حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ
ما ہنا مہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر 2006ء میں حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ کی سیرۃ پر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کو 1902ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق ملی۔ آپ موضع آڑہ ضلع مونگھیر صوبہ بنگال(بھارت) کے رہنے والے تھے لیکن اپنی ملازمت کے سلسلہ میں راولپنڈی میں مقیم تھے اور یہیں سے بیعت کی توفیق پائی تھی۔ پہلی بار آپ نے حضرت اقدسؑ کا لیکھرام کے متعلق مباہلہ کا اشتہار پڑھا۔ جب لیکھرام قتل ہوگیا تو آپ کے دل نے گواہی دی کہ حضورعلیہ السلام سچے مہدی ہیں چنانچہ اخباروکتب قادیان سے منگوانے لگے اور دوسروں کو بھی سنانے لگے۔ بعض کمزوریوں کی وجہ سے بیعت سے ہچکچاتے تھے، آخر ایک احمدی سے ملاقات ہوئی جس نے کہا آپ بیعت کر لیں انشاء اللہ کمزوریاں دور ہوجائیں گی اسی لئے تو حضرت آئے ہیں۔ چنانچہ آپ اپنے بیٹے حضرت عبدالعزیز صاحب (جو اُس وقت پرائمری سکول کے طالبعلم تھے) کے ہمراہ قادیان تشریف لے گئے اور بیعت کرلی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور جماعتی ضروریات کو اپنی سعی کے مطابق پورا کرتے۔ اخبار البدر کی توسیع اور کالج فنڈ کے لئے دو سال تک ماہوار ایک آنہ دینے کے اعلانات اخبار میں شائع ہوتے رہے۔
جب آپ اسسٹنٹ سرجن کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تو راولپنڈی سے قادیان چلے آئے۔ وہاں آپ شفاخانہ دارالعلوم کے انچارج مقرر ہوئے اور وفات تک یہ خدمت بجالاتے رہے۔
18؍نومبر 1910ء کو بعد از نماز جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ گھوڑے سے گر پڑے اور آپ کی پیشانی پر شدید چوٹیں آئیں، حضور کی بیماری میں دیگر ڈاکٹران کے علاوہ حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ کو بھی عظیم خدمت کی توفیق ملی۔ جس کا ذکر متواتر اخبار بدر میں کیا جاتا رہا۔ آپؓ کی طرف سے حضورؓ کی صحت کی رپورٹ بھی شائع ہوئی اور حضورؓ کی طرف سے ایک بار یہ اظہار بھی شائع ہوا کہ ’’ان ایام میں ہمارے ڈاکٹروں نے میری بڑی خدمت کی۔ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب رات کو بھی دباتے رہتے۔ انھوں نے بہت ہی خدمت کی میرا رونگٹا رونگٹا ان کا احسان مند ہے…‘‘
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے جون 1909ء میں وصیت کرلی اور تیسرا حصہ جائیداد کا پیش کردیا۔ آپؓ کی وفات 9؍فروری1916ء کو بعارضہ نمونیا و فالج ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔
قیام خلافت ثانیہ کے وقت آپؓ خلافت کے حق میں نمایاں طور پر کھڑے ہوئے۔ اگرچہ مولوی محمد علی صاحب سے آپ کی رشتہ داری تھی اور گہرے تعلقات تھے لیکن آپؓ اُن سے بالکل الگ ہوگئے۔ آپؓ ایک صالح،غریب پرور، صاف گو اور نماز باجماعت کے نہایت پابند شخص تھے۔
آپؓ کی اہلیہ کا نام محترمہ فاطمہ سکینہ صاحبہ تھا جو یکم ستمبر 1915ء کو بعمر30سال قادیان میں فوت ہوئیں اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ آپؓ کی اولاد میں سے حضرت ملک عبدالعزیز صاحبؓ کے علاوہ حضرت بشیر احمد ملک صاحبؓ بھی صحابہ میں سے تھے۔ ایک محترم ڈاکٹر ملک محمد اسماعیل صاحب آف پٹنہ صوبہ بہار (بھارت) تھے جنہوں نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور 1923ء میں ہندو یونیورسٹی بنارس سے B.Sc میں اوّل آکر گورنمنٹ سکالرشپ پر مزید تعلیم کیلئے رائل ویڑنری کالج انگلستان میں داخلہ لیا۔ حضرت عبدالرحیم صاحب نیّر مبلغ انگلستان نے کئی تبلیغی رپورٹوں میں ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ انگلستان سے واپسی پر آپ انڈیا میں سرکاری ملازمت پر چلے گئے اور ایک لمبے عرصہ تک صوبہ بہار اور اڑیسہ کے Director Animal Husbandry رہے اور اسی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ 18جون1972ء کو پٹنہ میں وفات پائی۔
حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحبؓ کی ساری اولاد کی تفصیل محفوظ نہیں ہے تاہم اخبار بدر کے مطابق ایک بیٹی محترمہ جنت بی بی صاحبہ کا نکاح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے مکرم خلیل الرحمن ابن منشی عبدالرزاق صاحب بنارس چھاؤنی کے ساتھ پڑھا تھا۔