حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خانصاحب گوڑیانیؓ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جون 2005ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت ڈاکٹر محمداسماعیل خان صاحب گوڑیانیؓ کے حالات زندگی شامل اشاعت ہیں۔
حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانی تحصیل جھجر ضلع رہتک کے رہنے والے تھے۔ پیدائش تقریباً 1852ء میں ہوئی۔ آپؓ ایک قابل ڈاکٹر تھے۔ جب آپ کڑیانوالہ ڈسپنسری متصل لالہ موسیٰ میں اسسٹنٹ سرجن تھے تو وہاں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ ملی۔ اس کے مطالعہ کے دوران آپ کو خیال آیا کہ میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں تو پھر ظاہری بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ اسی حالت میں آپ سوگئے تو خواب میں حضورؑ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ نماز کے بعد حضورؑ نے آپ کی بیعت لی اور آپ کے اندر سے کئی بت نکال کر انہیں تلوار سے قتل کرتے ہوئے ہر بار فرمایا کہ یہ تکبر ، شرک، رسم و رواج وغیرہ کے بت تھے۔ جب یہ خواب آپ نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں تحریر کیا تو حضورؑ نے جواباً فرمایا کہ آپ کی بیعت روحانی طور پر تو ہوگئی کسی وقت ظاہری بیعت سے بھی آکر مشرف ہوجائیں۔ چنانچہ آپؓ قادیان جا کر دستی بیعت سے بھی مشرف ہوگئے۔
1896ء میں حضرت ڈاکٹر صاحبؓ ملازمت کے سلسلہ میں افریقہ بھیج دیے گئے اور قریباً تین سال بعد 1898ء میں واپس ہندوستان تشریف لائے۔ افریقہ میں آپؓ نے تبلیغ کی طرف بہت توجہ دی۔ آپؓ کے دو تین فوجی ڈاکٹر ساتھی بھی آپؓ کی تبلیغ سے احمدی ہوگئے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کو فوجی خدمات پرمختلف جگہوں پر جانا پڑتا تھا اس طرح قریباً مشرقی افریقہ کی کل بندرگاہوں پر آپؓ تبلیغ کرتے رہے۔ بعض لوگ خواب کے ذریعہ بھی احمدی ہوئے۔ آپؓ نے کئی لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا۔
1898ء میں حضرت ڈاکٹر صاحب واپس ہندوستان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لائے۔ اس دور میں حضرت مسیح موعودؑ کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ چل رہا تھا۔ اس مقدمے کے ایام میں حضرت ڈاکٹر صاحب نے ایک خاص خدمت کی یوں توفیق پائی کہ آپؓ ایک استفتاء لے کر مختلف علماء کے پاس گئے جو دراصل مولوی صاحب کے بارہ میں تھا کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ کو خوش کرنے اور زمینیں حاصل کرنے کے لئے جو ایک رسالہ انگریزی میں شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ مسلمانوں میں جو مہدی کے آنے کا عقیدہ ہے اس کے لئے کوئی صحیح سند نہیں ہے اور اس طرح مہدی کے آنے کے عقیدہ کا انکار کیا تھا۔ دہلی اور امرتسر کے بڑے بڑے علماء نے یہ سوچ کر کہ یہ استفتاء مرزا صاحب کے متعلق ہے بڑی خوشی سے یہ فتویٰ لکھ دیا کہ مہدی کے آنے کے عقیدہ کا منکر کافر ہے۔ جب یہ فتویٰ شائع ہوکر مولوی محمد حسین صاحب کی تحریروں پر چسپاں ہوا تو مولوی محمد حسین اُن علماء سے ملا۔ تب اُن میں سے بعض وہابی علماء نے یہ شائع کیا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر اسماعیل جو استفتاء لے کر آیا تھا، مرزا صاحب کا مرید تھا اور ہم نے جو فتویٰ دیا تھا وہ مرزا صاحب کے خلاف دیا تھا مولوی محمد حسین صاحب کے خلاف نہیں دیا تھا۔ علمائے اہل حدیث کی اس حرکت پر لوگ بہت متعجب ہوئے لیکن حنفی علماء نے شائع کیا کہ ہم لوگ اپنے فتوے پر قائم ہیں خواہ وہ مولوی محمد حسین پر پڑے یا کسی دوسرے پر۔
افریقہ سے واپس آکر آپ گوڑگاؤں میں بطور ہاسپٹل اسسٹنٹ متعین ہوئے لیکن 1898-99ء میں ضلع گورداسپور ہوشیار پور میں طاعون پھیلنے کی وجہ سے یہاں بلا لئے گئے۔ پھر چار پانچ مہینے بعد گڑھ شنکر ضلع ہوشیار پور میں ہاسپٹل اسسٹنٹ مقرر ہوئے۔ اسی دوران آپؓ کی شادی احمدالنساء بیگم صاحبہ بنت حضرت قاضی خواجہ علی صاحبؓ ٹھیکہ دار شکرم لودھیانہ کے ساتھ 10؍اکتوبر 1901ء کو ہوئی۔ (آپ کی اولاد کا زیادہ علم نہیں ہوسکا۔ ایک بیٹی عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد شریف صاحب کی وفات 6؍جون 1927ء کو ہوئی)۔ گڑھ شنکر کے بعد آپ مادھوپور میں رہے جہاں سے جنوری 1904ء میں پلیگ ڈیوٹی پر بمقام گورداسپور تبدیل کئے گئے۔ ان ایام میں مقدمہ کرم دین شروع تھا۔ جب ڈاکٹر صاحبؓ یہ خبر لے کر قادیان میں حضورؑ سے ملے تو حضرت اقدسؑ بڑے خوش ہوئے۔ فرمایا: اچھا ہوا ڈاکٹر صاحب آپ آگئے۔ اور فرمایا کہ ہمیں وہاں قیام کے لئے بڑی وقت ہوتی ہے اس لئے آپ وہاں ایک بڑا سا مکان کرایہ پر لے لیں جس کا کرایہ ہم ادا کیا کریں گے اور آپ وہاں قیام کریں، ہم جب پیشی کے لئے آیا کریں گے تو وہاں اُترا کریں گے۔ اس حکم کی تعمیل میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے گورداسپور میں تالاب کے نزدیک ایک وسیع مکان پندرہ روپے ماہوار کرائے پر لے لیا جس میں حضرت اقدس بمعہ احباب اترا کرتے تھے۔
قادیان میں آپؓ کو کئی صحابہؓ کے علاج معالجے کا موقع ملا۔ حضرت مرزا مبارک احمد بیمار ہوئے تو آپ بھی معالج ٹیم میں شامل تھے۔ 1905ء میں آپؓ دہلی میں متعین ہوئے۔
آپؓ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک عجیب محبت تھی اور حضورؑ کی خیرو عافیت کا آپ کو ہر لمحہ فکر تھا۔ خصوصاً مقدمہ کرم دین کے دوران آپؓ کی اس محبت کا خصوصیت سے اظہار ہوا۔ حضورؑ کے لئے آپ کے دل میں اس جوش و محبت کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو بھی حضورؑ کی شفقتوں اور محبتوں کا مورد بنایا تھا۔ ایک مرتبہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؓ کو فرمایا کہ: ڈاکٹر صاحب! ہمارے دو قسم کے دوست ہیں ایک وہ جن کے ساتھ ہم کو حجاب نہیں اور دوسرے وہ جن کو ہم سے حجاب ہے اس سے ان کے دل کا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے اور ہم کو ان سے حجاب رہتا ہے۔ جن لوگوں سے ہم کو کوئی حجاب نہیں ہے ان میں ایک آپ بھی ہیں‘‘۔ آپؓ حضورؑ کی خدمت میں آموں کا تحفہ بھی بھجوایا کرتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی روایت ہے کہ مجھے سالن کھانے کا بہت شوق تھا۔ حضرت اپنی طشتری سے بوٹیاں اور سالن نکال کر میرے آگے رکھتے۔ اس طرح کئی دن گزر گئے۔ ایک دن کھانے کے وقت حضور نے فرمایا کہ ’’ایک بزرگ تھے ا ن کے پاس جب کوئی بیعت کے لئے جاتا تو وہ پہلے اسے دو روٹیاں اور ایک چمچہ دال کا دیتے یا اگر کسی سے دال بچ جاتی اور روٹی ختم ہوجاتی یا کسی سے روٹی بچ جاتی اور دال ختم ہوجاتی تو اس کی بیعت نہ لیتے اور فرماتے کہ جو شخص دو روٹی اور ایک چمچہ کا آپس میں نبھا نہیں کرسکا وہ ہمارے ساتھ کیا نبھا کر سکے گا‘‘۔ جب حضور نے یہ قصہ سنا یا تو میں نے سمجھا کہ حضور نے میری تربیت کے لئے بتایا ہے اس روز سے آج تک میری یہ کیفیت ہے کہ بعض وقت صرف ایک بوٹی سے روٹی کھالیتا ہوں اور بعض اوقات اس میں سے بھی کچھ حصہ بچ جاتا ہے۔
1905ء میں آپؓ گورداسپور سے تبدیل ہوکر دہلی چلے گئے۔ اکتوبر 1905ء میں حضورعلیہ السلام دہلی تشریف لے گئے تو آپؓ بھی رات گئے تک حضورؑ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے۔
25جولائی 1906ء کو دہلی میں مولوی عبد الحق صاحب سے حضرت میر قاسم علی احمدی صاحب کا مباحثہ ہوا حضرت میر صاحب نے حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب کو میر مجلس مقرر فرمایا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور تادم مرگ اس تعلق بیعت کو نبھایا۔ آپ سب اسسٹنٹ سرجن کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد قادیان میں رہائش اختیار کر لی اور یہاں بھی اپنی ڈاکٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ ممبر مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان بھی مقرر ہوئے۔
9؍جون 1921ء کو قادیان میں 65برس کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی وفات والے روز صبح کے وقت حضرت مصلح موعودؓ جب آپؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو فرمایا کہ آج صبح میں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ڈاکٹر صاحب کے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں نے ان کو اپنے مکان میں 16مرلہ زمین دی ہے۔