حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحبؓ (آف قلعہ کالروالا)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 اپریل 2009ء میں حضرت چوہدری عبد اللہ خان صاحبؓ آف قلعہ کالروالا سے متعلق ایک مضمون مکرم نوید احمد منگلا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحبؓ 1890ء میں قلعہ کالروالا (سابق قلعہ صوبہ سنگھ) میں پیدا ہوئے اور مڈل تک تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی پھر پٹوار کی تعلیم حاصل کرکے پٹواری بن گئے۔
آپ کی بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ 1901ء میں جب آپ نماز جمعہ پڑھنے مسجد گئے تو وہاں پر حضرت مولوی فضل کریم صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا اعلان فرمایا اس پر لوگ انہیں گالیاں دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور صرف عبداللہ خاں صاحبؓ وہاں موجود رہے جن کی عمر اُس وقت 11 سال تھی۔ اُسی روز آپ نے تحریری بیعت کرلی اور دستی بیعت کا شرف 1904ء میں قادیان جا کر حاصل کیا۔
آپ کا تعلق ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز ’’بھلی‘‘ خاندان سے تھا۔ آپ نہایت مخلص، دعا گو اور سلسلہ کے بزرگ فدائی احمدی تھے اور خلافت سے عشق کی حد تک محبت کرنے والے تھے۔ آپ اپنے علاقہ میں بہت اثر و رسوخ رکھتے تھے اور لوگ آپ پر اعتماد کرتے اور اپنے جھگڑوں کے فیصلے آپ سے کروایا کرتے تھے۔ آپ اپنے علاقہ کے سرپنچ بھی رہے اور کئی ممبر آپ کے ماتحت تھے جو لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ آپ نہایت روشن دماغ بزر گ تھے اور بہترین اردو بولتے تھے۔ چنانچہ لوگ آپ کو بابا اردو خان بھی کہتے تھے۔
حضرت چودھری صاحبؓ کوساری عمر جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ تاحیات اپنی جماعت کے صدر رہے۔ گھٹیالیاں کالج کی تعمیر آپ کے ذریعہ مکمل ہوئی۔ آپ کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا اور نہایت اچھی قسم کی گھوڑی اپنے پاس رکھتے تھے۔ اس وجہ سے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شفقت کے مورد بنتے رہے۔
آپ ایک ہر دلعزیز شخصیت اور نہایت دیانتدار انسان تھے۔ پٹواری ہونے کی وجہ سے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا چنانچہ تبلیغ خوب کرتے۔ خدمت خلق بھی بہت کی۔ اپنی اراضی دے کر ہسپتال اور ایک مویشی ہسپتال تعمیر کروایا۔ بہت سے یتیموں، رشتہ داروں اور غیروں کی پرورش کی اور کئی بیوائوں کی خبر گیری کرتے تھے۔ کئی رشتے کروائے اور ذاتی مدد دے کر ان کی شادیاں بھی کروائیں۔ آپ اپنے علاقہ کے بہترین سماجی کارکن تھے اور گاؤں میں ساری رات جلنے والی روشنی کا بھی انتظام کیا تھا۔
حضرت چودھری صاحبؓ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’وہ صحابی تھے اور بہت ہی فدائی اور عاشق انسان تھے زندگی کا اکثر حصہ وہی جماعت کے امیر رہے اور گھٹیالیاں کالج بنانے میں بھی انہوں نے بڑی محنت کی یہ اس دور کے لوگ ہیں جن میں پٹواریوں میں ولی پیدا ہونا بہت شاذ کی بات ہوا کرتی تھی لیکن حضرت مسیح موعودؑ کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ پٹوارخانوں سے اولیاء پیدا کر دئیے۔ ‘‘
آپ کو خداتعالیٰ نے چار بیٹیوں سے نوازا۔ جبکہ آپ کے چھ بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پا گئے لیکن آپ ایسے کامل الایمان اور متوکل تھے کہ انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا۔ ایک بار آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ سے عرض کیا کہ اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو اُسے دین کی خدمت کے لئے وقف کرتا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ آپ اپنی کسی بیٹی کی شادی واقف زندگی سے کردیں اس طرح آپ کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ چنانچہ آپؓ نے اپنی بیٹی فاطمہ بیگم صاحبہ کی شادی مکرم محمود احمد چیمہ صاحب مرحوم (سابق مبلغ انڈونیشیا) کے ساتھ کردی۔ فاطمہ بیگم صاحبہ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ ’’وہ ایک بہت ہی فدائی اور غیرمعمولی صابرہ واقف زندگی عورت تھیں ۔ خاوند نے وقف کیا شادی کے اکتالیس سال کے عرصے میں سے صرف گیارہ سال اکٹھے رہنا نصیب ہوا اور تیس سال جدا رہے۔ … اس کو وقف کہتے ہیں خاوند نے وقف کیا اور کامل وفا کے ساتھ بیوی نے اپنی زندگی کی ساری جوانی دین کے حضور پیش کردی سارے دکھ خود اٹھائے اور خاوند کو بے فکر کرکے دین میں چھوڑ دیا۔‘‘
حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ کو بھی طاعون کے زمانہ میں طاعون کا پھوڑا نکل آیا۔ اس پر لوگ آپ کو چارپائی پر گاؤں کے باہر چھوڑ آئے۔ پھر صبح یہ سوچ کر آپ کی طرف گئے کہ اب تک آپ مر چکے ہوں گے لیکن دیکھا کہ آپ زندہ سلامت تھے۔ آپؓ نے بتایا کہ رات کو میرے پاس حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھے تھپکی دی اور فرمایا ’’عبداللہ خاں تم طاعون سے نہیں مروگے‘‘۔ چنانچہ آپؓ کی ذات خداتعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ نشان تھی۔
آپؓ کا معمول تھا کہ رات سونے سے قبل اپنے کمرہ میں رکھے لکڑی کے بورڈ پر اگلے دن کا پروگرام لکھا کرتے تھے۔ وفات سے ایک روز قبل آپؓ نے وہاں لکھا کہ ’’11نومبر کو میں ربوہ جاؤں گا‘‘۔ چنانچہ 11نومبر 1972ء کو آپ کی وفات ہوئی اور اسی دن جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بعد ازاں آپ کو قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں