حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ کی سیرۃ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جولائی 2007ء میں محترم ثاقب زیروی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ کی سیرۃ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
٭ ستمبر 1974ء میں جماعت احمدیہ کے متعلق آئین میں ترمیم کا اعلان ہوا تو دل چاہتا تھا کہ معاملہ گو مگو میں نہ رہے اور جماعت کے بنیادی عقائد اہل وطن کے سامنے جامع و مانع صورت میں آنے ضرور چاہئیں۔ مقالہ نگار کے بارہ میں دیر تک سوچنے کے بعد دھیان حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحبؓ کی طرف گیا۔ آپؓ نے میری تجویز کوپسند فرمایا اور فرمایا کل چار بجے آجائیے۔
ٹھیک چار بجے میں کاغذ قلم سنبھال کر اور حضرت چودھری صاحبؓ قرآن مجید اپنے سامنے رکھ لینے کے بعد املاء کے لئے لب کشا ہوئے اور فرمایا ’’اس مضمون کا عنوان ہوگا ’’ میرا دین!‘‘۔ جس کے بعد مسلسل ساڑھے چار گھنٹے تک ’’املاء‘‘ کا سلسلہ اس برجستگی اور نستعلیق پن کے ساتھ جاری رہا کہ آپؓ بہ دوران املاء نئے پیروں کے بارہ میں بھی ہدایت فرماتے رہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی ایسا مضمون لکھوارہے ہیں جو ان کے نوک برزبان ہے۔ نہ کوئی فقرہ دوبارہ لکھوایا نہ کسی ’’لفظ‘‘ کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ایک دفعہ بھی یہ دریافت فرمایا کہ پہلے کیا لکھا تھا۔ مضمون ابتداء میں جس رفتار سے لکھوانا شروع کیا تھا اس رفتار میں آخر تک ذرا جھول نہ آیا۔
رات گیارہ بجے کھانا کھاکر وہاں سے نکلا اور گھر پہنچتے ہی لکھنے بیٹھ گیا۔ نماز فجر سے آدھا گھنٹہ قبل مضمون مکمل ہوگیا اور اسی صبح حضرت چودھری صاحبؓ نے دستخط فرمادئیے۔ یہ مضمون ’’لاہور‘‘ کے اگلے شمارہ میں شائع ہوگیا جس کے بعد جماعتی جرائد نے اسے دہرایا اور بعض جماعتوں نے اس کے پمفلٹ بھی شائع کئے۔
٭ رسالہ ’’لاہور‘‘ میں ستمبر 1974ء تک احمدیوں پر توڑے جانے والے مظالم کا ’’روزنامچہ‘‘ شائع ہونے پر بھٹو حکومت نے پبلشر ’’لاہور‘‘ (اس عاجز) اور ’’لاہور‘‘ کے پرنٹر کے خلاف ’’ڈیفنس آف پاکستان رولز‘‘ کے تحت دو مقدمات رجسٹر کرا دئیے جن میں دونوں کو 24,24 سال کی سزا دی جاسکتی تھی۔ ہم نے ہائی کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے درخواست دائر کر دی مگر ہائی کورٹ کے پاس ایسے مقدمات میں ضمانت منظور کرنے کا اختیار باقی نہ رہا تھا۔ جج صاحبان ہر تاریخ پر ایڈووکیٹ جنرل سے ہمیں گرفتار نہ کئے جانے کی یقین دہانی حاصل کرکے ہمیں اگلی تاریخ دے دیتے۔ یہاں تک کہ ان کی مروت کا مزید امتحان لیتے رہنے کی بجائے ایک دن ہم نے اپنی درخواست واپس لے لی اور معاملہ اپنے رب پر چھوڑ دیا۔ اب مقدمات بھی قائم تھے اور گرفتاری بھی نہیں ہوئی تھی مگر اس کا خدشہ ہمہ وقت ہمرکاب رہتا تھا۔
11فروری 1977ء کی دوپہر تین چار پولیس افسر دفتر آئے اور بتایا کہ آج ہم ایک خصوصی بالائی حکم کے تحت آپ کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ ہولیا۔ منشی صاحب کو میں نے احمدی وکلاء کے چند نام لکھوا رکھے تھے کہ اگر اچانک ایسی افتاد آن پڑے تو ان میں سے جو بھی مل جائے اسے مطلع کر دیں۔ راستے میں جناب محمد شفیع کو بھی ساتھ لیا کیونکہ بطور پرنٹر وہ بھی میرے رفیق ملزم تھے۔ جب ہم تھانہ گجرسنگھ میں پہنچے تو احمدی وکلاء پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ SHO صاحب نے بتایا کہ چونکہ اس تھانہ میں کوئی حوالات نہیں ہے اور آپ کو سول لائنز کے تھانے بھجوایا جائے گا اس لئے گرفتاری مغرب کے بعد ڈالی جائے گی۔ لیکن مغرب کے وقت انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ آج کی رات اپنے اپنے گھر میں گزاریں اور کل صبح ساڑھے نو اور دس بجے کے درمیان خود ہی تھانے آجائیں۔
واپسی پر مَیں نے مکرم چوہدری حمید نصر اللہ خاں کو فون کیا تا کہ اگر ممکن ہو تو وہ خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعا کی درخواست کر دیں۔ لیکن حضرت چوہدری صاحبؓ نے فون اٹھالیا چنانچہ آپؓ ہی کو ساری رام کہانی سنا دی۔ پھر ساری رات ’’لاہور‘‘ کا اگلا شمارہ تیار کرنے میں گزرگئی۔ پرچے کی تکمیل کے بعد نوافل کے دوران اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے طمانیت عطا فرمادی اور میں نماز فجر کے بعد ایسا سویا کہ سواآٹھ بجے آنکھ کھلی۔ 9 بجے کے قریب محترم محمد شفیع صاحب بھی کار میں بستر اور دیگر سامان رکھ کر پہنچ گئے۔ لیکن میں نے اُن کے اصرار بے حد کے باوجود اپنے ساتھ ایسا کوئی سامان لے جانا اپنے ربّ پر بے اعتمادی کے مترادف سمجھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے اپنے وکیل بھائیوں کو تھانیدار صاحب کے پاس بھیجا کہ ہم آگئے ہیں۔ وہ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں مٹھائی کا ڈبہ اور ہونٹوں پر یہ خوشخبری تھی کہ گرفتاری نہیں ہوگی۔ انسپکٹر صاحب کو بھٹو صاحب کے سیاسی مشیر کا صبح فون آگیا تھا کہ گرفتار نہ کیا جائے۔
ساڑھے دس بجے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت چودھری صاحبؓ نے کئی بار پوچھوایا ہے کہ مَیں دفتر آگیا ہوں یا نہیں۔ پھر پیغام ملا کہ رات کا کھانا آپؓ کے ساتھ کھاؤں۔ آپؓ نے ڈرائیور اور کار بھی بھجوائی۔ جب کار بنگلہ کے سامنے پہنچی تو اس کی آواز سنتے ہی وہ سراپا شفقت و محبت انسان بنگلے سے باہر آگیا اور میرے کار سے اترتے ہی مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا ’’زندگی میں یہ دوسری بے چین رات تھی کہ میں اطمینان سے سو نہ سکا اور رات بھر اپنے ربّ سے یہی کہتا رہا مولا کریم! ثاقب نے صرف یہی تو کیا ہے کہ تیری جماعت پر توڑے جانے والے مظالم کی تفصیل چھاپ دی ہے دنیا والوں اور احمدیت کی آئندہ نسلوں کی آگہی کے لئے‘‘۔ میں نے دیکھا تو اس کریم النفس کی آنکھیں تشکر کے اشکوں سے لبریز تھیں۔