حضرت ڈاکٹر عطرالدین صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مئی 2004ء میں حضرت ڈاکٹر عطرالدین صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم سہیل احمد ثاقب بسرا صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
حضرت ڈاکٹر عطرالدین صاحبؓ قصبہ چھمال ضلع گورداسپور میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے بڑے بھائی منشی گوہر علی کے ساتھ رہتے تھے چونکہ وہ مدرس تھے اس لئے جہاں ان کی تعیناتی ہوتی، آپ بھی ساتھ ہی چلے جاتے۔ پرائمری آپ نے تلونڈی داباں والی میں کی اور بعد ازاں امرتسر شہر میں پڑھتے رہے۔ 1906ء میں آپ وٹرنری کالج لاہور میں داخل ہوئے جہاں سے 1910ء میں تعلیم مکمل کی اور پھر ملازمت کے سلسلہ میں مختلف مقامات پر متعین رہے۔ بمبئی میں تین سال صدر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ تحریک شدھی میں تین ماہ کا عرصہ اعلاء کلمہ حق کے لئے پیش کیا۔ آپؑ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے جنازہ کے ساتھ لاہور سے قادیان جانے کا موقعہ بھی ملا۔ 1947ء حفاظت مرکز کے لئے خود کو پیش کیا۔ اور 26 سال تک اپنا عہد درویشی خوش اسلوبی سے نبھا کر 14؍دسمبر 1974ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ خاص صحابہؓ میں دفن کئے گئے۔
آپ کے قبول احمدیت کا واقعہ یوں ہے کہ 1898ء میں جب حضرت مسیح موعود ؑامرتسر سے ریل گاڑی میں گزرے تو آپ بھی زیارت کے لئے اسٹیشن پر گئے۔ حضورؑ کے لئے سیکنڈ کلاس کا ڈبہ ریزرو تھا اور حضورؑ اس میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپؑ نے سرخ رنگ کی لوئی اوڑھی ہوئی تھی اور خواجہ کمال الدین صاحب حضورؑ کے سرہانے بیٹھے تھے۔ جب آپ نے کھڑکی سے جھانکا تو خواجہ صاحب نے کہا پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن حضورؑ نے فرمایا: اس کو مت روکو، یہ خدا کے حکم سے آیا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضور کا نورانی چہرہ دیکھا اور گاڑی کی روانگی تک وہیں کھڑے زیارت کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک خواب دیکھا جس میں احمدیت کی طرف آپ کی راہنمائی کی گئی۔ پھر ایک مجذوب امرتسر آیا جس سے ملنے کے لئے آپ بھی گئے۔ اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: ’’جس نے ولی بننا ہے وہ قادیان جائے‘‘۔ چنانچہ آپ نے 1899ء میں بیعت کا خط لکھ دیا اور 1900ء میں قادیان حاضر ہو کر دستی بیعت کا شرف بھی حاصل کرلیا۔