تعارف کتاب: ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری؟‘‘

تعارف کتب
خصوصی کمیٹی میں کیا گزری؟

تعارف: محمود احمد ملک- مدیر رسالہ انصارالدین یوکے

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن، 21 فروری 2014ء)
(مطبوعہ رسالہ احمدیہ گزٹ کینیڈا، اپریل 2014ء)
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین یوکے، مئی جون 2013ء- از فرخ سلطان محمود)

نام کتاب: ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری؟‘‘
زبان: اردو
مصنف: مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب

زندہ قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے رہتے ہیں جب انہیں اپنی اور اپنے نظریات کی بقا اور حفاظت کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر قربانیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ شائد یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی قوم کی زندگی کے لئے اُس کے افراد کا ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا اور مادی قربانیاں پیش کرتے ہوئے اپنے اعلیٰ مقصدِ حیات اور مطمحٔ نظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے فخر و شکر کا اظہار کرنا ایک نہایت قابل تحسین امر ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ایک ایسی زندہ اور زندگی بخش حقیقت ہے جو اپنی سوا سو سالہ تاریخ میں شدید مخالفتوں اور ابتلاؤں کا شکار ہوئی لیکن اس کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور کسی معاند کا شر جماعت احمدیہ کے راستہ کی رکاوٹ نہیں بن سکا۔ اگرچہ شریروں کی شرارتوں سے انفرادی یا اجتماعی طور پر بے شمار احمدیوں کو ابتلا پیش آئے اور معصوم احمدیوں کو مشق ستم بنایا گیا۔ اگرچہ اِن مظالم کے نتیجہ میں بھی بظاہر وقتی طور پر ترقی کا قدم دھیما ہوتا ہوا نظر تو آیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سکوت صرف اس لئے تھا کہ ایک بڑی جست کے لئے قوت مجتمع کی جائے۔ چنانچہ ہر ایسے ابتلا کے بعد عالمگیر جماعت احمدیہ فتوحات کی ایسی عظیم الشان راہوں پر قدم مارتی ہوئی نظر آئی جن کا تصور بھی اس ابتلا سے پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ نظارہ احمدیوں نے بارہا دیکھا کہ خلوصِ دل اور پُرعزم حوصلوں کے ساتھ علاقائی اور قومی سطح پر دی جانے والی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت عطا فرماکرعالمگیر سطح پر ایسی شاندار ترقیات سے نوازا جس نے مومنین کے ایمانوں کو مزید مضبوط کیا۔
پس کسی احمدی کا قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ یہ قربانی احمدیت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ اسے شاندار ترقیات اور غیرمعمولی فتوحات کے راستہ پر رواں دواں رکھنے کے لئے بھی مہمیز کا کام کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف مخالفین کے ظالمانہ اقدامات اپنی انتہائی سفاکی تک پہنچنے کے باوجود بھی اُنہیں حسرت و یاس کے علاوہ کچھ عطا نہیں کرتے۔ بلکہ معاندین تو اپنی قلبی عداوت اور شقاوت میں سب کچھ بھی کرگزریں تو بھی اُن کا اندرونی حسد اور تعصب کادوزخ اُن کو مجبور کرتا چلا جاتا ہے کہ وہ اس آگ کو مزید بھڑکائیں اور ھَلْ مِنْ مَزِیْد کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں کی لکیر پیٹنے کے ساتھ اپنی نام نہاد فتح کا ڈنکا بجانے کے لئے کذب و افتراء کی ایک ایسی عمارت تعمیر کریں جس کی بیرونی دیوار کی ہر اینٹ ابوجہل کی وحشت و جہالت سے مستعار لی گئی ہو اور اُس عمارت کا اندرونہ ابولہب کی بھڑکائی ہوئی اُس آگ کی طرح ہو جو آخرکار بھڑکانے والے کو ہی جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔ لیکن یہ بھی امرواقعہ ہے کہ دشمن کی یہی آتشِ حسرت و یاس دوسری طرف ابراہیمی طیور کے لئے ایک ایسی بہشت بن کر گُل و گلزار کا سا سماں پیدا کردیتی ہے جو مومنین کے لئے دنیا و آخرت میں امن و سکون کی ضمانت بن جاتی ہے۔
معاندین احمدیت نے بار بار اپنا نشتر معصوم احمدیوں پر آزمایا اور اپنی سی انتہائی کوشش کرنے کے باوجود بھی اپنی نامرادیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے بدنصیب دل پر احمدیت کی کامیابیوں کے رعب کو بھی محسوس کیا۔ لیکن پھر عیار شعبدہ بازوں کی سی قبیح حرکات کرتے ہوئے اپنی اندوہناک شکست کو فتح کا لبادہ پہنانے کے لئے میدان میں اتر آئے اور اپنی زبان و قلم سے جھوٹے دعووں کے انبار پر انبار لگاتے رہے۔ اپنے شکست خوردہ رہنماؤں کو ایسے القابات سے نوازتے رہے گویا وہ احمدیت کے خلاف ایسی تلوار ثابت ہوئے جس نے احمدیت کو صفحہ ہستی سے گویا نابود ہی کردیا۔ ایسے شرمناک دعوے کرنے والے نہیں جانتے کہ اُن کا مقابلہ ’’سلطان القلم‘‘ کے ایسے غلاموں سے ہے جو اپنے دشمن کی ہر مکارانہ چال کو نہ صرف اچھی طرح پہچانتے ہیں بلکہ اپنے امام کی اقتداء میں زبان و قلم کے ہر محاذ پر کذب و افتراء کی ملمّع کاریوں کے دانت کھٹے کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’سلطان القلم‘ کے غلاموں میں آج ایسے کئی سلطان ہیں جن کی زبان اور قلم سے بہتا ہوا سچائی کا دریا دشمن کی کذب و افتراء کی سیاہی کو اپنے ساتھ بہالئے جاتا ہے۔
سردست ایک ایسی کتاب ہمارے پیش نظر ہے جسے مرتب کرنے والے محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کی غیرمعمولی کاوشیں اُن کے لئے بے شمار دعاؤں اور محبتوں کے تحفے لارہی ہیں۔ یہ اہم کتاب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کے ایک ایسے سیاہ باب سے پردہ اٹھاتی ہے جو افسوسناک ہے اور شرمناک بھی۔ اس کتاب میں اُس دوسری آئینی ترمیم کا پس منظر بیان کرنے کے بعد اس ترمیم کے اُن بداثرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں لاکھوں کلمہ گو پاکستانی احمدی اپنے ہی وطن میں، بیک جنبش قلم،دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیئے گئے۔
’’خصوصی کمیٹی میں کیا گزری!‘‘ نامی اس کتاب میں دوسری آئینی ترمیم کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے ظالمانہ اقدامات کے پس پردہ اُن عوامل کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جن کا لبادہ اوڑھ کر شاطر دشمن اپنے وطن کے معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں چالیس سال سے مصروف ہے۔ اس کتاب میں پاکستان قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی اُس ’’خصوصی کارروائی‘‘ کی حقیقت پیش کی گئی ہے جس کا سہارا لے کر نام نہاد علماء گزشتہ چالیس سال سے احمدیت کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے وہ فلک شگاف نعرے لگارہے ہیں جن کا سچائی سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کو معاملات کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کا خوب سلیقہ ہے اور آپ جسمانی بیماریوں کے علاوہ معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کی تشخیص کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ بیماری کے پیش نظر اگر نشتر بھی چلانا پڑے تو بھی ہمدردی کا پہلو آپ کے سامنے رہتا ہے۔ حالات و واقعات خواہ کیسے ہی قلمبند کئے جارہے ہوں، آپ کا قلم کبھی بھی بے قابو ہوکر تعصّب کا زہر نہیں اُگلتا۔ چنانچہ آپ کی بہت سی دیگر تصانیف کی طرح یہ کتاب بھی فہیمانہ تحریر کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اور اس قابل ہے کہ اسے نہ صرف خود پڑھا جائے بلکہ ایسے شریف النفس دوستوں کو بھی برائے مطالعہ دی جائے جو آئینِ پاکستان میں 1974ء میں کی جانے والی ایک اہم ترین ترمیم کا تجزیہ کرنے کا شوق (تاریخی حقائق کے حوالہ سے) رکھتے ہوں۔
اس کتاب کی اہمیت ہم احمدیوں کے لئے تو یوں بھی ہے کہ چالیس سال سے ہم معاندین کی وہ لغویات سنتے چلے آرہے تھے جو سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ دوسری طرف ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویز بھی نہیں تھی کہ خصوصی کمیٹی میں ہونے والی کارروائی کی حقیقت ہم جان سکتے۔ اس کتاب کی اشاعت نے اِس کمی کو نہایت خوش اسلوبی سے دُور کردیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت اس وقت ممکن ہوئی جب پاکستان قومی اسمبلی کی سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا کی زیرہدایت قومی اسمبلی کی اُس کارروائی سے پردۂ اخفا اٹھالیا گیا اور پابندی ختم کردی گئی جس پر چار دہائیاں قبل (مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے) پابندی عائد کی گئی تھی۔ اب یہ کارروائی سرکاری طور پر شائع کردی گئی ہے مگر بالعموم دستیاب نہیں ہے۔
اس کتاب کی اہمیت ایسے غیرازجماعت شرفاء کے لئے بھی ہوگی جو قومی اسمبلی کی ’خصوصی کمیٹی‘ کے اندرونی حقائق جاننے کے باوجود بھی یہ معلوم کرنے سے قاصر تھے کہ اتنے وسیع پیمانہ پر چلائی جانے والی شاطرانہ چالوں کا آخری مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ وہ یہ تو جانتے تھے کہ اِس آئینی ترمیم کا اسلام سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے لیکن انہیں اِس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ (کذب بیانی کے ماہر) مذہبی لبادہ اوڑھنے والوں نے بعض بدقسمت سیاستدانوں کے کندھوں کو استعمال کرنے کے لئے اُنہیں ایسے کون سے سبز باغ دکھائے تھے جو کبھی بھی ثمربار نہ ہوسکے۔
اس کتاب کی اہمیت شاطرانہ چالوں میں مہارت رکھنے والے ایسی مذہبی شرپسندوں کے لئے بھی یقینا ہوگی جو 1974ء میں اِس آئینی ترمیم کو کروانے کے لئے ہر بدبختی قبول کرنے پر (کشادہ دلی سے) آمادہ تھے۔ یہ کتاب اُنہیں آئینہ دکھاتے ہوئے ثابت کررہی ہے کہ سچائی پر ڈالے جانے والے کذب کے تمام پردے آخر چاک ہوکر رہتے ہیں اور افتراء کے بادلوں سے صداقت کے سورج کا نُور چھپایا نہیں جاسکتا۔ جب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سورج اپنا چہرہ دکھاتا ہے تو ایک دنیا ’’جاء الحق و زھق الباطل‘‘ کا شاندار نظارہ ضرور دیکھتی ہے۔
اس کتاب کی اہمیت تاریخ کے اُن طالب علموں کے لئے بھی ہے جو معاملات کو درست کرنے کی سعی تو کرتے ہیں لیکن محض جھوٹ کے دبیز پردوں نے اُن کے ذہن کو حقیقت سے کوسوں دُور کردیا ہے۔ اس کتاب سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اسمبلی کے سامنے معاملہ کس رنگ میں زیربحث لایا گیا تھا، اسمبلی کے آئینی اختیارات کیا تھے، جماعت احمدیہ کا مؤقف کیا تھا، سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃالمسیح الثالثؒ پرجو جرح کی گئی تھی اس کا اثر اور ماحصل کیا تھا، قومی اسمبلی اس معاملہ سے کس انداز سے نبردآزما ہوئی اور کہاں تک اس نازک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں اہل علم اور اہل نظر حلقوں کی طرف سے اس کارروائی کا باریک بینی سے تجزیہ اور بصیرت افروز اور چشم کشا تبصرے بھی سامنے آئیں گے۔
اس کتاب کا مطالعہ یہ بات واضح کردیتا ہے کہ خلافت احمدیہ کی تائید و نصرت کا خدا تعالیٰ کا وعدہ نہایت شان سے پورا ہوا۔
قومی اسمبلی کی اس کارروائی میں جماعت احمدیہ کا وفد ایک گواہ کی حیثیت سے پیش ہوا اور جماعت احمدیہ کا مؤقف ایک محضر نامہ کی صورت میں پڑھا گیا اور جماعت احمدیہ کا یہ مؤقف پیش کیا گیا کہ قانون کی رُو سے، عقل کی رُو سے اور قرآنی تعلیمات اور احادیث نبویہ کی رُو سے دنیا کی کوئی بھی پارلیمنٹ یا اسمبلی اس سوال کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس کے بعد ممبرانِ قومی اسمبلی نے گیارہ روز تک جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کئے۔ اس کارروائی کے دوران ہی اس کا ریکارڈ محفوظ کرنے کے حوالے سے ایسی باتیں سامنے آئیں جن سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ انصاف کے معروف تقاضے پورے نہیں کئے جارہے۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں یہ طریقۂ کار ہے کہ جب کوئی گواہ بیان دیتا ہے تو اس کے بیان کا تحریری ریکارڈ گواہ کو سنایا جاتا ہے اور دکھایا جاتا ہے اور وہ اس بیان کو تسلیم کرتا ہے تو پھر یہ بیان ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے۔ لیکن اس کارروائی کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ہمیں بھی اس کی کاپی دی جائے لیکن انکار کیا گیا اور ایک ممبر اسمبلی کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا جماعت احمدیہ کے وفد کو اس کی کاپی دی جائے گی؟ تو سپیکر صاحب نے کہا کہ ان کو اس کی کاپی نہیں دی جائے گی۔ حالانکہ دنیابھر کی عدالتوں میں اور پارلیمنٹری کمیٹیوں میں بھی جب کوئی گواہ پیش ہوتا ہے تو گواہ کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی گواہی کا تحریری ریکارڈ ملاحظہ کرے اور اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کرکے اسے درست کرائے۔ بلکہ اگر گواہ پسند کرے تو اضافی تحریری مواد بھی ریکارڈ میں شامل کرسکتا ہے۔ لیکن قومی اسمبلی (سپیشل کمیٹی) میں بطور گواہ پیش ہونے والے جماعت احمدیہ کے وفد کو اُس کے بیان کا تحریری ریکارڈ نہیں دکھایا گیا۔ بلکہ یہ ظلم کیا گیا کہ جس دن قومی اسمبلی نے آئین میں دوسری ترمیم کی منظوری دی اُسی روز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کی اور کہا کہ گو ابھی اس کارروائی کو خفیہ رکھا گیا ہے لیکن بعد میں اس کو منظرعام پر لایا جائے گا۔
اگرچہ بعد میں بھی یہ کارروائی تو منظرعام پر نہ آئی لیکن اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا تحریری ریکارڈ مرتب کرنے کا کام مولوی ظفر احمد انصاری کے سپرد کیا گیا ہے تاکہ وہ ’’حسب خواہش‘‘ اس کارروائی کو اغلاط سے پاک کرکے محفوظ کرنے کا کام شروع کریں۔
یہ مولوی جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین میں سے تھے اور بطور رکن اسمبلی ، قومی اسمبلی میں ان کے سوالات اور تقاریر اس بات کا ثبوت ہیں۔ حیرت ہے کہ جو لوگ اس معاملہ میں مدعی تھے وہ خود ہی قاضی بن گئے اور پھر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اپنی غلطیوں کی تصحیح کرنے کے لئے خفیہ کارروائی کا ریکارڈ اپنے ہی ایک رُکن کے سپرد کردیا تاکہ وہ اس کو درست کرکے مرتب کرے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ یہ ریکارڈ مولوی ظفر انصاری صاحب کے سپرد کرنے کے بعد ایک طویل خاموشی طاری ہوگئی اور کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کن اغلاط کی تصحیح میں مصروف رہے ہیں۔
گزشتہ چار دہائیوں میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس کارروائی کو منظر عام پر لایا جائے لیکن دوسری طرف سکوتِ مرگ طاری تھا۔ مولوی حضرات اس حوالہ سے متضاد بیانیاں تو کرتے رہے لیکن یہ مطالبہ نہ کرتے کہ اس کارروائی کے اصل ریکارڈ کو منظرعام پر لایا جائے۔ یہ طبقہ مولویاں اس خوف کے آسیب سے باہر نہ آسکا کہ کہیں حقائق منظرعام پر نہ آجائیں۔ آخرکار 36 سال بعد لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہونے والے ایک مقدمہ کے نتیجہ میں عدالت نے اس کارروائی کو منظرعام پر لانے کا حکم دیا جس کے بعد سپیکر نے اس کارروائی کو شائع کرنے کی اجازت دی۔
جب یہ کارروائی شائع ہوئی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ حقائق چھپانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا مؤقف جو ایک محضرنامہ پر مشتمل تھا اور خصوصی کمیٹی کی کارروائی کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے یہ مؤقف خود پڑھ کر سنایا تھا، وہ ’’محضرنامہ‘‘ شائع کی جانے والی کارروائی میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کے برعکس جماعت کے مخالفین کی طویل تقاریر اِس میں شامل اشاعت کی گئی تھیں۔ اسی طرح محضر نامہ کے ضمیمے کے طور پر جماعت احمدیہ نے جو مضامین اور کتابچے جمع کرائے تھے، وہ بھی اس اشاعت میں شامل نہیں کئے گئے لیکن مخالفین کے ضمیمے اس کی اشاعت کا حصہ بنادیئے گئے۔
شائع کی جانے والی کارروائی میں بعض جگہوں پر نمایاں سرخیاں لگاکر خلاف واقعہ تأثر پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ مثلاً 30اگست 1974ء کے روز کی کارروائی کے ریکارڈ میں ایک جگہ یہ ہیڈنگ درج ہے: ’’مرزا ناصر احمد صاحب سے‘‘۔ اور پھر نیچے کچھ سوالات درج ہیں۔ تأثر یہ دیا گیا ہے کہ گویا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے یہ سوالات کئے گئے تھے اور آپؒ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس روز حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ یا جماعت احمدیہ کے وفد کا کوئی رُکن وہاں موجود ہی نہیں تھا اور نہ یہ سوالات کبھی اُن تک پہنچائے گئے۔ خدا جانے یہ سوالات کس سے کئے جارہے تھے۔
قومی اسمبلی کے قوانین میں درج ایک قاعدہ کے مطابق کسی گواہ کے بیان کا حرف بحرف ریکارڈ رکھنا ضروری ہے۔ لیکن شائع ہونے والی کارروائی میں اس قاعدہ کے برخلاف طریق اختیار کیا گیا ہے مثلاً جن مقامات پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے حوالہ کے طور پر عربی عبارت پڑھی ہے وہاں اصل عبارت کی جگہ صرف ’’عربی‘‘ لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ مولوی ظفرانصاری صاحب اور اسمبلی کے ممبران کئی مولوی صاحبان کو عربی دانی کا دعویٰ تھا۔ لیکن اگر یہ سب عربی عبارت سمجھنے سے قاصر تھے تو حسب قواعد ضروری تھا کہ جماعت احمدیہ کے وفد کو متعلقہ حصہ دکھاکر اصل عبارت درج کرلی جاتی۔ اس گروہِ مولویان کو ایسا کونسا خوف دامنگیر تھا جس نے انہیں انصاف کے اس ادنیٰ تقاضے کو پورا کرنے سے روکے رکھا!۔
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر جماعت احمدیہ اس کارروائی کی اشاعت کو مکمل یا جزوی طور پر مسترد کردے تو یہ جماعت احمدیہ کا حق ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے اس چیلنج کو نہایت جرأت سے قبول کیا ہے اور چھپائے جانے والے حقائق اور فریق مخالف کے مؤقف کی کمزوری کو تلاش کرکے نہایت خوبصورتی سے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔ بلکہ جماعت کے خلاف چلائی جانے والی معاندین کی اس خوفناک تحریک کے پس منظر اور پیش منظر سمیت قریباً تمام پہلوؤں کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کردیا ہے کہ حقیقت شناسی کا مرحلہ بہت آسان نظر آنے لگا ہے۔
1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کا پس منظر یوں ہے کہ دشمن یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے ساتھ ہی یہ جماعت ختم ہوجائے گی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی طویل علالت کے دوران مخالفین نے اپنے لٹریچر میں بارہا اس امید کا اظہار کیا تھا۔ لیکن خلافتِ ثالثہ کے آغاز کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ کی ترقیات کے نئے ابواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ مغربی افریقہ کے دورہ کے ساتھ ہی وہاں کی جماعتی ترقیات سب کے سامنے آگئیں۔ حضورؒ نے اسی دوران نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے آغاز کا اعلان بھی فرمایا اور دورہ سے واپسی پر احمدی ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا کہ ’’ہماری اس سکیم (نصرت جہاں سکیم) کا اس وقت تک جو مخالفانہ ردّعمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ … جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو تاکہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہوجائے۔ بالفاظِ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لئے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں۔ ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے‘‘۔
پاکستان میں 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مذہبی جماعتیں کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کو ہمیشہ کی طرح یہ توقع تھی کہ اُن کو ان انتخابات میں بہت بڑی کامیابی ملے گی اور وہ یہ دعویٰ کررہی تھیں کہ اقتدار ملنے کے بعد جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک دینا اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن جہاں اِن نام نہاد دینی سیاسی جماعتوں کا ماضی ایسا تھا جس سے واضح ہوتا تھا کہ انہیں پاکستان کی سلامتی اور اس کی آزادی سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے منشور کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہیں۔ وہاں مشرقی پاکستان میں صوبائی خودمختاری کے نام پر عوامی لیگ کی جیت یقینی نظر آتی تھی اور خطرہ تھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی تو مغربی پاکستان میں صوبائی سطح پر سیاسی ابتری پھیل جائے گی اور عدم استحکام پیدا ہوجائے گا۔ جس کا نتیجہ پاکستان کی کمزوری اور حکومت کی بے بسی کی صورت میں ہی نکل سکتا تھا۔
اس مرحلے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت احمدیہ سے رابطہ کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی اجازت سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے بھٹو صاحب سے ملاقات کرکے اُن کی انتخابی مہم کا جائزہ لیا۔ بھٹو صاحب کو امید تھی کہ جماعت اُن کی مالی مدد کرے گی۔ لیکن اُنہیں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے اور وہ اس طرح ایک سیاسی پارٹی کی مدد نہیں کرسکتی۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی فہرست دیکھ کر حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے کہا کہ اس میں اکثریت کمیونسٹ حضرات کی ہے اور اگر یہ لوگ بھٹو صاحب کی مقبولیت کی آڑ میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ اس پر بھٹو صاحب نے پارٹی کے سینئر لیڈروں کے مشورہ کے بعد اعلان کیا کہ یہ لسٹ حتمی نہیں ہے۔ بالآخر نئی لسٹ میں کمیونسٹ حضرات کی تعداد کافی کم تھی۔
بہرحال ان انتخابات میں احمدیوں کی اکثریت نے پیپلز پارٹی کے حق میں حق رائے دہی استعمال کیا۔ 1973ء کی جماعت احمدیہ کی ایک ہنگامی مجلس شوریٰ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے انتخابات کے حوالہ سے تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے مختلف سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ظاہری اور باطنی دعووں کو بیان فرمایا اور بتایا کہ جماعت احمدیہ نے پیپلزپارٹی سے تعاون کا فیصلہ پاکستان کے استحکام اور بہتری کی خاطر ہی کیا تھا۔ کیونکہ اکثر نام نہاد اسلامی پارٹیوں کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ احمدی اپنا حق رائے دہی کیوں استعمال کررہے ہیں اور اُن کے لئے جداگانہ طریق کار ہونا چاہئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو بھی یہ شکوہ تھا کہ جماعت احمدیہ اُن کی اتنی مدد کررہی ہے تو پوری طرح اُن کا ساتھ کیوں نہیں دیتی۔ تاہم ایک مذہبی جماعت ہونے کے ناطے جماعت احمدیہ کا تعاون پاکستان کے استحکام کی خاطر ہی تھا ورنہ کسی ایک پارٹی کی حمایت کرنے کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے تھے۔
انتخابات کے اُن ایام میں احمدیت کے خلاف سرگرم عمل نیم سیاسی مذہبی پارٹیاں ایک طرف تو باہم ایک دوسرے سے دست و گریبان تھیں اور آپس کی دشمنی میں بھی مخالفین پر یہ الزام لگارہی تھیں کہ گویا اُنہیں قادیانی جماعت کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف بھٹو صاحب سے بھی اس بارہ میں سوالات کئے جارہے تھے کہ کیا اُن کا جماعت احمدیہ سے کوئی معاہدہ ہے یا کیا وہ اقتدار میں آکر قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیں گے؟ ایسے سوالوں کا جواب بھٹو صاحب یہی دیاکرتے تھے کہ اُن کی پالیسی یہ ہے کہ ملک میں سوشلسٹ نظام رائج کریں جس میں تمام طبقوں کے عوام کا تحفظ کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ احمدیوں نے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقابلہ پر پیپلز پارٹی کی حمایت کی۔
بہرحال انتخابات میں تمام مذہبی جماعتوں کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کے بعد نام نہاد مذہبی سیاستدان چور دروازوں سے سیاسی منظر میں اور پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور اس مقصد کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک چلاکر اپنے مذموم مقاصد پورے کئے۔
بعد میں پیپلزپارٹی کے بعض مفاد پرستوں نے بھی اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے کے لئے اور اپنے سیاسی دشمنوں کو رام کرنے کے لئے احمدیوں کے جائز حقوق غصب کرنے کی باتیں شروع کردیں۔ اس دوران پاکستان کا آئین بھی منظور کیا گیا۔ یہ آئین متفقہ طور پر منظور کروانے کے لئے اراکین اسمبلی کو رشوت بھی دی گئی۔ بلکہ ایک مولوی صاحب کو بھٹو صاحب نے اپنے دفتر میں بلایا اور اُن کو دی جانے والی رشوت کی رقم دفتر میں اِدھر اُدھر پھینکی جسے مولوی صاحب گھٹنوں کے بَل رینگ رینگ کر اٹھاتے رہے۔ اور بالآخر 1973ء کا آئین متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا جس میں احمدیوں کے خلاف قانونی اور آئینی کارروائی کرنے کے لئے بطور تمہید بعض دفعات کی منظوری دی گئی۔ مثلاً آئین میں ’’ختم نبوت کا حلف نامہ‘‘ بھی شامل کرلیا گیا جو صدر اور وزیراعظم کے لئے ضروری تھا۔ اسی طرح اگرچہ اراکینِ اسمبلی کے لئے مسلمان ہونے کی شرط نہیں تھی لیکن اُن کے لئے یہ اقرار کرنا ضروری تھا کہ غیرمسلم ہونے کے باوجود وہ نظریۂ اسلامی کی حفاظت کے لئے کوشاں رہیں گے۔ گویا احمدیوں کے خلاف قانون سازی کی بنیاد دراصل 1973ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی۔
اس کتاب میں کشمیراسمبلی میں جماعت احمدیہ کے خلاف پیش ہوکر یکطرفہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد کی سرگزشت بھی بیان کی گئی ہے جس کے تحت احمدیوں پر پابندیاں لگانے کا آغاز کیا گیا۔ اس قرارداد کی منظوری پر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے تار کے ذریعہ پاکستان کے صدر بھٹو کو مبارکباد دی (گویا یہ کارنامہ صدر بھٹو نے سرانجام دیا ہو) اور انہوں نے دنیا کے مسلمان ممالک سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ اپنے ممالک میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیں۔
اس کتاب میں محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت کے خلاف عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں سے بھی نہایت عمدگی سے پردہ اٹھایا ہے اور 1974ء میں احمدیوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے تمام پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد جماعت احمدیہ کو اپنے قانون میں غیرمسلم قرار دینے والوں کے جرنیل بھٹو صاحب کے انجام کو بھی بیان کیا ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے مواد کی تیاری کے دوران متعدد افراد کے انٹرویو بھی لئے اور اُن کی آراء بھی قلمبند کرکے پیش کی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اس قرارداد اور آئینی ترمیم کا ملک اور قوم پر کیا اثر پڑا؟ تو اُن کا جواب تھا: ’’بہت بُرا اثر پڑا۔ نہایت بُرا اور دُور رَس‘‘۔ ’’آپ دیکھ تو رہے ہیں گورنمنٹ کا کیا حشر ہوا۔ ان کی پارٹی کا کیا حشر ہوا۔ اس سے بُرا ہوسکتا تھا؟‘‘۔
اس کتاب کے آخری صفحات میں 1974ء کے فیصلہ کے منطقی انجام کو مختلف حوالوں سے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ آج وہ حالات ہیں جب پاکستان میں نہ صرف فوجی مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ عام مسلمان بھی قتل و غارت کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ عمل کسی طرح بھی اسلامی نہیں کہلاسکتا۔ آج پاکستان میں مسلمان کہلانے والوں کے کردار کے بارہ میں وہاں کے اخبارات اور میڈیا کے دیگر ذرائع جو کچھ بیان کررہے ہیں وہ اہل بصیرت کی چشم کشائی کے لئے بہت کافی ہونا چاہئے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب پر تبصرہ لکھنا یا اس کے مندرجات کو خلاصۃً بیان کرنا اور پھر اس کے منتخب حصوں کو ان صفحات کی زینت بنانا یقینا کارِ دارد ہے۔ لیکن اس کتاب کا مطالعہ قاری کے ذہن میں موجود کئی نقشوں کو یکسر تبدیل کردینے کی بلاشبہ صلاحیت رکھتا ہے۔ 525 صفحات پر مشتمل A5 سائز کے بڑے صفحات کی یہ کتاب مجلّد یعنی Hard Cover کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ لکھائی اور چھپائی بہت عمدہ ہے ۔ لیکن ان ظاہری خوبیوں کے باوجود اس کتاب کا اصل تعارف خود یہی کتاب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں