حکیم مومن خان مومنؔ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍دسمبر 1999ء میں پروفیسر راجہ نصراللہ خان صاحب کے قلم سے حکیم مومن خان مومن کی سیرت و سوانح اور شاعری پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مومن خان 1800ء میں دہلی کے کوچہ چیلاں میں پیدا ہوئے۔ حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ نے نام رکھا اور کان میں اذان کہی۔ والد حکیم غلام علی خان شاہی طبیب تھے اور علم و ادب میں بھی ممتاز تھے۔ مومنؔ نے تعلیم مذہبی ماحول میں حضرت شاہ عبدالعزیز کے مدرسہ میں اور حضرت شاہ عبدالقادر سے حاصل کی۔ مومنؔ نے حفظ قرآن کے علاوہ عربی، فارسی اور علم دین سیکھا اور اپنے والد سے علم طب پڑھا۔ علم نجوم و ہیئت میں بھی کمال حاصل کیا۔ مومنؔ دراز قامت، سرخ و سفید سبزی مائل رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور بہت خوش پوش آدمی تھے۔ ترنم کے ساتھ پڑھتے تو سامعین وجد میں آجاتے۔ شاعری مشغلہ تھا، مال کی ہوس نہ تھی کہ درباروں کے چکر لگاتے۔ نہایت وضعدار شخص تھے۔ اصول کے پکے اور اخلاص کے سچے تھے۔ اگر کپڑے کا کوئی تاجر دلّی آتا تو مومنؔ کے ہاں ضرور جاتا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اگر کوئی چیز پسند آگئی تو پھر قیمت کی بحث نہ ہوگی۔
ایک بار مہاراجہ کپورتھلہ نے 350 روپے پر مومنؔ کو اپنا مصاحب مقرر کیا اور ایک ہزار روپیہ بھی انہیں زاد راہ کے طور پر بھیجا۔ مہاراجہ کے ایلچی سے باتوں باتوں میں جب مومنؔ کو یہ معلوم ہوا کہ مہاراجہ کا گوّیا بھی اسی قدر مشاہرہ پاتا ہے تو آپ نے مہاراجہ کا مصاحب بننا گوارا نہ کیا۔
مومنؔ نے کبھی حصول زر کے لئے شاعری نہیں کی۔ زندگی بھر نو قصیدے لکھے جن میں سے سات حمدونعت اور منقبت ہیں جبکہ دو ایسے افراد کیلئے لکھے جن کیلئے اظہار تشکر مقصود تھا۔
مومنؔ 1852ء میں 52 سال کی عمر میں دہلی میں چھت سے گر گئے اور کچھ عرصہ بعد وفات پائی۔ مومنؔ کے کلام میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:-
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہوں گے
تُو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
مٹی نہ دی مزار تلک آ کے اس پہ بھی
کہتے ہیں لوگ خاک میں اس نے ملا دیا
انصاف کے خواہاں ہیں، نہیں طالب زر ہم
تحسین سخن فہم ہے مومنؔ صلہ اپنا
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
اے تپ ہجر دیکھ مومن ہیں
ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں