حضرت چودھری محمد عبداللہ خانصاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍نومبر 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم عبدالمالک صاحب نے حضرت چودھری محمد عبداللہ خانصاحبؓ کے متعدد ایمان افروز واقعات رقم کئے ہیں۔
حضرت چودھری صاحبؓ جب روپڑ میں سرکاری نوکری پر متعین ہوکر آئے تو ایک ہوشیار غیراحمدی نے کسی احمدی سے اخبار الفضل لیا اور اُسے اپنی سامنے والی جیب میں ڈال کر آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ملازمت کی درخواست پیش کردی۔ انٹرویو کے دوران آپؓ نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی جیب میں کیا ہے تو اُس نے فوراً اخبار نکال کر دکھایا کہ یہ میرا اخبار ہے۔ آپؓ نے اخبار اپنے ہاتھ میں لیا، پتہ کی چِٹ دیکھی جس پر کسی اَور کا نام تھا، آپ مسکرائے اور اخبار اُسے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں صاحبزادے! آپ نے اخبار کا بوجھ اٹھانے کی ناحق تکلیف کی، اس کے بغیر بھی آپ آتے، آسامی خالی ہوتی اور آپ اس کے قابل ہوتے تو مَیں آپ کی مدد کرتا۔ آپ کل صبح سے فلاں جگہ ڈیوٹی پر حاضر ہوجائیں مگر یہ اخبار اُس کو واپس کردیں جس سے آپ نے لیا تھا۔
مکرم شیخ ذکاءاللہ صاحب کا بیان ہے کہ میری موجودگی میں ایک غریب آدمی آپؓ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ایک SDO کے پاس چپڑاسی کی آسامی خالی ہے، آپؓ میری سفارش کردیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو اُس افسر کو جانتا تک نہیں۔ اُس نے کہا کہ آپؓ کو تو سب جانتے ہیں۔ مَیں نے آپؓ سے کہا کہ آپؓ سفارش کردیں، اِس کا کام ہوگیا تو بہتر ورنہ آپؓ کی شان کونسی کم ہوجائے گی۔ اس پر آپؓ مسکرائے اور اُس شخص کو اپنی موٹر میں بٹھاکر سات آٹھ میل دُور اُس افسر کے پاس پہنچے۔ اُس نے آپؓ کو دیکھا تو بڑی اچھی طرح استقبال کیا اور کہا کہ آپؓ نے آنے کی تکلیف کیوں کی، مجھے کہا ہوتا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تو صرف ثواب حاصل کرنے کیلئے آیا ہوں ورنہ مَیں اِس شخص کو بالکل نہیں جانتا۔ چنانچہ اُس شخص کو ملازمت مل گئی۔ واپسی پر آپؓ نے مجھے فرمایا کہ مَیں اسی لئے احمدی بھائیوں کی صحبت اختیار کرتا ہوں کہ اس سے نیکی کی تحریک ہوتی ہے۔
قصور میں میونسپل کمیٹی کی رکنیت کے لئے ایک انتخاب ہوا۔ اپنی پسند کے امیدوار کے لئے آپ نے اپنے دفتر کے چپڑاسی سے اُس کے ووٹ مانگے جو پندرہ تھے۔ اُس نے انکار کیا بلکہ بدتمیزی بھی کی۔ بعد میں آپؓ کا مخالف امیدوار کامیاب ہوگیا اور اُس نے ایک جلوس نکالا جس میں اُس چپڑاسی نے آپؓ کو گالیاں دیں۔ آپؓ نے اُسے طلب کیااور اس بارہ میں دریافت کیا۔ اُس نے کہا کہ آپؓ کے پاس اختیار ہے، آپ چاہیں تو مجھے برطرف کرسکتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ تمہیں برطرف کرنا کہاں کی مردانگی ہے۔ مَیں تمہیں ترقی دے کر محرر بناتا ہوں۔ بعد میں وہ شخص آپؓ کا اتنا گرویدہ ہوگیا کہ جان نثار کرنے کو تیار رہتا۔
قصور کی میونسپل کمیٹی کی چونگی کا سپرنٹنڈنٹ جب ریٹائرڈ ہوا تو اُس نے اپنے احراری بیٹے کے کہنے پر آپؓ کو گالیوں سے بھرے ہوئے خط لکھنے شروع کردیئے۔ کچھ عرصہ بعد اُس کے بیٹے کی ملازمت کے لئے سفارش کی ضرورت پڑی تو وہ کئی جگہوں سے ہوتے ہوئے آخر آپؓ کے پاس آئے اور عاجزی سے سفارش کرنے کی درخواست کی۔ آپؓ نے اُنہیں اُن کے سلوک کے بارہ میں یاد تک نہ دلایا اور اُنہیں لے کر متعلقہ انگریز افسر کے پاس گئے۔ اُس کو اپنا تعارف کروایا اور پھر گالیوں سے بھرا ہوا اُس نوجوان کا خط اُس افسر کو دکھاکر فرمایا کہ مَیں اِس شخص کی سفارش کرنے آیا ہوں۔ افسر پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے فوراً آپؓ کی سفارش مان لی۔
تقسیم ہند سے پہلے ایک بار حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ جمشیدپور تشریف لائے جہاں حضرت چودھری صاحبؓ تعینات تھے۔ آپؓ کی درخواست پر حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے تپدق کی ایک خاص دوا تیار کی جس پر ایک ہزار روپیہ خرچ آیا اور پھر فرمایا کہ یہ دوا صرف مفت تقسیم کی جائے۔ آپؓ نے ایسا ہی کیا اور یہ ساری دوا غرباء کے علاج کے لئے مفت تقسیم کردی۔ اس مقصد کے لئے آپؓ نے اپنی کچھ جائیداد بھی فروخت کی اور رقم غرباء میں تقسیم کردی۔
ایک صبح ایک خاکروب آپؓ کی رہائشگاہ پر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اُسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا اور اگر وہ بحال نہ ہوا تو اُس کے بچے بلک بلک کر مر جائیں گے۔ آپؓ نے اُس کی کہانی سنی اور دفتر جانے سے پہلے موٹر میں اُسے بٹھاکر اُس کے افسر کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ مَیں آپ سے واقف نہیں، آپ کے دفتر میں فلاں خاکروب کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اُس کا قصور کیا ہے۔ اُس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اُس کے بچے فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے۔ حالانکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں تاہم مَیں انسانیت کے ناطے سفارش کرتا ہوں۔ اس پر اُس افسر نے خاکروب کی فوری بحالی کا حکم جاری کردیا۔