حضرت چوہدری علی محمد صاحبؓ (بی ٹی)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍جنوری 2010ء میں مکرمہ امۃالباسط صاحبہ نے اپنے والد حضرت چوہدری علی محمد صاحبؓ بی اے بی ٹی کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت چوہدری علی محمد صاحبؓ بی اے بی ٹی کے شاگردوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ بھی شامل ہیں۔ قادیان میں سب سے پہلے یعنی 1920ء میں آپؓ نے بی ٹی کی ڈگری حاصل کی تھی جس کی وجہ سے آپ بی ٹی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ آپ نے اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد 1913ء سے 1974ء تک خدمت کی توفیق پائی۔
حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ 1892ء میں لدھیانہ کے گاؤں ہٹھور میں پیدا ہوئے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ہم تین بھائی اور ایک بہن تھے۔ 1904ء میں ضلع لدھیانہ میں طاعون کا مرض شدت اختیار کر گیا تھا۔ مَیں اور چھوٹے بھائی حضرت عطاء محمد صاحبؓ یکے بعد دیگرے طاعون سے بیمار ہوئے تو ہماری والدہ صاحبہ نے’جو بالکل تندرست تھیں‘ بڑے الحاح سے دعا مانگی کہ اے اللہ! میرے بیٹوں کو تندرستی عطا فرما دے اور ان کے بجائے مجھے لے لے۔ یہ دعا قبول ہو گئی۔ وہ بیمار ہوکر اللہ کو پیاری ہو گئیں اور ہم دونوں بھائی خدا کے فضل سے صحتیاب ہو گئے۔
1905ء میں پرائمری پاس کرکے مَیں نے مڈل سکول جگراؤں میں داخلہ لیا۔ اگرچہ احمدیت کا چرچا ایک عرصہ سے ہورہا تھا مگر ہمیں قطعاً خبر نہ تھی۔ 1905ء میں جب بڑے بھائی صاحب چوہدری نعمت اللہ گوہر، ریاست پٹیالہ میں محکمہ بندوبست اراضی میں ملازم تھے ان کو بعض ایسے احباب سے ملنے کا شرف حاصل ہوا جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے واقف تھے اور احمدیت سے دلچسپی رکھتے تھے۔ یہاں ان کو بعض کتب احمدیت دیکھنے کا موقع ملا تو دل میں قادیان کو دیکھنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ 1906ء میں وہ اپنی اہلیہ صاحبہ کے ساتھ قادیان آئے اور زیارت سے فیضیاب ہوتے ہی دونوں میاں بیوی بیعت سے مشرف ہوئے۔ واپس آ کر انہوں نے ہم چھوٹے بھائیوں کو تبلیغ کی تو ہم دونوں نے بھی بیعت کا خط لکھ دیا۔ 23؍ اگست 1907ء کو دستی بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ اور اُسی روز مَیں نے قادیان میں ساتویں جماعت میں داخلہ لیا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہنے لگا۔ حضور علیہ السلام کی زیارت کا موقع ملنے لگا۔ کبھی کبھی سیر پر بھی ہمراہ چلا جاتا۔ حضورؑ کی وفات ہوئی تو خاکسار کو جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت بھی ملی۔ دل غم سے بھرا ہوا اورآنکھیں اشکبار تھیں۔
حضرت خلیفہ اولؓ کا درس قرآن سن کر مجھے بھی قرآن کریم سے خاص محبت ہو گئی اور آیتوں کی آیتیں یاد ہو گئیں۔ یہ مجھ پر حضورؓ کا احسان ہے جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک دن مجھے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ میاں! اپنے بڑے بھائی صاحب کو لکھ دو کہ مجھے خواب میں کوئی کہتا ہے کہ نعمت اللہ گوہر سے کہہ دو کہ اگر اس نے بی اے کا امتحا ن پاس کرنا ہے تو ایف اے کا امتحان دیدے۔ اس وقت تک بھائی صاحب ایف اے کا امتحان نہیں دے سکے تھے۔ چنانچہ میں نے بھائی صاحب کو خلیفہ اول کا خواب لکھ دیا۔ برادرم نے امتحان دیا اور پھر بی اے کاامتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔
مارچ 1911ء میں مَیںنے میٹرک کا امتحان دیا اور 24 لڑکوں کی جماعت میں اوّل آیا۔ ستمبر1911ء میں مَیں سینٹرل ٹریننگ کالج میں J.A.V کلاس میں داخل ہوگیا۔ جون 1913ء میں سینٹرل ٹریننگ کالج سے فارغ ہو کر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں 37 روپے 8آنے ماہوار پر ملازم ہو گیا۔ تدریس کے علاوہ سکول کی کھیلوں کی نگرانی 1915ء سے لے کر 1945ء تک میرے ذمّہ رہی۔ 1920ء میں تقریباً 6ماہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا پرائیویٹ سیکرٹری رہا۔
حضرت حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحبؓ امام مسجد کبوتراں والی (سیالکوٹ) نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ اُن کے پوچھنے پر حضرت خلیفہ اوّل نے اپنے قلم سے میرے اور ایک دوسرے لڑکے کے بارہ میں تحریر فرمایا: ’’دونوں لڑکے متقی معلوم ہوتے ہیں۔ خوش شکل ہیں۔ مجھے عزیز ہیں‘‘۔ چنانچہ 1913ء میں حضرت خلیفہ اولؓ نے ہمارے نکاح حضرت مولوی فیض الدین صاحبؓ کی صاحبزادیوں سے پڑھائے۔ 1915ء میں رخصتانہ عمل میں آیا۔
1915ء میں مَیں نے F.A اور 1918ء میں B.A کرلیا اور 1920ء میں بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ 1940ء میں مجھے جامعہ احمدیہ میں تبدیل کر دیا گیا اور وہاں سے نظارت امورعامہ میں تبدیلی ہوئی۔ 1946ء میں ریٹائر ہوا اور پھر جامعہ احمدیہ میں انگریزی کا استاد مقرر کر دیا گیا۔ 1947ء تک اس درسگاہ میں کام کیا۔ تقسیم ہند کے وقت مَیں ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ 1951ء میں رسالہ دوبارہ ربوہ سے جاری ہوا تو اس کے ادارتی بورڈ میں 1974ء تک کام کیا۔ کچھ عرصہ “جامعہ نصرت کالج ربوہ‘‘ میں بھی پڑھایا۔
اپریل 1932ء میں میری اہلیہ محترمہ میمونہ بیگم صاحبہ کی وفات ہوگئی جب ہمارے پانچ بچے تھے۔ جولائی 1932ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے میرا نکاح سیدہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے پڑھا۔ اس بیوی نے میرے پہلے پانچ بچوں کے ساتھ، اپنے بچوں جیسا سلوک کیا۔ خصوصاً چھوٹی بچی عزیزہ امۃ الحمید جو سات سال کی تھی، اس کو ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھا۔ چنانچہ دونوں بیویوں سے ہونے والے میرے دس بیٹوں اور 3 بیٹیوں میںجو باہمی محبت پائی جاتی ہے وہ مثال ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے ابّا کی ساری زندگی صبر و رضا ، قناعت اور اطاعت کا ایک مکمل نمونہ رہی۔ جن کی تمام کاوشوں اور جدوجہد کا دائرہ خدا اور اس کے دین پر محیط رہا۔ کبھی اس وسیع اراضی اور جائیداد کا ذکر نہ کیا جو وہ احمدیت کی خاطر چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے کبھی ان کی زبان سے سخت الفاظ ، گالی یا دوسروں کے لئے گلہ یا شکوہ نہیں سنا۔
1947ء میں ہجرت کرکے آپؓ کراچی پہنچے تو سندھ سیکرٹریٹ میں ملازمت مل گئی۔ پھر مکرم چوہدری شاہنواز صاحب، جن کے پاس کاروں کی ایجنسی تھی، انہوں نے آپ سے کہا ’’بی ٹی صاحب! آپ میرے شوروم کے آفس میں کام کریں‘‘۔ آپؓ نے فرمایا ’’جزاک اللہ ! شاہ نواز ! میں تمام عمر تعلیم کے شعبے میں کام کرتا رہا ہوں اور مجھے کاروں کی خرید و فروخت کا کوئی تجربہ نہیں۔‘‘ جس پر چوہدری صاحب نے اصرار سے فرمایا: ’’بی ٹی صاحب! کام کا تو بہانہ ہے۔ مجھے تو آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ۔ آپ دفتر میں تشریف فرما ہوں اور آفس کی عمومی نگرانی فرمائیں ‘‘۔ الغرض سندھ سیکرٹریٹ کی ملازمت چھوڑ کر آپؓ ’’شاہنواز لمیٹڈ‘‘ چلے آئے۔ صبح دفتر کی کار گھر سے لینے اور شام کو چھوڑنے آتی۔ تنخواہ میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ چوہدری صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور اپنے استاد سے عقیدت کی ایک تابناک مثال ہے۔ مگر والد صاحب کی اندرونی بے چینی ہنوز قائم تھی جو بچوں کی سمجھ سے بالا تھی۔ چند ماہ بعد حضرت مصلح موعودؓ کا آپؓ کے نام پیغام آیا کہ ’’بی ٹی صاحب! ربوہ معرض وجود میں آ چکا ہے۔ محمود یہاں ہو اور علی محمد وہاں (کراچی میں)‘‘۔ اس پیغام کے ملتے ہی چند گھنٹوں کے اندر ’علی محمد‘ مع اہل و عیال عازم ربوہ ہوا۔ کراچی کی تمام رونقیں، دیگر آسائشیں اور ملازمت اس کی راہ میں حائل نہ ہوئیں۔
آپؓ میں بہت سی خوبیاں تھیں مگر سادگی ان کی طبیعت کا ایک حصہ تھی۔ وہ اتنے سادہ ، صاف دل اور صاف طبیعت کے تھے کہ چالاکی، دنیاداری اور بناوٹ و ظاہرداری ان کے قریب بھی نہ پھٹکنے پاتی تھی۔ ان کی پاک صاف زبان، ان کے صاف دل کی پَر تو تھی۔ لباس کے معاملے میں بھی بے حد سادہ تھے۔ کہتے تھے کہ میں اپنی ذات کے لئے کچھ خواہش نہیں رکھتا صرف یہی خواہش ہے کہ میری تمام اولاد دیندار اور جماعت کی وفادار ہو۔
آپؓ کے شاگرد آپؓ کا بے حد احترام کرتے۔ ایک روز Pakistan Red Cross Society کے جنرل مینیجر افضل حسین صاحب لاہور سے کار میں آئے اور کہا کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میرے استاد محترم کا کیا حال ہے؟ ان کے پاس کوٹ بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ ایک بہت خوبصورت کوٹ انہوں نے آپؓ کو پیش کیا۔ دوران ملاقات وہ آپؓ کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھے۔
1974ء میں آپؓ کے انگلستان میں مقیم بچوں نے آپؓ کو کچھ عرصہ کے لئے وہاں بلانا چاہا۔ سِیٹ بُک ہوگئی لیکن آپؓ کچھ متذبذب تھے۔ چنانچہ استخارہ کیا تو خواب میں انہیں دکھایا گیا کہ جیسے وہ واہگہ بارڈر پر ہیں اور ایک سپاہی انہیں کہتا ہے:”You should not cross the border” ۔ اس پر آپؓ نے جانے سے انکار کردیا ۔
1977ء میں آپؓ کی کتاب “In The Company of the Promised Messiah” شائع ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔
وفات سے تین یا چار دن قبل مَیں نے آپؓ سے کہا کہ آپ کے کوٹ کی جیب میں جلسہ سالانہ 1978ء (جو کہ آپ کی زندگی کا آخری جلسہ تھا) کا سٹیج ٹکٹ ہے۔ مجھے کہا کہ اس کو سنبھال کر رکھو۔ یہ ریکارڈ رہے گا اور جب میرے حالات لکھے جائیں گے تو اس میں یہ آئے گا کہ صحابی حضرت مسیح موعودؑ ہونے کی وجہ سے مجھے ہر سال سٹیج ٹکٹ ملا کرتا تھا۔ یہ الفاظ بہت عاجزی سے اور اظہار تشکر کے طور پر کہے۔ میں نے غمزدہ اور رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ابّا! انشاء اللہ اگلے سال بھی آپ کو یہ ٹکٹ ضرور ملے گا ۔ مگر قدرت کو معلوم تھا کہ یہ آخری ٹکٹ ہے۔ نظر کی کمزوری، چلنے پھرنے میں دشواری اور وقتاً فوقتاً سر کے چکروں نے آپؓ کو نڈھال کر دیا تھا۔ اگرچہ اس کے باوجود ایک اور کتاب آپؓ لکھنا چاہتے تھے۔ مگر مشیت الٰہی غالب آ چکی تھی۔
وفات کے وقت جو بچے سرہانے کھڑے تھے انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’جنتیوں کو نوجوان خادم مہیا کئے جائیں گے‘‘۔ آپ کی زبان پر آخری الفاظ یہی تھے اور 14 جنوری 1979ء کی صبح پونے تین بجے آپؓ کی وفات ہوئی۔