر مشقّت کس طرح برداشت کرلیتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے جسم کو کبھی اجازت نہیں دی کہ میرے حکم کی نافرمانی کرے۔
حضرت چودھری صاحبؓ کے بھتیجے مکرم محمود نصراللہ صاحب کا بیان ہے کہ جب باباجی دفتری کام کرتے کرتے تھک جاتے تو فیصلہ کرتے کہ وہ پندرہ منٹ کیلئے سو جائیں۔ آپؓ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتے اور ٹھیک پندرہ منٹ بعد جاگ جاتے۔
جب آپؓ فیڈرل کورٹ کے جج تھے تو تھوڑی دیر کے لئے ہاتھ پر ٹھوڑی رکھ کر آنکھیں بند کرلیتے۔ ایک دفعہ ایک وکیل نے یہ دیکھ کر کہا کہ جج صاحب تو سو رہے ہیں، مَیں بحث کس کو سنا رہا ہوں۔ اس پر آپؓ نے سر اٹھایا اور وکیل صاحب کو مخاطب کرکے اُن کے بیان کردہ سارے پوائنٹس ترتیب سے دہرادیئے۔ اس پر وکیل صاحب نے معذرت چاہی۔
آپؓ فرمایا کرتے کہ مَیں کبھی اس بارہ میں سوچتا بھی نہیں کہ موت کوئی ڈرنے والی چیز ہے۔ محترم چودھری حمید نصراللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؓ نے اپنی وفات سے چار پانچ روز پہلے اپنی بیٹی کو قریب بلاکر فرمایا کہ ’’بیٹی تم نے اپنی پوری کوشش کرلی‘‘۔ امۃالحئی بولیں: ’’جی ابا! آپؓ کی حالت تو خراب ہورہی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’تو پھر اب کیا کرنا چاہئے‘‘۔ عرض کیا: ’’اللہ تعالیٰ کے حضور آپ بھی دعا کریں، مَیں بھی کرتی ہوں‘‘۔ فرمایا ’’دیکھو تمہارے بالوں کی ایک لٹ بھی بکھری ہوئی نہ ہو، تم جیسا لباس پہنتی ہو اگر اس سے بہتر نہیں تو ویسا ضرور پہننا، تمہاری آنکھوں سے آنسو گرتا کوئی نہ دیکھے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں تو اس کا اظہار بھی کرنا چاہئے‘‘۔ … مجھے یہی علم ہے کہ اکیلے میں ہی اُن کے آنسو نکلے، ہاں یہ علم ہے کہ بہت نکلے۔