حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2003ء میں مکرم ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مجھے ان کی زندگی کے آخری ایا م میں ان کی خدمت اور تیمارداری کی توفیق پانے کی سعاد ت حاصل ہے۔ وہ میری زندگی میں آ نے والی ان عظیم شخصیات میں سے تھے جن سے ملنا مَیں اپنے لئے ایک عظیم اعزاز تصوّر کرتا ہوں۔ ذاتی طور پر ان سے میری پہلی ملاقات 1968ء میں لاہور میں ہو ئی جہاں وہ طلبہ سے خطاب کر نے کے لئے تشریف لائے تھے۔ آپ نے تین نصائح فرمائیں۔ اول یہ کہ کامیابی کا دارومداراچھی صحت پر ہے۔ دوم یہ کے جو لیکچر کلاس میں کل ہونا ہے اس کے لئے آج ہی سے تیاری کر لی جائے اور جو سبق آج پڑھا ہے اس کی دہرائی بھی آج ہی ہو جائے۔ سوم یہ کہ جہاں تک ممکن ہو مختلف جگہوں کے سفرکئے جائیں کیونکہ نت نئی جگہوں کے سفر انسان کے ذوق وشوق کی تسکین کے لئے نت نئے مشاغل کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔
لیکن چوہدری صاحب کو فی الحقیقت قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع مجھے اس وقت ملا ۔جب آپ 1980ء میں مسجد فضل لندن سے ملحق عمارت میںرہائش پذیرتھے۔ ایک روز Low بلڈ پریشر کی علامات محسوس ہونے پر آپ نے مجھے یا د فرمایا۔ دراصل شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے آپ انسولین کا انجکشن با قاعدگی سے لگواتے۔ مجھے بتایا گیا کہ آپ گزشتہ پچاس برس سے انسولین کااستعمال کررہے تھے۔ اور ان کا استعمال آپ نے 1920ء کی دہائی میں امریکہ میں”Joslin Clinic”میں شروع کیا تھا۔
حضرت چودھری صاحب کی حس مزاح نہایت لطیف تھی۔ایک موقع پر میں آپ کے ساتھ ہسپتال گیا۔آپ اس وقت 87 برس کے تھے۔چال میں ایک وجاہت رکھنے والے اورقدرے تن کر چلنے والے لیکن دل کے اتنے ہی حلیم اور بردبار عاجزی کا پیکر۔ ہیڈنرس نے آپ کو دیکھتے ہوئے پو چھا کہ کیا چوہدری صا حب کو انگریزی آتی ہے۔مجھے اس کے سوال سے قدرے حیرانی ہوئی لیکن قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا چوہدری صاحب نے فرمایا ’’جی ہاں۔تھوڑی سی!‘‘۔ کچھ ٹیسٹ وغیرہ کئے گئے اور آپ کو ایک آرام دہ بستر پر لٹا دیا گیا۔ آپ نے کچھ عرصہ قبل ہی ایک کتاب ترجمہ کی تھی۔ چنانچہ بغرض پروف ریڈنگ وہ بھی سا تھ ہی لیتے آئے تھے۔ اگلے پانچ گھنٹے کے دوران آپ نے ضروری تصحیح کا کام مکمل فرمالیا۔ ہیڈ نرس جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، اُس سے رہا نہ گیا۔ اُس نے پوچھ ہی لیا کہ چو ہدری صاحب کس پیشے سے منسلک ہیں۔ اسے یہ جان کرخوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ ایک عظیم انسان کی معیت میں تھی جو کہ بھارت اور پاکستان میں چودہ سال متعدد اعلیٰ انتظامی عہدوں پر متمکن رہ چکا تھا اور 21؍برس تک قومی اور بین الاقوامی عدالتوں کے جج کے طور پر خدمات بجا لا چکا تھااور 3 سال تک سفیر کی حیثیت سے بھی خدمت کر چکا تھا۔
آپؓ کی یادداشت انتہائی حد تک عمدہ تھی۔ایک موقع پر جب میں نے ان سے درخواست کی کہ اگلی ملاقات نوٹ فرمالیں تو کہنے لگے میں نے کبھی ڈائری وغیرہ نہیں رکھی۔ درحقیقت آپ کو خداداد صلاحیت حاصل تھی کہ سالہا سال قبل گزرے واقعات نہایت درست طور پر وقت اور تاریخ کے ساتھ سنا دیا کر تے تھے۔
ایک دفعہ جب ان سے ملنے کے بعد لاہور سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہونے لگا۔ میں نے آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو فرمانے لگے کہ میں ہر روز تہجد کی نماز میں تقریباً 360آدمیوں کے نام لے کر فرداً فرداً ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔اور مجھے بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ میں بھی ان افراد کی لسٹ میں شامل تھا۔ دنیاوی لحاظ سے ایک عظیم المرتبت (لیکن بے لوث) انسان کے منہ سے یہ الفاظ سننا میرے جیسے کم مایہ شخص کے لئے انتہائی خوشی کا موجب ہوئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد قریباً 88 برس کی عمر میں آپؓ نے اپنی تمام پونجی بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے وقف کردی اور اسی سلسلہ میں ’’ساؤتھ فیلڈ ٹرسٹ‘‘ کے نام کا ایک ادارہ بھی قائم کیا جس کا مقصد ضرورت مند لوگوں کی عمومی مدد اور طلباء کی تعلیم میں مدد دینا ہے۔