حضرت یونس امرے علیہ الرحمۃ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2000ء میں ترک صوفی شاعر حضرت یونس امرےؒ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت یونس امرےؒ کے حالات زندگی پر یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ خیال ہے کہ آپؒ 1238ء میں پیدا ہوئے اور 1320ء میں وفات پائی۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ آپ ’’صارے قوئے‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے جس کا موجودہ نام ’’صاری قارامان قوئے‘‘ ہے۔ آپؒ ایک غریب آدمی تھے اور گاؤں میں مزارع کی حیثیت سے رہائش پذیر تھے، ہل چلاکر گزراوقات کیا کرتے تھے۔ امرے کے معانی ہیں دوست، محبوب اور عاشق۔ یعنی فاعلی اور مفعولی دونوں حالتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔
مشہور ہے کہ آپؒ کے زمانہ میں شدید قحط پڑا۔ قحط سے مضطرب ہوکر آپؒ ایک درویش حاجی بکطاشؒ کے پاس پہنچے۔ رقم پاس نہیں تھی اور درویش کے پاس خالی ہاتھ بھی نہیں جانا چاہتے تھے اس لئے جنگل سے کچھ پھل توڑ لئے۔ حاجی بکطاشؒ نے پوچھا کہ تم گندم لینا چاہتے ہو یا ہمت۔ یہ سوال تین دفعہ پوچھا۔ آپؒ نے کہا: گندم۔ چنانچہ آپؓ کو ایک بوری گندم دیدی گئی۔ جب آپؒ واپس روانہ ہوئے تو آپؒ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دوبارہ حاضر ہوکر اظہار ندامت کیا اور ہمت طلب کی۔ حاجی بکطاشؒ نے فرمایا کہ اب تمہاری خواش ’’طاپدوق امرے‘‘ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پوری ہوگی۔ چنانچہ آپؒ طاپدوق امرےؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کرکے مریدوں میں شامل ہوگئے۔ چالیس سال تک اپنے شیخ طریقت کی خدمت کی۔ اسی دوران آپؒ کی شادی بھی طاپدوق امرےؒ کی بیٹی سے ہوگئی۔ بعد ازاں آپؒ واپس اپنے گاؤں لوَٹے اور کچھ عرصہ بعد وہیں وفات پائی۔
آپؒ کا کلام دو کتابوں پر مشتمل ہے۔ ایک کتاب نصائح پر مشتمل ہے جس میں قریباً ساٹھ نظمیں ہیں۔ دوسری کتاب میں بعض ایسے شعراء کا کلام بھی شامل ہوگیا ہے جن کا نام بھی یونس تھا۔ محققین نے آپؒ کی نظموں کی تعداد 330 بتائی ہے۔ آپؒ کو ترک تصوف کے بڑے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آپؒ کے کسی سکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا علم نہیں ہوتا لیکن اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صاحب علم تھے۔ آپؒ کے اشعار میں عربی اور فارسی ترکیبیں اور قرآن کریم کی آیات کے حوالے بکثرت موجود ہیں۔ حضرت سعدی شیرازیؒ کی بعض نظموں کا منظوم ترجمہ بھی آپؒ کے کلام کا حصہ ہے۔ اسی طرح متعدد صوفیاء کا ذکر ہے۔ آپ تفسیر، حدیث اور دیگر اسلامی علوم سے بھی واقف نظر آتے ہیں۔ آپؒ نے حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کی بھی زیارت کی۔ آپؒ کے کلام میں زندگی، موت، فقیری، غنا، فنا، کائنات، توحید، اخلاص، عبادت، رضائے باری، جنت اور جہنم کی نہایت صوفیانہ تشریح ہے۔
آپؒ کا ایک شعر ہے: تیرا عشق ایک وسیع سمندر ہے اور مَیں ایک چھوٹی سی مچھلی کی مانند ہوں، مچھلی پانی سے نکل آئے تو وہ فوراً مر جاتی ہے۔
آپؒ نے اُس عبادت کی سخت مذمت کی ہے جو کسی منفعت پر مبنی ہو۔ آپؓ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں جنت کو ترجیح دینے کے خلاف ہیں۔ اہل سنّت ہوتے ہوئے آپؒ نے اہل بیت کی بھی تعریف کی ہے۔ آپؒ ایک وسیع النظر صوفی شاعر ہیں۔
حضرت یونس امرےؒ کے مدفن کا یقینی علم نہیں ہے۔ متعدد مزاروں کے بارہ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آپؒ وہاں مدفون ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ آپ صارے قوئے میں دفن ہیں۔
حضرت یونس امرےؒ یقینا ولی اللہ اور عاشق خدا، رسول و قرآن تھے۔ آپ کے سینکڑوں سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپؒ کا کلام آج ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر کرنے کا انتظام کردیا۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں ’’اردو کلاس‘‘ میں بچیوں نے حضرت یونس امرےؒ کا ترک زبان میں صوفیانہ کلام پیش کیا۔ یہ پروگرام جس کی تیاری واقف زندگی ترک احمدی بہن محترمہ امینہ چقماق ساہی صاحبہ نے کروائی تھی، پوری دنیا میں ایم ٹی اے کے ناظرین کی طرف سے بہت پسند کیا گیا اور اس کا اظہار بعد ازاں حضور انور نے بھی ایم ٹی اے کے ایک پروگرام میں فرمایا۔