خان بہادر ملک صاحب خان صاحب نون
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21ستمبر 2005ء میں مکرم عبد السمیع نون صاحب کے قلم سے محترم خان بہادر ملک صاحب خانصاحب نون (سابق ڈپٹی کمشنر) کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
اپریل 1954ء میں قانون کی پریکٹس شروع کرنے مَیں بھلوال پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملک عطا محمد خانصاحب نون کا مکان عدالت بھلوال سے بالکل متصل ہے اور اس کے کئی حصے وہ کرایہ پر دیتے ہیں۔ میں وہاں پہنچا اور اپنا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے کہا آپ نون ہیں تو آپ کا اپنا مکان ہے۔ پھر مزید تعارف ہوا تومیں نے کہا کہ ہم احمدی ہیں۔ میری پیدائش سے پہلے میرے ابا حضرت صاحب (سیّدنا حضرت امام جماعت ثانی) سے دعائیں کرواتے رہے جب میری ولادت ہوئی (اور میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا) تو ابا نے حضور کی خدمت میں تبرکاً میرا نام تجویز کرنے کی درخواست کی تو میرے والد کا نام عبد العزیز تھا، حضورؓ نے میرا نام عبد السمیع رکھ دیا۔ ملک صاحب نے بلا تامل کہا کہ پھر کل آنے کی ضرورت نہیں۔ پھر میری دلجوئی یوں کہہ کر کی کہ مجھے احمدیت سے کوئی مخالفت ہے۔ احمدی تو بڑے اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ ایم ایم احمد صاحب اور چوہدری عزیز احمد باجوہ جج کے ساتھ میرا گہرا تعلق تھا اور ان کی انصاف پسندی کا ایک زمانہ شاہد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک صاحب خان نون میرے سوتیلے بھائی ہیں۔ ہمارے باہم جائیدادوں کی تقسیم وغیرہ کے تنازعات چلتے رہتے ہیں۔ وہ احمدی ہیں۔ تم ہمارے مکان میں رہو گے مگر وکالت اُن کی کروگے۔ میں نے کہا کہ میں تو ملک صاحب خان صاحب سے متعارف بھی نہیں ہوں تاہم میں آپ کے مفروضے کی تردید بھی نہیں کرتا۔
پھر مجھے ایک مکان سرگودھا شہر میں مفت مل گیا اور میں جون 1954ء میں سرگودھا منتقل ہوگیا۔ قریباً ایک سال بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے میرا تعارف ملک صاحب خان نون صاحب سے کروایا۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ سر ملک محمد فیروز خان نون (سابق وزیراعظم پاکستا ن) کے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ گہرے دوستی اور عقیدت کے تعلقات تھے۔ وہ جب لاہور میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے تو ہر ہفتے مجھے فون کرتے اور قریباً ہر بار حضورؓ کی طبیعت پوچھتے اور سلام عرض کرتے، پھر حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کا پوچھتے اور پھر محترم ملک صاحب خان صاحب نون کا پوچھتے۔ جب مَیں اِن کا بتاتا کہ وہ ٹھیک ہیں تو ایک بار کہنے لگے کہ وہ ورزش بہت کرتے ہیں۔82سال اِن کی عمر تھی۔ میں نے حیران ہو کر کہا کہ نہیں ورزش تو اب کوئی نہیں کرسکتے۔ بولے: ’’وہ چھ نمازیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ اس عمر میں یہ ورزش ہی بہت ہے‘‘۔
تاریخ احمدیت کے مطابق جناب صاحب خان صاحب نون کی بیعت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دَور کی ہے۔ آپ بتاتے تھے کہ حضورؓ سے عقیدت تو پہلے سے تھی، جب میں اُن کو ملنے قادیان گیا تو حضور نے فرمایا ملک صاحب آپ ہمارے اَور قریب آجائیں تو میں نے عرض کیا کہ میں تو حاضر ہوں۔ تاہم بیعت کی تقریب اس زمانے میں ہوئی جب آپ بطور سٹی مجسٹریٹ امرتسر میں تعینات تھے۔ 1905ء میں چیفس کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اور تعلیم میں عمدہ کارکردگی پر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اُسی سال ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تقرری ہوگئی تھی خلافت اولیٰ میں امرتسر میں تعینات رہے۔ رئیس ابن رئیس تھے۔ جہاں رہتے سواری کے لئے گھوڑا ، دودھ کے لئے بھینس اور شکار کے لئے کتے بھی رکھتے تھے۔ عمدہ کار بھی رکھتے تھے۔
ملک صاحب کا برادرانہ گہرا تعلق حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کے خاندان کے ساتھ تھا۔ آپ حضرت چوہدری صاحب کی والدہ سے کہتے کہ بے بے جی! کیا تم میرے لئے اتنی دعا کرتی ہو جتنی چوہدری صاحب کے لئے۔ تو وہ فرماتیں کہ اپنے پانچوں بیٹوں کے لئے برابر دعا کرتی ہوں ۔ یعنی حضرت چوہدری صاحب، اُن کے تینوں بھائی اور پانچویں ملک صاحب خانصاحب نون۔
ایک بار محترم ملک صاحب خانصاحب نے حضرت چودھری صاحبؓ کو مدعو کرکے اپنی کوٹھی کے وسیع احاطہ میں تین صد مہمانوں کیلئے چائے کا انتظام اور حضرت چوہدری صاحب کے لیکچر کا پروگرام کیا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ایک بار چندہ وقف جدید کی کمی کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھے کپڑے بھی بیچنے پڑے یا مکان بھی فروخت کرنا پڑے تو میں تحریک وقف جدید کو کامیاب کرنے کے لئے دریغ نہیں کروں گا۔ اس پر ملک صاحب نے میری موجودگی میں حضور انور کو عریضہ لکھا کہ حضور آپ نے پہلے ہی اپنی ہر شے راہ خدا میں جھونک دی ہوئی ہے۔ اب ہمارے کپڑے اور ہمارے مکان اور ہماری زمینیں باقی ہیں جو حاضر ہیں۔ پہلے یہ بکیں گی تو پھر آپ کی باری آئے گی۔ چنانچہ آپ نے اپنے چندہ میں کافی اضافہ کرکے رقم ارسال کر دی۔
ایک بار فرمانے لگے اس دفعہ جلسہ سالانہ میں حضور نے جو تفصیل تحریک جدیدکے ثمرات کی بیان فرمائی ہے۔ وہ بڑی ایمان افروز ہے اور شاندار بھی مگر ہمارے چندے تو انگلی پر لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش ہے۔ (حالانکہ میرے اندازے کے مطابق ملک صاحب کا چندہ ضلع میں شاید سب سے زیادہ ہوتا تھا)۔ فرمایا میرے پاس نقد رقم تو اتنی نہیں ہے،میں دو مربع زمین نہری جو برلب سڑک واقع ہے، وہ تحریک جدید میں دیتا ہوں۔ تم لکھو کہ یہ زمین تحریک جدید اپنے نام انتقال کرا لے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
آپ نے بطور مجسٹریٹ اور پھر بطور ڈپٹی کمشنر کئی جگہوں پر کام کیا۔ جہاں رہے غریب و امیر سبھی رطب اللسان رہے۔ ایک دفعہ ہم دونوں لاہور جارہے تھے۔ پنڈی بھٹیاں میں حضرت بابا خیر محمد صاحب نون کا مزار ہے۔ وہ ہمارے جدامجد تھے۔ ہم نے وہاں چند منٹ رُک کر اُن کے مزار پر دعا کرنا چاہی۔ اسی دوران رؤسا شہر بھٹی صاحبان کو ملک صاحب کی آمد کا کسی نے بتا دیا۔ اس پر وہ سارے صف بستہ حاضر ہوئے اور وہیں شب باش ہونے پر اصرار کیا۔ وہ ملک صاحب کے گوجرانوالہ کی تعیناتی کے دوران احسانات کو یاد کرکے گویا نثار ہورہے تھے۔ لیکن اُس روز اُن کے خاندان میں فوتیدگی ہوگئی تھی اس لئے ملک صاحب نے معذرت کرلی۔
آپ کی خاندانی وجاہت کے ساتھ دیانتداری، راست روی پھر اس پر تقویٰ کا رنگ جو چوکھا چڑھا تو ایک بار انگریز چیف سیکرٹری کی میٹنگ کے بعد کھانے کے دوران جب وہاں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز جمع تھے، چیف سیکرٹری نے جماعت کے بارہ میں درشتگی اور کسی قدر نفرت کا اظہار کیا۔ اس پر آپ نے وہیں کھانا چھوڑ دیا اور چیف سیکرٹری کو سخت جواب دے کر وہاں سے چلے آئے۔
ضلع گوجرانوالہ کی تعیناتی کے دوران ایک بار محترم خانصاحب کولوتارڑ دورہ پر تشریف لائے اور چوہدری عطاء اللہ ذیلدار کے دارہ پر وارد ہوئے۔ آتے ہی حکم صادر کیا کہ یہاں کے سارے احمدیوں کو بلاؤ۔ وہ سبھی غریب کمی کمین ہی تھے۔ جب آئے تو وہ بیچارے زمین پر بیٹھ گئے مگر ملک صاحب نے انہیں چارپائیوں پر بٹھانے کا حکم دیا اور اُن سے پوچھا تمہیں یہ چوہدری کوئی تکلیف تو نہیں دیتے۔ وہ بے چارے جھینپ رہے تھے۔ پھر آپ نے چودھریوں کو کہا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ خبردار جو اِن سے کسی نے برا سلوک کیا یا کوئی بیگار لی۔
ایک دفعہ حافظ آباد گوجرانوالہ روڈ پر نہر کے ایک بنگلہ کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کوئی غریب صحابی بھی رہتے ہیں۔ آپ نے اُنہیں بلا بھیجا اور ایک الگ جگہ کرسیاں لگوا کر اُن کے ساتھ کافی دیر تک راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔ غرض جہاں جاتے احمدیوں کے ساتھ گھل مل جاتے۔ ان کا احوال معلوم فرماتے اور انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اسی وقت حل کر دیتے۔
چوہدری بشیر احمد صاحب تارڑ سرگودھا میں ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔ اسی دوران اُن کے بڑے بھائی ملک صاحب سے ملنے آئے اور پوچھا: ’’چا چا جی! بشیر احمد روزانہ سلام کرنے آتا ہے کہ نہیں‘‘۔ ملک صاحب نے انہیں تسلّی دی اور فرمایا کہ وہ بہت مصروف ہے مگر یوں تابعدار ہے، فکر نہ کریں وہ مجھے احترام سے ملتا ہے۔
سرگودھا میں ایک مشہور سیشن جج سید عبد اللطیف شاہ صاحب تھے۔ جب ریٹائر ہوئے تو ملک صاحب نے شام کی چائے پر انہیں بلایا۔ ملک صاحب اُٹھ کر اندر گئے تو انہوں نے بتایا کہ مَیں L.L.B. کرکے گاؤں آیا تو میرے والد سید نادر علی شاہ صاحب (جو احمدی تھے اور ذیلدار تھے، فوت ہوگئے۔ گاؤں سے آٹھ درخواستیں ذیلداری کی دائر ہوئیں۔ مَیں بھی درخواست دینے عدالت میں گیا تو ملک صاحب نے خود دیکھ کر مجھے بلایا۔ میرے آنے کی وجہ معلوم ہوئی تو فرمایا درخواست کی ضرورت نہیں۔ پھر میرے بارہ میں لکھا کہ اس کو ذاتی طور پر جانتا ہوں یہ مرحوم ذیلدار کا بیٹا ہے، لاء گریجوایٹ ہے، اچھے چال چلن والا شریف آدمی ہے، میں اسے ذیلدار مقرر کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ جناب کئی درخواستیں ہیں جن کی تاریخیں ابھی ایک ہفتہ بعد ہیں۔ آپ نے وہ درخواستیں منگواکر خارج کردیں۔جب دوسروں کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپیلیں کمشنر راولپنڈی کے پاس دائر کر دیں کہ ہمیں سنا بھی نہیں گیا اور مقررہ تاریخ سے پہلے ہی ہماری درخواست DC نے خارج کردی ہے وغیرہ۔ کمشنر جو انگریز تھا اس نے کہا جب میرا ڈی سی ذاتی طور پر پسرذیلدار کو جانتا ہے اور اس کی نگاہ میں وہی فٹ امیدوار ہے۔ تو میں اس کی Discretion میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ چنانچہ اُس نے بھی سب اپیلیں خارج کر دیں۔
ملک محمد فیروز خان صاحب جب وزیر اعظم تھے تو اپنے گاؤں نور پور نون آئے۔ ساری برادری وہاں اکٹھی تھی۔ پھر جب ملک صاحب خانصاحب وہاں پہنچے تو ملک عطا محمد صاحب نون DIG، بریگیڈیئر گل شیر خانصاحب نون اور دیگر افراد خاندان حتیٰ کہ خود سرفیروز خانصاحب نون بھی اٹھ کر اور دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ کر آپ کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوگئے۔
جب جھنگ میں ڈی سی تعینات تھے تو ایک زمیندار کے دو قیمتی گھوڑے چوری ہوگئے۔ جو لالیاںکے ایک مشہور رسہ گیر رئیس کے پاس پہنچ گئے جس نے گھوڑوں کے اُس کی تحویل میں ہونے سے ہر ایک کو انکار کر دیا۔ چنانچہ ملک صاحب اُس کے علاقہ میں پہنچے۔ ریسٹ ہاؤس کھلواکر تھانیدار کے ذریعہ اُس رئیس کو بلوایا۔ اُس نے اپنی عزت افزائی سمجھی اور فوراً حاضر ہوا۔ آپ نے چھوٹتے ہی کہا کہ گھوڑے واپس کردو۔ اس نے آگے سے حیل وحجت کی۔ دو تین بار ایسا ہی جواب ملا تو ملک صاحب نے تھانیدار کو حکم دیا کہ اسے ہتھکڑی لگا دو۔ اس پر وہ رئیس آپ کے پاؤں پڑگیا کہ خدا کے لئے ایک دن کی مہلت دیدیں۔ زمین اور آسمان کے درمیان جہاں کہیں بھی گھوڑے ہوں گے پیش کردوں گا۔ ملک صاحب مان گئے اور کہا کہ فی الحال اس کو چھوڑ دو۔ چنانچہ اگلی سہ پہر وہ گھوڑے لے کر حاضر ہوگیا اور بتایا کہ جناب آپ ناراض ہوگئے تھے میں نے بڑی مشکل سے اور بڑی دُور سے بر آمد کئے ہیں۔
جب آپ ملازمت میں نہیں تھے تو بھی خدمت خلق کا یہی عالم تھا۔ ایک بار کسی مزارع نے عرض کیا کہ اُس کے دو بیل فلاں نے چرا لئے ہیں۔ آپ کے پوچھنے پر اُس نے ثبوت بھی دیا کہ بیل اُسی کے پاس ہیں۔ آپ نے اُس چور کو بلایا لیکن اُس نے ماننے سے انکار کردیا۔ آخر آپ نے چور کو سات دن کی مہلت پر چھوڑ دیا اور مزارع سے کہا کہ اگر سات روز بعد اس نے بیل واپس نہ کئے تو میرے اعلیٰ نسل کے بیلوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں، لے جانا، پھر مَیں جانوں اور یہ چور۔ وہ غریب آدمی واپس چلا گیا۔ چار دن گزرے تھے کہ چور حاضر ہوگیا اور عرض کیا کہ جناب نہ معلوم کہاں کہاں میں ان بیلوں کے پیچھے خوار ہوا ہوں۔ یہ اُس مزارع کو دیدیں۔
ملک صاحب نے حتی الوسع اپنے اکلوتے بیٹے کی تربیت اور تعلیم پر بہت توجہ دی تھی۔ حتیٰ کہ سرگودھا چھوڑ کر ربوہ میں سکونت اختیار کر لی۔ جب بچہ نو دس سال کا تھا تو اُس نے ریڈیو خریدنے کی خواہش کی لیکن آپ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے فلمی گانے وغیرہ سننے کی اجازت نہیں دی اس لئے میں تو ریڈیو لے کر نہیں دو ں گا۔ پھر میری تجویز پر اُسے ٹیپ ریکارڈر خرید دیا تاکہ نظموں کی کیسٹس سنتا رہے۔
موضع گورالی ضلع گجرات میں نون خاندان کی رشتہ داری چلی آرہی ہے۔ ملک مولا بخش صاحب ان کے بزرگ احمدی تھے۔ آگے ان کی اولاد میں احمدیت نہ چلی۔ اُن کے ایک بیٹے اے۔ کے ملک کمشنر راولپنڈی اور ممبر بورڈ آف ریونیو بھی رہے۔ ایک روز میں انہیں ملنے کے لئے گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھو خفیہ رپورٹیں آرہی ہیں کہ سلانوالی کے علاقے میں احمدی بہت اشتعال پھیلا رہے ہیں۔ (اُن دنوں چک منگا وغیرہ میں احمدی ہو رہے تھے)۔ میں نے جواب دیا کہ اگر کوئی احمدیت قبول کرلے تو اشتعال کیسے پھیل جاتا ہے، ہم کسی کو مجبور تو کر نہیں رہے۔ اُن کی بھتیجی کے لئے ملک صاحب نے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا۔ جب میرے ساتھ اس کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ کس بات کی۔ مَیں نے کہا کہ جماعت سے باہر رشتہ کرنے کی۔ فرمایا: نہیں تو۔ پھر آپ نے اسی وقت اس تجویز کو منسوخ کر دیا کہ جب جماعت سے باہر رشتہ کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے تو میں کیوں اس اصول کو توڑوں۔
آپ نے ربوہ میں مسجد محمود متصل درالضیافت تعمیر کروادی۔ پھر محلہ دارالیمن میں بھی ایک مسجد تعمیر کرائی۔ 1949ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کمپنی باغ سرگودھا میں لیکچر دینے کے لئے سرگودھا تشریف لائے تو حضور کے اعزاز میں ملک صاحب موصوف نے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا جس میں کچھ رؤسا اور انتظامیہ کے افسران کے علاوہ جماعت کے اکابرین بھی مدعو تھے۔
آپ نے نہایت تقویٰ سے زندگی بسر کی۔ 17 جولائی 1966ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ احمدیوں کے بعد غیراحمدیوں کی کثیر تعداد نے بھی نماز جنازہ ادا کی۔