حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ کو 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ ہوشیارپور کے رہنے والے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد چوڑیاں کلاں ضلع سیالکوٹ میں آکر آباد ہو گئے اور یہیں 2؍مارچ 1951ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
حضرت خان صاحبؓ کی کوششوں سے نہ صرف آپ کے قریبی عزیزوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی توفیق پائی بلکہ ضلع ہوشیارپور کی بعض جماعتوں کا قیام بھی آپؓ کی دعوت الی اللہ سے عمل میں آیا۔
ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خط کے ذریعہ سے چندہ لنگر خانہ کی تحریک فرمائی۔ آپؓ نے اپنی کچھ اراضی فروخت کی اور دو سو روپیہ کی رقم ایک پوٹلی میں باندھ کر قادیان پیدل روانہ ہوئے۔ راستہ میں دریائے بیاس کو عبور کیا ہی تھا کہ شدید زلزلہ آیا۔ جب قادیان پہنچے تو سفر کی وجہ سے بہت خستہ حال تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ زلزلہ کی وجہ سے باغ میں قیام فرما تھے۔ باقی واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ 1911ء کے موقعہ پر اپنی ایک تقریر میں یوں فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ لنگر کا خرچ بڑھ جانے کی وجہ مَیں قرض لینے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دیدی اور پھر الگ ہو گیا۔ اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہو گی لیکن جب گھر آیا تو 200 روپیہ تھا۔ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا ہے پھر اس نے اپنے لئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں، یہ شاکر کا مقام ہے۔
حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ کا ذکر خیر محترم عبداللہ خان صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ اکتوبر 1996ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔