’’خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا‘‘

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17فروری 2012ء (مصلح موعود نمبر) میں مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں پیشگوئی مصلح موعود میں بیان فرمودہ ایک نشان کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ حیات کے چند پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی ’’خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا‘‘ ۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

مولانا دوست محمد شاہد صاحب

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 28 دسمبر 1944ء کو جلسہ سالانہ سے ’’الموعود‘‘ کے عنوان سے جو معرکہ آراء خطاب فرمایا اُس میں مذکورہ نشان کے حوالہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس الہام کی صداقت میں متواتر میری حفاظت اور نصرت کی ہے۔ اور مَیں اس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک میرا کام باقی ہے اُس وقت تک کوئی شخص مجھے مار نہیں سکتا۔ میرے ساتھ متواتر ایسے واقعات گزرے ہیں کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ان کے حملوں سے مجھے محفوظ رکھا۔ مثلاً:
٭ میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تاکہ گلا درست رہے کہ اسی دوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہورہا ہے۔ چنانچہ ایک نے دوسرے اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو وہ پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کردی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ سٹیج پر پہنچ گئی۔ سٹیج پر اتفاقاً کسی شخص کو خیال آگیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اس کی زبان کٹ گئی۔ تب معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملی ہوئی ہے۔ اب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور مَیں خدانخواستہ اسے چکھ لیتا تو اور کچھ اثر ہوتا یا نہ ہوتا اتنا تو ضرور ہوتا کہ تقریر رُک جاتی۔
٭ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی آیا جس کا نام میتھیوز تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ مجھے قتل کر دے۔ یہاں سے جب وہ ناکام واپس لَوٹا تو اُس کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور اُس نے اسے قتل کردیا۔ اُس نے سیشن کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ارادہ اپنی بیوی کو ہلاک کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں مرزا صاحب کو ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک جگہ کسی مولوی کی تقریر سنی جس کے بعد فیصلہ کیا کہ میں قادیان جا کر مرزا صاحب کو مار ڈالوں گا۔ چنانچہ میں پستول لے کر قادیان گیا۔ اتفاقاً اس روز جمعہ تھا اور بہت لوگ اکٹھے تھے۔ اس لئے مجھے ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ دوسرے دن وہ پھیروچیچی چلے گئے تو میں پستول لے کر ان کے پیچھے پیچھے پھیروچیچی گیا۔ مگر وہاں بھی ان کے دروازہ پر ہر وقت پہرہ دار بیٹھے رہتے ہیں۔ اس لئے میں واپس آگیا۔ گھر آکر میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور میں نے اسے مار ڈالا۔ یہ سارا واقعہ اس نے عدالت میں خود بیان کیا۔ حالانکہ ہمیں کچھ علم نہیں تھا۔
٭ تیسرا واقعہ یہ ہے کہ احرار کی شورش کے ایام میں مَیں ایک دن اپنی کوٹھی دارالحمد میں تھا کہ افغان لڑکا آیا۔ میرے چھوٹے بچے اندر آئے اور بتایا کہ ایک لڑکا باہر کھڑا ہے اور وہ ملنا چاہتا ہے۔ مَیں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میں نے شور کی آواز سنی۔ اور پھر مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ لڑکا قتل کے ارادہ سے آیا تھا مگر عبدالاحد صاحب نے اسے پکڑ لیا اور اس سے ایک چھرا بھی انہوں نے برآمد کرلیا ہے۔ مَیں نے عبدالاحد صاحب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ قتل کے ارادہ سے آیا ہے وہ کہنے لگے کہ یہ لڑکا پٹھان تھا اور ہم پٹھانوں کی عادات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے اس نے اپنی ٹانگوں کو اس طرح ہلایا کہ میں فوراً سمجھ گیا کہ اس نے چھرا چھپایا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ ڈالا تو چھرا نکل آیا۔
میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اُس جیل خانہ میں قید تھا جہاں مَیں افسر لگا ہوا تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں پہلے دھرم سالہ تک ان کو قتل کرنے کے لئے گیا تھا مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی۔ آخر میں قادیان گیا اور پکڑا گیا۔
٭ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اُمّ طاہر کے مکان کی دیوار پھاند کر ایک شخص اندر کودنا چاہتا تھا کہ لوگوں نے اُسے پکڑ لیا۔ پولیس والے چونکہ ہمارے خلاف تھے اس لئے انہوں نے یہ کہہ کر اُسے چھوڑ دیا کہ یہ پاگل ہے۔
٭ پانچواں واقعہ کل ہی ہوا ہے۔ ہمارے گھر میں دودھ رکھا ہوا تھا کہ میری بیوی کو شبہ پیدا ہوا کہ کسی نے دودھ میں کچھ ڈال دیا ہے۔ چنانچہ اس شبہ کی وجہ سے انہوں نے کہہ دیا کہ اس دودھ کو استعمال نہ کیا جائے۔ ایک دوسری عورت جسے اس کا علم نہیں تھا یا اس نے خیال کیا کہ یہ محض وہم ہے اس نے وہ دودھ پی لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اب تک متواتر قئیں آرہی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شبہ کیا گیا تھا وہ درست تھا۔
لیکن باوجود اس کے کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ہر رنگ میں انہوں نے زور لگایا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ خدا کا سایہ میرے سر پر ہوگا اس لئے وہ ہمیشہ میری حفاظت کرتا رہا اور اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اپنی تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔
٭ 10 مارچ 1954ء کو مسجد مبارک ربوہ میں جب حضورؓ نماز عصر پڑھاکر واپس جانے لگے تو اچانک ایک اجنبی نوجوان نے پیچھے سے جھپٹ کر آپ پر چاقو سے حملہ کردیا۔چاقو کا یہ وار حضور کی گردن پر شہ رگ کے قریب دائیں طرف پڑا جس سے گہرا گھاؤ پڑ گیا۔ حملہ آور نے دوسرا وار بھی کیا مگر محمد اقبال صاحب محافظ درمیان میں آگئے۔ نمازیوں نے کافی جدوجہد کے بعد حملہ آور کو قابو کرلیا اور اس کوشش میں بعض لوگ بھی زخمی ہوئے۔ حضورؓ بہتے خون کے ساتھ چند احباب کے سہارے سے اپنے مکان میں تشریف لے گئے۔ تمام راستہ میں اور سیڑھیوں پر خون مسلسل بہتا گیا جس سے حضور کے تمام کپڑے تربتر ہوگئے۔ ابتدائی مرہم پٹی ڈاکٹر صاحبزادہ مرزامنور احمد صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے کی اور زخم کو صاف کرکے ٹانکے لگا کر سی دیا۔ ابتداء میں یہ خیال تھا کہ زخم پون انچ گہرا اور تین انچ چوڑا ہے لیکن جب رات کو لاہور سے مشہور سرجن ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے ضروری سمجھا کہ ٹانکے کھول کر پوری طرح معائنہ کیا جائے تو معلوم ہوا کہ زخم بہت زیادہ خطرناک اور سوا دو انچ گہرا اور شہ رگ کے بالکل قریب تک پہنچا ہوا ہے۔ تب انہوں نے قریباً سوا گھنٹہ لگا کر زخم کا آپریشن کیا اور اندر کی شریانوں کا منہ بند کرکے باہر ٹانکے لگا دیئے۔ اس تمام عرصہ میں حضرت باہوش تھے اور آپؓ کی زبان پر تسبیح و تحمید جاری تھی۔ آپؓ نے حملہ ہونے کے فوراً بعد مسجد سے نکلتے ہی ہدایت فرمائی کہ حملہ آور کو صرف قابو کیا جائے لیکن اُسے مارا نہ جائے۔ اس ارشاد کی تعمیل کا ہی نتیجہ تھا کہ حملہ آور محفوظ حالت میں حوالہ پویس کر دیا گیا۔
بعدازاں تحقیق کے نتیجہ میں یہ حقیقت بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ یہ حملہ پاکستان اور اسلام کی دشمن طاقتوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے بعض غیرملکی عناصر بھی کارفرما تھے۔ مگر خدا تعالیٰ نے حفاظت فرمائی اور صرف چند مہینوں کے اندر آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے۔ جو ایک خارق عادت نشان ربّ ذوالجلال کا تھا۔ خدا کی قادرانہ تجلی نے اس سانحہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے سب چھوٹے مبشر بھائیوں سے لمبی عمر دی اور لاتعداد کامیابیوں اور نصرتوں سے معمور گیارہ برس تک مزید عمر بخشی اور پھر زندگی کے آخری سانس تک اپنے سایہ رحمت و شفقت میں رکھا۔ اس دوران آپ نے پاکستان کے طول و عرض میں بہت سے سفر کئے بلکہ یورپ کا للّٰہی اور نشریاتی دورہ بھی کیا اور یورپین احمدی مشنوں کی عالمی کانفرنس کی بھی کامیاب صدارت فرمائی۔ اسی دور میں حضور پُرنور کے قلم سے تفسیر صغیر شائع ہوئی جس نے دنیائے تفسیر میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ یہ منفرد تصنیف بہت سی لغوی، معنوی اور روحانی عجائبات کا نفیس مرقع بلکہ انسائیکلوپیڈیا تھی جس پر پاکستانی پریس نے بھی خوب داد تحسین دی۔
اسی زمانہ میں مرکز میں ضیاء الاسلام پریس قائم ہوا اور روزنامہ الفضل کراچی کی بجائے ربوہ سے جاری ہوگیا۔ اسی عرصہ میں تعلیم الاسلام کالج، دفتر انصاراللہ مرکزیہ، فضل عمر ہسپتال، یادگاری مسجد، ایوان محمود و دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، جامعہ احمدیہ اور نصرت گرلز ہائی سکول کی شاندار عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ وقف جدید جیسی انقلاب آفریں تحریک کی بنیاد پڑی۔ اشاعتی ادارہ ’ادارۃالمصنفین‘ کا قیام عمل میں آیا۔ یتیموں اور مسکینوں کے لئے دارالاقامہ بھی انہی ایام کی یادگار ہے۔ اسی طرح مسجدنور راولپنڈی کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی ۔
بیرون پاکستان جماعتی سرگرمیوں پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سنہری گیارہ سالوں میں (1954ء سے نومبر 1965ء تک) سوئٹزرلینڈ، لائبیریا، فلپائن اور آئیوری کوسٹ میں جماعت احمدیہ کے نئے مشن قائم ہوئے۔ مالٹا کے ایک انجینئر نے احمدیت قبول کرکے اپنے ملک میں احمدیت کا عَلم لہرایا۔ دنیا بھر میں اشاعتی لٹریچر میں زبردست اضافہ ہوا۔ چنانچہ اس دوران قرآن مجید کے مقبول جرمن ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ ڈینش ترجمہ قرآن کا حصہ اول شائع ہوا۔ چند زبانوں میں تراجم قرآن کا مسودہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
علاوہ ازیں تحریک جدید کے مبلغین کی کوششوں سے برما، لائبیریا، فلپائن، ہمبرگ، دارالسلام (تنزانیہ)، کمپالا، جنجہ (یوگنڈا)، ٹانگا نیکا، سیرالیون، اکرا (غانا)، رنگون (برما) اور فجی میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہوئی۔ اس طرح دنیا بھر میں تیرہ مراکزِ توحید کا غیرمعمولی اضافہ ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ ابھی مسند خلافت پر بھی رونق افروز نہیں ہوئے تھے کہ آپ نے القاء ربانی سے 27؍اگست 1913ء کو عارفانہ اور متوکّلانہ شان کے ساتھ یہ پیشگوئی فرمادی تھی کہ ؎

حملہ کرتا ہے اگر دشمن تو کرنے دو اسے
وہ ہے اغیاروں میں مَیں اس یار کے یاروں میں ہوں
جانتا ہے کس پہ تیرا وار پڑتا ہے عدُو
کیا تجھے معلوم ہے کس کے جگرپاروں میں ہوں

قاتلانہ حملہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ ربوہ پر اس حادثہ کی وجہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’دشمن نے اپنی طرف سے تو گویا مجھے ختم ہی کر دیا تھا لیکن کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور رحم کے ساتھ دشمن کے ارادوں کو ناکام کر دیا۔
بہرحال ایک بلا آئی اور چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اس سے محفوظ رکھا۔ مگر میں اس موقعہ پر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو بھی واقع ہوا۔ حملہ کرنے والے کی نیت بہرحال مجھے مارنے کی اور نہ صرف مجھے مارنے کی بلکہ احمدیت کو مارنے کی تھی اور یہ میرا مذہبی فرض ہے کہ اس موقعہ پر مَیں یہ دنیا کو بتا دوں کہ احمدیت کا میری زندگی پر انحصار نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ آئے اور فوت ہوگئے۔ دشمن نے سمجھا کہ اب احمدیت ختم ہوگئی۔ لیکن اس کا یہ خیال غلط نکلا اور احمدیت قائم رہی اور ترقی کرتی چلی گئی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا زمانہ آیا اور لوگوں نے سمجھا کہ احمدیت حضرت خلیفہ اوّل کی وجہ سے قائم ہے۔ لیکن آپ بھی وفات پاگئے اور سلسلہ پھر بھی ترقی کرتا چلاگیا۔ پھر سلسلے کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں دی۔ دشمن نے گمان کیا کہ بھلا یہ بچہ کیا کرسکے گا۔ آج نہیں تو کل یہ جماعت تباہ ہوجائے گی۔ لیکن وہ بچہ آج بوڑھا ہورہا ہے مگر احمدیت کا قدم جوانی کی طرف گامزن ہے۔ پس احمدیت کی ترقی کا تعلق یا انحصار کسی انسان پر نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا پودا ہے۔ جس نے بہرحال بڑھنا اور ترقی کرنا ہے اور اس کی شاخیں زمین سے آسمان تک پہنچتی چلی جائیں گی۔ ‘‘

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

حضرت مصلح موعودؓ نے 1924ء کے سفر یورپ کے دوران ایک نظم رقم فرمائی تھی۔ اس پُرمعارف کلام کے چند اشعار یوں تھے: ؎

تم مرے قتل کو نکلے تو ہو پر غور کرو
شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیروں سے
مجھ کو حاصل نہ اگر ہوتی خدا کی امداد
کب کے تم چھید چکے ہوتے مجھے تیروں سے
حق تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں مَیں یاد رہے
وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیروں سے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں