حکیم جالینوس
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اکتوبر 2005ء میں چار سو رسالوں کے مصنف اور ماہر طبیب حکیم جالینوس کے بارہ میں مکرم شکیل احمد ناصر صاحب کا مرسلہ مضمون شائع ہوا ہے جو عظیم سائنسدانوں کے بارہ میں اردو سائنس بورڈ کی کتاب سے ماخوذ ہے۔
جالینوس 130ء میں ایشیائے کو چک میں روفی صوبے کے دارالخلافہ پر گامون میں پیدا ہوا۔ یہ شہر مجسمہ سازی کی درسگاہ کے لئے بہت مشہور تھا اور اس کی لائبریری اسکندریہ کی لائبریری کے ہم پلّہ سمجھی جاتی تھی، جالینوس کا باپ نائکن (Nicon) ایک دولتمند کسان تھا اور ریاضی، فلسفہ اور طبیعی علوم میں اچھا تعلیم یافتہ تھا۔ اُس نے جالینوس کو چودہ سال کی عمر میں پرگامون کے بہترین اساتذہ کے پاس تعلیم کے لئے بھیج دیا۔ جالینوس نے علم الحیات میں جو پہلا سبق ارسطو کی تصنیفات کے مطالعہ سے حاصل کیا، وہ یہی تھا کہ علم الحیات کے حصول کے لئے فطرت کا براہ راست مشاہدہ لازمی ہے۔ سترہ سال کی عمر میں اُس نے بقراط کے مشہور پیروسٹائرس سے طب اور علم الابدان پڑھنا شروع کر دیا۔ باپ کی وفات کے بعد وہ اسکندریہ چلاگیا جہاں سے اس نے طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 27برس کی عمر میں وہ دوبارہ پرگامون واپس آگیا۔
پرگامون میں پیشہ ور جنگجوؤں کے سالانہ مقابلے ہوا کرتے تھے۔ یہ پیشہ ور جنگجو غلام یا جنگی قیدی ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت اور قابلیت کی وجہ سے بہت قیمتی املاک تصور ہوتے تھے۔ زخمی جنگجوؤں کی دیکھ بھال کے لئے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت ہوتی تھی تا کہ وہ زندہ رہیں اور دوبارہ لڑ سکیں۔ چنانچہ جالینوس سے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی درخواست کی گئی جو جالینوس نے قبول کرلی۔ یہ مقابلے بڑے وحشیانہ ہوتے تھے اور ان کے نتیجے میں سرپھٹ جاتے تھے، ہڈیاں ٹوٹ جاتی تھیں، بازو اور شانے کے پرخچے اڑ جاتے تھے اور پیٹ چاک ہوجاتے تھے۔ ان زخموں کی شفایابی میں جالینوس کی کامیابی حیرت انگیز تھی۔
پھر جالینوس سلطنت روما کے دارالخلافہ چلا گیا۔ یہاں مختلف ڈاکٹروں کا اژدھام تھا جنہوں نے نہ صرف جالینوس کا استقبال انتہائی سرد مہری سے کیا بلکہ اس کو بدنام بھی کیا۔ چنانچہ جالینوس تنہائی کا شکار ہوگیا کیونکہ اس کے پاس کوئی مریض مشورہ کے لئے نہیں آتا تھا۔ اس صورت حال سے تنگ آکر وہ روم کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے ہی والا تھا کہ رومی قونصل فلیویس (FLAVIUS) کی بیوی بیمار ہوگئی۔ جب روم کے بہترین ڈاکٹر ناکام ہوگئے تو فلیویس نے بحالت مجبوری جالینوس کو بلایا۔ جالینوس کے علاج سے وہ بہت جلد صحت یاب ہوگئی تو فلیویس نے سرعام جالینوس کی طبی مہارت کی تعریف کی اور اس کو علم الاعضاء میں تحقیق کے لئے ایک لیبارٹری قائم کرنے کے لئے مناسب رقم دی۔ اس لیبارٹری میں ہر قسم کے جانوروں یعنی سؤر، بھیڑیوں، بلیوں، کتوں، گھوڑوں اور حتی کہ ببر شیروں تک کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھار جالینوس بن مانسوں کی چیر پھاڑ کیا کرتا تھاکیونکہ اس کے خیال میں ان کے بدن کی ساخت بالکل انسانی جسم کی ساخت جیسی تھی۔
168ء کے موسم سرما میں شہنشاہ مارکس اوریلیس اپنی فوجوں کے ساتھ شمالی اٹلی میں تھا کہ اُس کے بہت سے بہترین افسر تشویشناک طور پر بیمار ہوگئے۔ جب فوج کے معالج علاج نہ کرسکے تو جالینوس کو پرگامون سے بلایا گیا، جہاں اس وقت وہ رہائش پذیر تھا۔ جالینوس بادشاہ کی توقعات پر پورا اُترا۔
جالینوس علم افعال الاعضاء (Phsiology)کا پہلا ماہر تھا۔ علم الاعصاب اور علم العضلات میں اس کے درست تصورات بعد میں اِن علوم کی بھی بنیاد بنے۔ اُس نے اپنی تحقیق کے نتیجہ میں علم الحرکات (Kinesiology) پر دنیا کا پہلا رسالہ بھی شائع کیا۔ اس نے پہلی مرتبہ جسم کے بہت سے عضلات کے فعل کی نشاندہی اور وضاحت کی۔ جدید انسانی علم الاعضاء کی کتابوں میں ابھی بھی بہت سے ایسے نام استعمال کئے جاتے ہیں جو جالینوس نے خاص عضلات کے لئے استعمال کئے تھے۔ اُس نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ ہر عضلہ کا صرف ایک کام ہوتا ہے یعنی سکڑنا۔ اور یہ کہ عضلات ہمیشہ مخالف جوڑوں یاگروہوں کی شکل میں حرکت کرتے ہیں۔ جسم میں عضلا ت کا منبع ڈھونڈتے ہوئے اُس نے یہ مشاہدہ کیا کہ جن فوجیوں کی کھوپڑی ٹوٹ جاتی ہے یا جن کی ریڑھ کی ہڈی میں نیزے سے سوراخ ہوجاتا تھا وہ مکمل یا جزوی طور پر مفلوج ہوجاتے تھے۔ چنانچہ جالینوس کو یقین تھا کہ فالج کا تعلق دماغ یا حرام مغز کی چوٹ سے تھا۔ لیکن اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لئے اُس نے بہت سے ایسے تجربات کئے جو اُس زمانہ کے لحاظ سے حیرت انگیز ہیں۔ اس نے کچھ تجرباتی جانور لے کر ان کی ریڑھ کی ہڈی کو گردن میں پہلے دو مہروں سے لے کر نیچے پشت تک کاٹا۔ ہر جانور پر یہ عمل کرکے اس کے بارے میں بڑی محتاط یادداشتیں تیار کی گئیں۔ پہلے دو مہروں کو کاٹنے سے نظام تنفس منقطع ہوگیا اور جانور دم گھٹ کر مرگیا۔ چھٹے اور ساتویں مہرے کے درمیان سے ریڑھ کی ہڈی قطع کرنے سے نہ صرف سینے کے عضلات اور آگے کی ٹانگیں بلکہ جسم کا نچلہ حصہ بھی مفلوج ہوگیا۔ بہرحال جب ریڑھ کی ہڈی کے آخری دو مہروں کو کاٹا گیا تو صرف ان سے نیچے کے حصے مفلوج ہوئے۔ آگے کی ٹانگیں اور دماغ اور کٹے ہوئے مقام کے درمیان کا بالائی جسم محفوظ رہا۔ جالینوس نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جسم کے مختلف حصوں کی حرکت کو ایک مرکزی نظام اعصاب کنٹرول کرتا ہے اور وہ طاقت جو عضلات کو سکیڑتی ہے یقینا دماغ میں ہے۔ جالینوس نے نچلے دھڑکے فالج کو بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب حرام مغز کے صرف نصف حصے کو کاٹا جائے تو جسم کا صرف نصف حصہ ہی مفلوج ہوتا ہے۔ جالینوس نے معلوم کیا کہ حرام مغز کے خلیے ایک دفعہ کی چوٹ کے بعد کبھی صحت یاب نہیں ہوتے نہ ان کی جگہ دوسرے خلیے بنتے ہیں اور ایسا فالج جو گردن کے ٹوٹنے سے ہو وہ دائمی ہوتا ہے کیونکہ اس میں حرام مغز بھی مکمل طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔
جالینوس نے تقریباً چار سو 400 رسالے تصنیف کئے۔ لیکن جالینوس کا علم الاعضاء اس لئے بھی محدود تھا کہ اُس وقت انسان کے مردہ جسم کی چیرپھاڑ قانوناً ممنوع تھی۔ 192ء میں روم میں آگ لگ گئی جس سے اسقلپوس کا مندر تباہ ہوگیا جس کا ایک حصہ طبی لائبریری کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جالینوس کی بیشتر تصنیفات اس آتشزدگی میں تباہ ہوگئیں۔ اس کے بہت سے رسالوں کی کوئی اور نقل نہیں تھی اس لئے نقصان ناقابل تلافی تھا۔ یہ المیہ جالینوس کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس نے واپس اپنے وطن پرگامون جانے کا فیصلہ کیا۔ وہیں وہ 199ء میں تقریباً 69 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔