حضر ت میاں عبدالکریم صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21جون 2012ء میں مکرم منور احمد خورشید صاحب نے اپنے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت میاں عبدالکریم صاحب کی پیدائش محترم علی احمد صاحب کے ہاں 1880ء کے قریب فتح پور ضلع گجرات میں ہوئی۔ پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی اور کچھ عرصہ قریبی گاؤں کے سکول میں معلّم بھی رہے۔ اسی لئے منشی یا میاں صاحب کے طور پر مشہور ہوگئے۔
آپ بچپن سے ہی نہایت نیک طبع اور سعید فطرت کے حامل تھے۔ ایک صاحبِ رؤیا و کشوف ولی اللہ بزرگ حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب آپ کے ہمسایہ میں رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے آسمان پر کچھ مخصوص ستاروں کی حرکات و سکنات کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ نشان ظہور مہدی کی علامات میں سے ہے۔ پھر ایک دن جب وہ کسی کام کی غرض سے قریبی قصبہ جلال پور جٹاں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بازار میں ایک آدمی کو بڑی بے رحمی سے زدو کوب کررہے ہیں۔ آپ کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ شخص کہتا پھرتا ہے کہ امام مہدی آگیا ہے۔آپ نے کہا کہ اس بے چارے کو کیوں مارتے ہو،اگر مارنا ہے تو اُسے جاکر مارو جس نے دعویٰ کیا ہے۔
پھر حضرت شاہ صاحب اُس شخص کو قریبی ہوٹل پر لائے اور لسّی پیش کی۔ پھر پوچھا کہ یہ امام مہدی والا کیا قصہ ہے۔ وہ شخص احمدی تھا۔ اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ تو پہلے سے ہی اس نورکی تلاش میں سر گرداں تھے۔ چنانچہ واپس آکر اپنے چند مریدوں کو بغرض تحقیق قادیان بھجوادیا جو فتح پور ضلع گجرات سے پاپیادہ قادیان گئے۔ انہوں نے واپس آکر اپنی سمجھ کے مطابق حالات و واقعات بیان کئے تو کچھ عرصہ بعد شاہ صاحب نے خود قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف پایا اور 313 خوش نصیب صحابہ میں شامل ہوگئے۔ قادیان سے واپس آکر آپؓ نے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کیا تو مولویوں کی شدید مخالفت سے خائف ہوکر اکثر پیروکاروں نے آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ تاہم جن چند دوستوں نے احمدیت قبول کرلی اُن میں حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ بھی شامل تھے۔
1903ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کے گاؤں سے چالیس میل کے فاصلہ پر واقع شہر جہلم تشریف لائے تو آپؓ نے دستی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ احمدیت سے برگشتہ کرنے کے لئے آپؓ کو پہلے سمجھایا گیا اور پھر ہر قسم کی سختی روا رکھی گئی تاہم آپؓ ثابت قدم رہے۔ آپؓ اپنی جماعت میں امام الصلوٰۃ رہے اور عرصہ دراز تک سیکرٹری مال کے طور پر بھی خدمت کی سعادت حاصل کی۔
ایک دفعہ آپؓ کی زمینوں پر ایک مخالف نے اپنے جانور چھوڑ دیئے۔ آپؓ کے پوچھنے پر وہ مخالف کہنے لگا کہ مرزائی کافر ہیں اور اُن کی فصلیں تباہ کرنا کارثواب ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر تمہارے دین کی یہی تعلیم ہے تو پھر میں تمہیں اس سے منع نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کر آپؓ چلے گئے تو اُس شخص نے نادم ہوکر نہ صرف اپنے مویشی آپؓ کے کھیتوں سے نکال لئے اور آپؓ سے معافی مانگی بلکہ عمربھر آپؓ کا احترام بھی کیا۔ نیز اُس کے سب بچوں نے حضر ت میاں صاحبؓ سے ہی دینی تعلیم حاصل کی۔
حضرت میاں صاحبؓ کی پہلی بیٹی چند ماہ کی عمر میں وفات پاگئی تو احمدی احباب نے بچی کو مقامی قبرستان میں دفنادیا لیکن رات کو مخالفین نے قبر اکھاڑ کر نعش کو قبر سے باہر پھینک دیا۔ احباب جماعت اکٹھے ہوئے اور دوبارہ تدفین کردی مگر اس مکروہ فعل کو دہرایا گیا۔ اس پر قریبی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ وہاں سے ایک سکھ پولیس آفیسر نے موقع پر آکر حالات کا جائزہ لیا اور شرپسندوں کو سخت سزا دینے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد احمدیوں نے تیسری بار اس بچی کو سپر دخاک کیا۔
حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نہایت متّقی اور تہجدگزار تھے۔ غیراحمدی بھی آپؓ کا بہت احترام کرتے اور ایمانداری، تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں آپؓ کی مثال دیا کرتے تھے۔ آپؓ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ جب اپنے جانور باہر لے جاتے تو اُن کے منہ باندھ لیتے تاکہ راہ چلتے وہ کسی کی فصل پر منہ نہ ماریں۔
حضرت سید محمود احمد شاہ صاحبؓ کی زندگی میں اُن کے ہاں روایتی طور پر تعلیم القرآن کا فیض جاری تھا۔ اُن کی وفات کے بعد یہ سلسلہ حضرت میاں صاحبؓ کے ہاں منتقل ہو گیا اور آپؓ کی وفات کے بعد آپؓ کی بہو (راقم الحروف کی والدہ) محترمہ عنایت بیگم صاحبہ کی نگرانی میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ قریباً ایک صدی میں ہزاروں بچوں نے بلاتفریق مذہب و عقائد قرآن پاک اور بنیادی دینی تعلیم اسی درسگاہ میں حاصل کی۔