حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍جون 1998ء میں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپؓ کے بارہ میں ایک مضمون ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 12؍جنوری 1996ء کے شمارہ میں بھی ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔ اس لئے ذیل میں محض وہ امور پیش ہیں جو سابقہ مضمون سے اضافہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے زمانہ طالبعلمی میں ہی قبولِ احمدیت کی توفیق پائی۔ اگرچہ آپکی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی لیکن آپکے والد محترم نے کبھی ایسا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ 1897ء میں جب آپؓ کے والد کی وفات ہوئی اور حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں دعا کیلئے لکھا تو آپ کو وہی الہام ہوا جو حضرت اقدسؑ کے والد ماجد کی وفات کے وقت ہوا تھا۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کا حضرت اقدسؑ سے ایک خاص محبت کا تعلق تھا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کے ارادوں، عزائم اور ضروریات پر ڈاکٹر صاحبؓ کو بعض اوقات صدہا نہیں ہزاروں کوس کے فاصلے پر علم ہو جاتا تھا جس کا حضرت صاحب نے اپنی بعض چٹھیوں میں ذکر فرمایا ہے۔ … بہت کم لوگ اس امر سے واقف ہیں کہ حضورؑ ڈاکٹر صاحبؓ سے بعض راز کی باتیں کر لیتے تھے جو دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھیں۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب حضرت صاحب کی ایک تحریک ڈاکٹر صاحبؓ کو پہنچی تو اتفاقاً اسی روز ان کو تنخواہ تقریباً 450 روپے ملی تھی جو انہوں نے اسی وقت آپؑ کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے بھی رکھ لیتے۔ تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس لئے رکھ سکتا ہوں!۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے۔ ان میں اہلیت اور زیرکی بہت ہے اور میں نے دیکھا ہے ان میں نور فراست بھی ہے‘‘۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ لاہور اور آگرہ میں میڈیکل کالج کے پروفیسر رہنے کے علاوہ انبالہ، رڑکی، رامپور، چکراتہ، لکھنؤ اور دہلی میں بطور سرجن اور اسسٹنٹ سرجن متعیّن رہے۔ ملازمت ختم کرنے کے بعد دہلی میں مستقل رہائش اور پریکٹس کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ارشاد پر اپنا ارادہ ترک کرکے مستقل قادیان تشریف لے آئے اور زندگی وقف کردی۔ چنانچہ نور ہسپتال قادیان کے انچارج کے علاوہ بھی کئی خدمات آپؓ کے سپرد ہوئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ کا ممبر مقرر فرمایا تھا۔ پھر آپؓ ٹرسٹی، جنرل سیکرٹری اور محاسب صدر انجمن احمدیہ بھی رہے۔ سیکرٹری مجلس معتمدین اور جلسہ سالانہ 1911ء کے موقع پر افسر لنگر خانہ بھی رہے۔ نیز افسر جائیداد، سیکرٹری تعمیر کمیٹی مینارۃ المسیح اور ناظر اعلیٰ کے عہدہ جلیلہ پر کام کرنے کی سعادت بھی پائی۔
معالج کی حیثیت سے آپؓ بہت فرض شناس اور ہمدردیٔ خلق سے مالا مال تھے۔ ایک مرتبہ آدھی رات کو ایک مریضہ کو دوا دینے گئے، حالت تشویشناک تھی، آپؓ نے دوا دی اور مریضہ کی خبرگیری کیلئے ایک گھنٹہ بعد دوبارہ دروازہ پر دستک دی۔ مریضہ کے خاوند نے حیرانی سے پوچھا کہ اتنی دور سے ایسی سردی اور رات میں دوبارہ تشریف لائے ہیں؟۔ آپؓ نے فرمایا نہیں میں تو باہر جانوروں کے چارہ ڈالنے والی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔
یکم جولائی 1926ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ 2 جولائی کو حضورؓ نے نمازہ جنازہ پڑھائی، نعش کو کندھا دیا اور پھر بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔