حضرت ڈاکٹر بوڑے خانصاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مارچ2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت ڈاکٹر بوڑے خانصاحبؓ آف قصور کا ذکرخیر شامل ہے۔
حضرت ڈاکٹر بوڑے خانصاحب اسٹنٹ سرجن نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات پڑھ کر قبولیت احمدیت کی توفیق پائی۔ حضرت عبد اللہ صاحبؓ (سابق دیوان چند) ولد چنت رائے گجرات بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص بوڑے خانصاحب کو ’’ازالہ اوہام‘‘ بغرض تبلیغ دے گیا۔ انہوں نے مجھ سے پڑھواکر سنی۔ پھر ’’جنگ مقدس‘‘ بھی مل گئی اور وہ بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو سنائی۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نے قریباً 1894ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ حضرت مسیح موعود کی بعض تحریرات میں آپ کا ذکر محفوظ ہے۔ حضورؑ نے اپنی کتب ’’سراج منیر‘‘، ’’تحفہ قیصریہ‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں درج تین مختلف فہرستوں میں آپ کا نام شامل فرمایا ہے۔ ’’انجام آتھم‘‘ میں مالی معاونت کرنے والے احباب میں آپ کا نام بھی شامل فرماتے ہوئے حضور نے فرمایا: ’’سب بدل و جان اس راہ میں مصروف ہیں‘‘۔14 ؍اکتوبر 1899ء کو حضورؑ نے اپنے ایک اشتہار من انصاری الی اللّہ میں اپنے بعض اصحاب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’…اور ایک مخلص دوست ہمارے ڈاکٹر بوڑے خان صاحب دنیا سے گزر گئے مگر جائے شکر ہے کہ چار اور مخلص ڈاکٹر… ہماری جماعت میں موجود ہیں…‘‘۔ حضورؑ نے آپؓ کا نام اپنے 313؍ اصحاب میں 160ویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔
حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکثر معزز اور مخلص مہمانوں کو رخصت کرنے کے لئے کچھ دُور ساتھ بھی جاتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب جو کہ ایک متقی احمدی تھے وہ جب آخری دفعہ قادیان گئے اور واپسی پر حضور سے رخصت ہونے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور اُن کے ساتھ ہو لئے۔ ڈاکٹر صاحب نے راستہ میں ایک دفعہ اصرار کیا کہ حضور اب واپس تشریف لے جائیں مگر حضور باتیں کرتے کرتے موڑ تک تشریف لے گئے۔ اس کے چند دن بعد اطلاع موصول ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب فوت ہوگئے ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نے جولائی 1899ء میں وفات پائی، وفات سے قبل حضور کو بذریعہ الہام آپؓ کی وفات کی خبر بھی دی گئی تھی چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنی پوری ہونے والی پیشگوئیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’24 نشان ۔ 30 جون 1899ء میں مجھے یہ الہام ہوا پہلے بیہوشی۔ پھر غشی۔ پھرموت۔ ساتھ ہی اس کے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا۔ چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم 30 جون 1899ء میں درج ہو کر شائع کیا گیا۔ پھر آخر جولائی 1899ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن ایک ناگہانی موت سے قصور میں گزر گئے۔ اوّل بیہوش رہے، پھر یک دفعہ غشی طاری ہوگئی، پھر اس ناپائدار دُنیا سے کوچ کیا اور ان کی موت اور اس الہام میں صرف بیس بائیس دن کا فرق تھا۔‘‘
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے آپؓ کی وفات پر لکھا: ڈاکٹر صاحب بڑے مخلص اور بے ریا آدمی تھے۔ تھوڑے دنوں میں کہ حضرت اقدس کی شناخت انہیں نصیب ہوئی انہوں نے اتباع سنت نبوی میں نمایاں ترقی کی۔ اس سلسلہ عالیہ کی بدولت وہ اسلام کی حقیقت سے واقف ہوئے اس سے قبل ان کی زندگی اسلام سے پوری بے خبری میں بسر ہوئی مگر چند روز میں خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا اور خلیفۃ اللہ کے عشق میں جان و مال سے انہوں نے ایسے ثبوت دیئے کہ میرا دلی یقین ہے کہ ان بہتوں سے ان کی میزان اعمال زیادہ ثقیل ہوگی جو ایک عمر دراز تک بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اور بلا کسی اسوۂ حسنہ کے اقتداء کے مرجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے جمعہ کے بعد ان کا جنازہ پڑھا اور بہت دیر تک ان کی مغفرت کے لئے دعا مانگی، کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ جو امام ہمام کے سامنے مرنے اور اس پاک اعتقاد پر اٹھائے جاتے ہیں اور پھر خلیفۃ اللہ ان پر صلوٰۃ پڑتا ہے وہ یقینا فردوس کے وارث ہوں گے…‘‘
حضرت مصلح موعودؓنے 29ستمبر 1933ء کے خطبہ جمعہ میں تعلق باللہ وشفقت الی اللہ کی لطیف تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہماری جماعت کے ایک نہایت ہی مخلص دوست ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب تھے، حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر آتا ہے، ایک دفعہ ان کے پاس ایک مریض آیا انہوں نے اس کا آپریشن کیا وہ بیمار تو شاید اچھا ہوگیا مگر اس کے زہر کی وجہ سے ان کا دوسرے دن انتقال ہوگیا۔ ان کی جلد پر کچھ خراش تھی جس سے وہ زہر سرایت کر گیا اور وفات پاگئے، پس ڈاکٹر، کمپونڈر اور منتظم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور یہ ان کا احسان ہوتا ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ اپنی مجلس میں اپنے ایک رفیق حضرت مولوی غلام علی صاحب رہتاسی یکے از 313 کی بیماری کی تار آنے پر فرمایا: ’’ہماری جماعت جو اب تک ایک لاکھ تک پہنچی ہے سب آپس میں بھائی ہیں اس لئے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو۔ جو گزر گئے وہ بھی بڑے مخلص تھے جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں، سید خصیلت علی شاہ، ایوب بیگ، منشی جلال الدین، خدا ان سب پر رحم کرے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں