خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان 28؍دسمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ قادیان اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ پورا سال جلسہ سالانہ کا انتظار رہتا ہے اور اس کی تیاری ہوتی ہے اور پھر کہیں ایک سال کے بعد جلسہ آتا ہے اور تین دن پلک جھپکتے میں گزر جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی ترقی کے لئے جو فیوض جاری فرمائے ہیں اُن میں سے ایک فیضان جلسہ سالانہ بھی ہے۔ یہ اس وقت دنیا میں ایک منفرد جلسہ ہے جس میں لوگ کسی دنیادار یا سیاستدان کی فضولیات اور دنیا داری کی باتوں کو سننے کے لئے جمع نہیں ہوتے بلکہ خالصتاً دینی اور روحانی تذکرے اور باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی محفلوں کوسننے کے لئے جمع ہوتے ہیں تا کہ تعلق باللہ اور محبتِ الٰہی میں ترقی کر کے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں مزید ترقی کریں۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھنے اور سیکھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تا کہ اپنی زندگیوں میں اس خوبصورت تعلیم کو زیادہ احسن رنگ میں جاری کر سکیں۔ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کی باتیں سننے، وہ زندگی جس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کیا خوبصورت رنگ میں فرمایا تھا کہ ’’کَانَ خُلُقُہُ الۡقُرۡاٰنُ۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل حدیث عائشۃ رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر 25108جلد نمبر8صفحہ144مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس کے تذکرے سننے اور اپنی زندگیوں میں اس پاک اسوہ کو جاری کرنے کی کوشش کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تا کہ اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن سکیں۔ ہم ان جلسوں میں زمانے کے امام مسیح و مہدی اور اللہ تعالیٰ کے پیارے اور فرستادے جس کو یہ بلند مقام عطا فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوۡلَ اللّٰہِ۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 حاشیہ درحاشیہ نمبر3 صفحہ 598)

یہ وہ آدمی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کی باتیں سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیارا اس لئے بنا لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اُس پیارے سے خدا تعالیٰ کی خاطر پیار کرتا تھا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کئے۔ پس ایسے شخص سے تعلق جوڑنا اور اُس کی باتیں سننا اس لئے کہ اس فساد زدہ زمانے میں ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں، ایسا سودا ہے جس میں نفع ہی نفع ہے۔

پس ہمارے ان جلسوں کا مقصد یہ ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سارا سال انتظار رہتا ہے۔ پس کیا ہی خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس دنیا داری کے دور میں اس نیک مقصد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور آج کل اس بستی میں جمع ہیں جو اس مسیح و مہدی کی بستی ہے جسے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ تمام شاملینِ جلسہ نے یہ باتیں اپنے پیشِ نظر رکھتے ہوئے جلسے کے یہ تین دن گزارے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جلسے کی برکات جھولیاں بھر بھر کر ساتھ لے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔

پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر اس جلسے کا انتظار رہتا ہے کہ قریب ہونے کی وجہ سے اور آجکل دونوں ملکوں کے حالات بھی کچھ بہتر ہیں تو اس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں اُن کو جلسے میں شامل ہونے کی توفیق مل جاتی ہے۔ گو تعداد پھر بھی محدود رہتی ہے لیکن باری باری ہر سال جانے سے کچھ نہ کچھ حد تک تو اُس محرومی کا مداوا ہو جاتا ہے، کچھ حد تک تو تشنگی کم ہو جاتی ہے جو پاکستان کے احمدیوں کو پاکستان میں جلسہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس میں یہ بھی اُمید کرتا ہوں کہ اس محرومی کے ختم ہونے کے لئے پاکستان کے احمدیوں نے خاص طور پر اپنے یہ دن دعاؤں میں گزارے ہوں گے اور بہت دعائیں کی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ان محروموں کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ عطا فرمائے۔ اسی طرح عموماً باقی شاملین کی دعائیں بھی خد اتعالیٰ قبول فرمائے۔

پس شاملین نے جو کچھ یہاں سنا ہے اور جو پاک تبدیلیاں اپنے اندر محسوس کی ہیں خدا کرے یہ سب اُن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔ جب تک یہ عارضی تبدیلیاں ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ نہیں بنیں گی، ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مورد نہیں بن سکتے۔ پس خدا تعالیٰ نے ہم پر جو ذمہ داری ڈالی ہے ہمیں بہر حال اُسے نبھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

آج ان فسادوں سے جو دنیا میں برپا ہیں ہم نے صرف اس لئے بچنے کی کوشش نہیں کرنی کہ ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں بلکہ دنیا کی رہنمائی اور شر سے بچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لئے بھی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ آج دنیا کو ہر قسم کے فساد سے بچانے اور خدا تعالیٰ کے حضور حقیقی رنگ میں جھکنے والا بنانے کی ذمہ داری احمدیوں کی ہے جنہوں نے اس زمانے کے امام کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ عہد کیا ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں گے اور نوعِ انسان کی اس سے زیادہ بھلائی اور کس چیز میں ہے کہ ہم اُسے خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنا دیں تا کہ وہ تباہ ہونے سے بچ جائیں۔ اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کو پاکر، اُس کی بیعت میں شامل ہو کر اُس حقیقی اسلام کو پا لیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور ہم اُس اسلام کی اس حقیقت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ کریم کی صورت میں اتارا تھا تو پھر ہمیں اپنے ہر عمل میں اور ہر قول میں تقویٰ پیدا کرنا ہو گا۔ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت دل میں پیدا کرنی ہو گی۔ اپنی ذاتی اناؤں اور مفادات کو انسانیت کی بھلائی اور بقا کے لئے قربان کرنا ہو گا۔ آج احمدی ہی ہے جو تقویٰ کی حقیقی روح کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ ہمیں ہی وہ حقیقی رہنمائی اس زمانے میں ملی ہے جس کی خوشخبری ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡھُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡابِھِمۡ (سورۃالجمعہ:4)کہہ کر عطا فرمائی تھی اور ہم ہی وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا ہے۔

پس تقویٰ جو دنیا سے مفقود ہے اسے دنیا میں قائم کرنا جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے۔ اگر ہم نے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اس کے لئے کوشش نہ کی تو ہمارے دعوے اور ہمارے جلسے اور جلسوں میں شامل ہونے کے ذوق و شوق بے فائدہ ہیں۔ ہم احمدی کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے حبل اللہ کے تمام سامان مہیا فرما دئیے ہیں۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم نبی عطا فرمایا جو ہمارے لئے اُسوہ حسنہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔ (سورۃالاحزاب:22) یقیناً تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک پاک نمونہ ہے اور پھر آپؐ سے یہ اعلان کروا کر کہ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔ (آل عمران:32) کہ میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا، واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رسّی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے اسوہ پر چل کر اور جن سے محبت کر کے تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہو۔ پس اس خاتم الانبیاء کے ساتھ سچا عشق و محبت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رسّی کا مضبوطی سے پکڑنا ہے۔

 پھر حبل اللہ قرآنِ کریم ہے جو آخری شرعی کتاب ہے، جو کامل اور مکمل کتا ب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تفصیل بیان ہوئی ہے جن کی ادائیگی سے بندہ خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے، اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔

 ایک روایت میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآنِ کریم وہ رسّی ہے جس کا ایک سرا آسمانوں پر ہے اور دوسرا سرا زمین پر۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب عن رسول اللّٰہ ﷺباب مناقب اھل بیت النبی ﷺ حدیث نمبر3788)

اور پھر ہم احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی بہت بڑا احسان ہے کہ اس حبل اللہ کے تیسرے حصے کو بھی ہمیں پکڑا دیا اور وہ ہے خاتم الخلفاء کا مسیح موعود اور مہدی موعود کی صورت میں آنا۔

پس قرآن، نبوت اور خلافت حبل اللہ کو مکمل کرتی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے ذریعہ سے خلافت کے نظام کو جاری فرمانا جس کا قیام منہاجِ نبوت پر ہے۔ اس وقت احمدیوں کے علاوہ تمام مسلمان مسلم امّہ کہلانے کے باوجود حبل اللہ کے اس تیسرے حصے کو پکڑنے سے محروم ہیں۔ ایک یہ انعام بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ لیکن ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ دوسرے محروم ہیں اورہم اس رسّی کو پکڑنے والے ہیں۔ اس حبل اللہ کو پکڑنے کا صحیح طریق یا صحیح حق ادا کرنے والا بننے کے لئے ہمیں بھی اُن تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر بستے ہیں اس حبل اللہ سے جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہم نے کوشش کرنی ہے انشاء اللہ۔ عشقِ رسولِ عربی کا ہمارا دعویٰ بے وقعت ہو گا اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والے ہر شخص کو آپ کے اس غلامِ صادق سے منسلک کرنے کی کوشش کرنے والے نہیں بنتے جس کے سپرد خدا تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ تمام فرقے بندیوں کو ختم کر کے صرف ایک امت کا قیام کرو۔ وہ امّت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی جس کا رنگ ہمیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ

               ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیۡنٍ وَّاحِدٍ۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 490 ایڈیشن چہارم 2004ء)

 پس دینِ واحد پر جمع کرنے کی ذمہ داری آج مسیح موعود کے ماننے والوں کی بھی ہے تا کہ ہر قسم کی تفرقہ بازی کا خاتمہ ہو، تاکہ شانِ محمدی اور نورِ محمدی ایک نئی شان سے دنیا پر چھا جائے۔

 پاکستان کے احمدی ملکی قانون اور سختیوں کی وجہ سے زمانے کے امام کا پیغام اگر پہنچا نہیں سکتے تو دعاؤں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر کر کے محروموں اور پیاسوں کے روحانی پانی سے فیضیاب ہو کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کی توفیق پانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھیک مانگیں تا ان لوگوں کی اصلاح ہو۔ جب ہر احمدی کی دعائیں اجتماعی رنگ میں خدا تعالیٰ تک پہنچیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ ان سخت دلوں کے دل بھی ایک دن نرم ہوں گے۔ روحانی نابیناؤں کی آنکھوں میں بھی روشنی آئے گی۔ پس ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور پھر یہیں پر بس نہیں۔ محسنِ انسانیت اور رحمۃ للعالمینؐ تو تمام دنیا کو خدائے واحد کی پہچان کروانے کے لئے تشریف لائے تھے تاکہ دنیا ہر قسم کے فسادوں اور جنگوں سے بچے۔ تا کہ دنیا کے لوگ اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔ تا کہ دنیا میں محبت سکون اور بھائی چارے کا قیام ہو اور اسی مقصد اور مشن کو آگے چلانے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ یہ بھی آپ کی بعثت کا ایک مقصد ہے۔

آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم ہر کوئی افراتفری اور فساد کا شکار ہے۔ حقوق اللہ کی تلفی تو ہو ہی رہی ہے، حقوق العباد کی تلفی بھی انصاف اور امن کے نام پر دنیا میں ہر جگہ ہمیں نظر آتی ہے۔ انصاف اور امن ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ دنیاوی لالچیں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ دوسرے کی دولت کو حرص اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں افراد بھی شامل ہیں جن کی حرص اپنی تمام حدوں کو پھلانگ رہی ہے اور اس میں حکومتیں بھی شامل ہیں۔ آج دنیا میں ہر جگہ فساد اسی وجہ سے ہے اور یہ فسادات اسی بات کا نتیجہ ہیں۔ پس ہم نے مسلمانوں کو بھی ہدایت کی طرف رہنمائی کرنی ہے جو فرقہ بازی میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ اکثر عرب ملکوں کو بھی فرقہ واریت اور حکومت پر قبضہ کی خواہش اور حقوق کی پامالی نے فساد میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ جتنے فسادات آجکل وہاں ہو رہے ہیں اسی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ اور دنیا میں دوسری جگہ بھی ہمیں لالچ اور حقوق کی پامالی، فساد کی وجہ نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں ایک امید گاہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے یکساں حقوق کی ضمانت دیتی ہے، جو معاشرے کے امن کی ضمانت دیتی ہے، جو محبت، پیار اور بھائی چارے کے قیام کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ امید گاہ آج بھی اُسی طرح اُن تمام باتوں کے قیام کی ضامن ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے تھی۔ آج سے چودہ سو سال پہلے ظَھَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ۔ (الروم:42) میں محبت، پیار اور بھائی چارے کا قیام کر کے ایک دنیا کو حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا بنا دیا تھا۔ معاشرے میں امن کے قیام کے لئے ظلم کی انتہا کرنے والوں اور حیوان صفت انسانوں کی بربریت کے انتہائی نمونے قائم کرنے والوں کے مقابل پر اپنی تعلیم کے نیچے آنے والوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اور برداشت کے وہ اعلیٰ نمونے قائم کروائے کہ جو رہتی دنیا تک بے مثال نمونے بن کر انسانیت کو اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر و رضا کی دعوت دیتے رہیں گے۔

امن کے لئے آپؐ نے کیا کیا کوششیں کیں ؟ تاریخ اسلام اس سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں مختلف قسم کے طبقوں ، دوسرے مذہب اور گروہوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ حکومت تھے۔ آپ نے تمام قسم کے گروہوں کو ایک رکھنے کے لئے، معاشرے کے امن کے قیام کے لئے، ترقی کے لئے، ظلم کو ختم کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے لئے ایک معاہدہ کیا۔  اور وہاں کیونکہ یہودیوں کی تعداد زیادہ تھی، یہودیوں سے بھی علیحدہ معاہدہ ہوا جس کی بعض موٹی شرطیں یہ ہیں۔

 یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت سے مل کر رہنا ہو گا۔ مسلمان اور یہودی دونوں اپنے اپنے مذہب کے پابند رہیں گے۔ یہودی اور مسلمان دونوں ایک دوسرے گروہ اور فرد کے ساتھ صلح اور نصیحت پر عامل رہیں گے، یعنی اُس پر عمل کریں گے اور صلح اور نصیحت میں کسی قسم کی رخنہ اندازی درمیان میں نہ آنے دیں گے۔

 پھر فریقین میں سے کوئی فرد یا جماعت دوسرے فریق کی حق تلفی گوارا نہیں کرے گی بلکہ ایک دوسرے کے گروہ کے مظلوم کی حمایت کرنا اُس کا فرض ہو گا۔ پھر یہ کہ ہر فرد اپنے ہمسائے کی طرفداری اپنے نفس کی مانند کرتا رہے گا۔ پھر فرمایا کہ دشمن سے صلح کی صورت میں اگر کسی نوع کی منفعت ہو گی تو مسلمانوں کی مانند دوسرے شرکائے قرار داد بھی اس سے نفع اُٹھانے والے ہوں گے۔

(سیاسی وثیقہ جات از عہدِ نبوی تا بہ خلافتِ راشدہ از ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی صفحہ:22تا24 مطبوعہ مجلس ترقیٔ ادب لاہور طبع اول 1960ء)

پس قیامِ امن کی یہ انتہائی انصاف پر مبنی کوشش ہے جو معاشرے کے امن کی ضمانت ہے اور جو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں دیکھتے ہیں۔

پھر ایک اَمان نامہ جو نجران کے عیسائیوں کو دیااُس کی انصاف پسندی کا معیار بھی دیکھیں۔ جس کے چند پہلو یہ ہیں۔

ایک یہ کہ اُن کے دشمنوں سے اُن کی سرحدوں کی حفاظت اپنے گھڑ سوار اور پیدل مسلح اور زور آور مسلمانوں سے کروں گا۔

 فرمایا: ان کے اطراف کا تحفظ اور اُن کے دشمنوں سے اُن کی حفاظت کروں گا۔

پھر فرماتے ہیں : اُن کے گرجے، عبادت خانے، خانقاہیں اور مسافر خانے خواہ وہ پہاڑوں میں ہوں یا کھلے میدان میں یا تیرہ و تار غاروں کے اندر ہوں یا وادیوں میں گھرے ہوئے ہوں یا وادیوں کے دامن اور ریگستان میں ہوں ، سب کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔

 فرمایا: ان معاہدین اور ان کے ہم مَشرب گروہ کے عقائد و رسومِ مذہب کے تحفظ میں میری ذمہ داری ہے۔

 فرمایا: یہ لوگ خشکی اور بحری شرق و غرب کے کسی حصے میں کیوں نہ ہوں ان کے لئے میرے ساتھ مسلمانوں کا ہر فرد اس اَمان نامے کا پابند ہے۔

 فرمایا: ان کے رعایا میں شامل ہونے سے بھی اُن کا محافظ ہوں ، (یعنی میری رعایا میں شامل ہیں میں اُن کا محافظ ہوں ) اور میرے ساتھ میرے وہ ساتھی بھی اس میں شامل ہیں جو اسلام کی طرف سے مدافعت پر سینہ سپر ہیں۔

 فرمایا: کوئی مصیبت اُن کا تعاقب کرے ہم اُسے اُن تک نہیں پہنچنے دیں گے۔

 آگے فرماتے ہیں کہ ہم اپنی جنگی مہموں میں اُنہیں اُن کی رضا مندی کے بغیر شریک نہیں کر سکتے۔

پھر یہ کہ ان کے پادری، راہب اور سیاح جن مناصب پرہیں اُنہیں معزول نہیں کروں گا۔

پھر فرمایا کہ ان کی عبادتگاہوں میں بھی مداخلت نہ کروں گا۔ پھر ایک یہ شرط ہے کہ نہ اُنہیں مہمان سرائے کے طور پر استعمال کروں گا۔

اُن کے علماء و زہاد اور مذہبی سربراہ خواہ کھلے میدان یا پہاڑوں میں ہوں، اُن پر سے جزیہ و خراج دونوں معاف ہیں۔

 ذمی کو مسلمانوں کی حمایت میں جنگ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ وہ ہمارے پناہ گزین ہیں جو اپنی اَمان کا عوض ادا کرتے ہیں۔

 پھر ایک یہ کہ اگر وہ اپنی عبادتگاہوں اور خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت کرنا چاہیں اور مسلمانوں سے مالی اور اخلاقی امداد کے طلبگار ہوں تو ان کی اعانت کرنا ہی چاہئے۔ یہ اعانت اُن پر قرض اور احسان نہ ہو گی بلکہ اس میثاق کی تقویت ہو گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ احسان وکرم اُن سے کیا ہے۔

(سیاسی وثیقہ جات از عہدِ نبوی تا بہ خلافتِ راشدہ از ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی صفحہ:108تا112 مطبوعہ مجلس ترقیٔ ادب لاہور طبع اول 1960ء)

 پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اُسوہ ہے جو امن قائم کرنے کے لئے آپ نے دکھایا، جو امان دینے کے لئے آپ نے اختیار کیا، جو محبت اور پیار پھیلانے کے لئے آپ نے دکھایا۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اُسوہ ہمیں محبتوں کو پھیلانے اور انسانی قدروں کے قائم کرنے کے لئے نظر آتا ہے۔ کیا آجکل ہمیں مسلمان امّت میں سے کسی میں بھی یہ نظر آتا ہے۔ حُبِّ پیمبری کے دعوے تو بڑے ہیں۔ کہاں تو یہ اسوہ کہ غیر مذہب والوں کے جان و مال اور عزت کی ضمانت دی جا رہی ہے اور کہاں یہ حال ہے کہ غیر مذہبوں سے حسنِ سلوک تو علیحدہ رہا جو حکومت میں آتے ہیں اُن سے اپنے ہم مذہبوں کے دوسرے فرقوں کی جان و مال بھی محفوظ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا مسلمان ملکوں میں ذاتی ہوس نے اور فرقہ بندی نے ان مسلمانوں کو اندھا کیا ہوا ہے اور ایک دوسرے کا بے دریغ قتل ہو رہا ہے۔ ماننے والے تو اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں جس نے اپنے ایک ماننے والے کو اس بات پر سخت سرزنش کی تھی کہ تُو نے ایک کلمہ گو کو قتل کر دیا۔ اس کے اس جواب پر کہ اُس نے جس شخص کو قتل کیا تھا اُس نے خوف کے مارے کلمہ پڑھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تُو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ خوف سے پڑھا ہے یا دل سے؟

(مسند احمد بن حنبل حدیث عمران بن حصین حدیث نمبر20179 جلد6صفحہ 706مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

لیکن آج یہ علماء اور جو لیڈر بنے پھرتے ہیں ان کا ایک طبقہ ہے جو عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ احمدی دل سے کلمہ نہیں پڑھتے۔ اس لئے جو ظلم ان پر روا رکھا جا سکتا ہے رکھو۔ پھر ناموسِ رسالت کے نام پر جس مذہب والے کو چاہیں پھانسی پر لٹکا دیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خود ہی نپٹے جو انسانیت کے نام کو داغدار کر رہے ہیں۔ امن کی ضمانت دینے والے کے نام پر ظلموں کے بازار گرم کر رہے ہیں۔ پر خدا کی بے آواز لاٹھی سے ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے جو ظلموں کی انتہا کی وجہ سے جب پڑتی ہے تو پھر کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ مسلمان ممالک میں جہاں یہ باتیں بھی اب سامنے آنے لگ گئی ہیں کہ جس فرقے کی حکومت ہے وہ تو دوسرے فرقے کو تکلیفیں دینے کی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہندوستان جو سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، یہاں بھی مسلمانوں نے وہی حرکتیں شروع کر دی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ احمدیوں کے جلسے بند کرو۔ احمدیوں کی قرآنی نمائش بند کرو۔

اب ہمارے اس جلسہ سالانہ قادیان سے پہلے کئی جگہ یہ مظاہرے ہوئے اور مطالبے ہوئے کہ احمدیوں کے ٹی وی پروگرام بند کرو۔ احمدیوں کی انسانیت کے لئے خدمات کو روکو۔ احمدیوں کو خدائے واحد کی عبادت سے روکو۔ ان کے نعروں سے احمدیوں کا کچھ نہیں بگڑ سکتا اور حکومتوں کو مدد کے لئے پکارنے سے احمدیت کی ترقی نہیں رُک سکتی۔ احمدی خدائے واحد کی عبادت سے کبھی نہیں رُک سکتے اور نہ احمدی محسنِ انسانیت اور رحمۃ للعالمینؐ کے اُسوہ پر عمل کرنے سے رُک سکتے ہیں۔ کئی ایسے جابر، ظالم، فرعون صفت لوگ اور حکومتیں آئیں اور وہ دنیا سے حسرت لئے رخصت ہو گئیں۔ بلکہ ایسے لوگ اپنے بدانجام کے نظارے دیکھتے ہوئے بھی گئے لیکن احمدیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی منزلوں کی طرف، ترقی کی طرف رواں دواں ہے اور ہمیشہ رہے گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہی احمدیت کا مقدر ہے۔ لیکن ہندوستان کے انصاف پسند طبقے سے میں کہتا ہوں کہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اگر کسی بھی مذہب والے کو شدت پسندی کرنے کی اجازت دے دی تو یہ ملک بھی بدامنی کا شکار ہو جائے گا۔ یہاں بھی سیکولر ہونے کے دعوے ختم ہو جائیں گے اور بدامنی اور سیاسی گراوٹ اور اخلاقی گراوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے اپنے اربابِ اہل وقت کو کہیں کہ اگر ملک کی ترقی اور امن چاہتے ہو تو ہر قسم کی شدت پسندی کے خاتمہ کی بھر پور کوشش کرو۔

 اب میں پھر اسلام کی امن پسند تعلیم کی طرف آتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم اُسوہ پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں :

   ’’سورہ حج پارہ سترہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّھُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡھَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا (الحج:41) یعنی اگر خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکرِ خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔ اس جگہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ اُن تمام عبادتخانوں کا مَیں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو ان کے عبادتخانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے۔ کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادتخانوں اور فقراء کے خلوتخانوں سے تعرض نہ کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصّب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے۔ ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اُس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظتِ خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دے دیا ہے۔ ‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ393-394)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ :۔

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطرناک دکھ اُٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی مدافعت کے طور پر۔ تیرہ برس تک اُن کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اُٹھاتے رہے۔ مسلمان مرد اور عورتیں شہید کی گئیں۔ آخر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لیے کہ شریروں کی شرارت سے مخلوق کو بچایا جائے اور ایک حق پرست قوم کے لیے راہ کھل جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے لیے بدی نہیں چاہی۔ آپ تو رحم مجسّم تھے۔ اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے پورا تسلّط حاصل کر لیا تھا اور شوکت او ر غلبہ آپ کو مل گیا تھا تو آپ اُن تمام ائمۃالکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دُکھ دیتے رہتے تھے قتل کرو ا دیتے اور اس میں انصاف اور عقل کی رو سے آپ کاپلّہ بالکل پاک تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ عُرفِ عام کے لحاظ سے اور عقل اور انصاف کے لحاظ سے آپ کو حق تھا کہ ان لوگوں کو قتل کروا دیتے مگر نہیں ، آپؐ نے سب کو چھوڑ دیا۔ آج کل جو لوگ غدّاری کرتے ہیں اور باغی ہوتے ہیں انہیں کون پناہ دے سکتا ہے۔ جب ہندوستان میں غدر ہو گیا تھا اور اس کے بعد انگریزوں نے تسلّطِ عام حاصل کرلیا تو تمام شریر باغی ہلاک کر دیئے گئے اور ان کی یہ سزا بالکل انصاف پرمبنی تھی۔باغی کے لیے کسی قانون میں رہائی نہیں۔ لیکن یہ آپ ہی‘‘ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم) ’’کا حوصلہ تھا کہ اس دن آپ نے فرمایا کہ جاؤ تم سب کو بخش دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نوعِ انسان سے بہت بڑی ہمدردی تھی، ایسی ہمدردی کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی۔ اس کے بعد بھی اگر کہا جاوے کہ اسلام دوسروں سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا تو اس سے بڑھ کر ظلم اَو رکیا ہوگا؟ یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ جس قدرانسان متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ218-219 ، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہمیں اس بارے میں تو ذرا بھی شک نہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو دنیا میں قیامِ امن کا ضامن ہے اور کبھی بد امنی کے لئے اس نے کوئی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے اور اُسوہ سے اور اُن کے زمانے سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ کبھی اسلام نے مذہب کے پھیلاؤ کے لئے حملے کئے ہوں اور بدامنی دنیا میں پیدا کی ہو۔ ہاں جب اسلام پر حملے ہوئے تو اُس کے جواب دئیے گئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بنی نوع انسان کی ہمدردی ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ اور یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ کے عمل سے یا آپ کے صحابہ کے عمل سے کبھی یہ ثابت ہو کہ انہوں نے بدامنی پھیلائی ہو یا انسانیت کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ہو کیونکہ آپؐ وہ نبی ہیں جن کا خُلق قرآن کی تعلیم ہے۔ اور قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ

               یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا اِعۡدِلُوۡا ھُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔(المائدۃ:9)

 اے وہ لوگوجو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

 پس اگر ہم اُسوۂ رسول پر چلنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں تو کسی قوم کی دشمنی بھی ہمیں انصاف کے قیام سے روک نہیں سکتی۔ دنیا کی کوئی کوشش ہمیں قیامِ امن سے روک نہیں سکتی۔ آپؐ نے محبت پھیلانے کے لئے اپنے بدترین دشمنوں کو بخش دیا تھا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جن کو سزا دینا عین انصاف کے مطابق تھا، اُنہیں بھی بخش دیا تھا۔ (ماخوذ از چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23صفحہ234) تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے۔ پس آپ سے محبت رکھنے والا اور آپ ؐ کی اتباع کرنے والا کوئی حقیقی مومن انصاف کی پامالی نہیں کر سکتا۔ اور جو لوگ انصاف کی پامالی کرنے والے ہیں اُن کے دلوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآنِ کریم ہی آخری شریعت ہے۔ شرعی کتاب ہے جو ہر لحاظ سے مکمل اور کامل ہے۔ کبھی خدا تعالیٰ اس کو ضائع ہوتے دیکھ نہیں سکتا۔اسی لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود و مہدی معہود کو بھیجا ہے تا کہ تقویٰ دلوں میں قائم ہو۔ آخری کامل اور مکمل دین کے ماننے والوں کو یہ خوشخبری دی کہ آخرین پہلوں سے ملیں گے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور آج ہم جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کے ذریعہ سے اُمّتِ واحدہ بننے کے نظارے دیکھ رہے ہیں۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے انصاف اور امن کے قیام کی کوشش کرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے قیامِ امن اور صلح اور آشتی اور بھائی چارے اور سب سے بڑھ کر توحید کے قیام کے لئے کوششوں کو پڑھ اور سُن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اُس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مُریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اُس کے چھڑانے کیلئے مدد نہیں کرتا تو مَیں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسلام اس قوم کے بدمعاشوں کا ذمہ وار نہیں ہے۔ بعض ایک ایک روپیہ کی لالچ پر بچوں کا خون کر دیتے ہیں۔ ایسی وارداتیں اکثر نفسانی اغراض سے ہوا کرتی ہیں اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیز گاری سیکھنے کیلئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں۔ مَیں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں۔ ہاں جہاں تک ممکن ہے اُن کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں۔ اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے، نہ کسی اور عدالت میں۔اور باایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے۔‘‘

(سراج منیر روحانی خزائن جلد12صفحہ28)

 پھر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ ایک جگہ مزید فرماتے ہیں :

 ’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُن کو مناسب ہے کہ اُن کی گالیاں سن کر برداشت کریں ‘‘۔ (یعنی دشمنوں کی، مخالفین کی گالیاں سن کر برداشت کریں )۔ ’’اور ہر گزہر گز گالی کاجواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور بر دا شت کا نمو نہ ظا ہر کر یں اور اپنے اخلا ق دکھائیں۔ یقینا یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطر نا ک د شمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آ تا ہے تو عقل قا ئم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبرکر تاہے اوربرد باری کا نمو نہ دکھا تا ہے اُس کو ایک نور دیا جا تا ہے جس سے اُس کی عقل وفکر کی قوّ تو ں میں ایک نئی رو شنی پیدا ہو جا تی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصّہ اور جوش کی حا لت میں چو نکہ د ل و دما غ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہو تی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ132، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر احمدی سے توقع کی ہے کہ یہی چیز ہمیں اُس نور کو حاصل کرنے والا بنائے گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جس کی اس زمانے میں تجدید آپؐ کے عاشقِ صادق نے کی۔ آج آپ کی بیعت میں آنے والوں کی جماعت ہی ہے جو دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم صرف بیعت میں آنے کا دعویٰ کر کے دنیا کو امن دے سکتے ہیں ؟ نہیں۔ اس کے لئے ہمیں اُس درد کو سمجھنا ہو گا جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے تھا اور جو امام الزمان ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس درد کو سمجھتے ہوئے اپنے دلوں سے پیار ، محبت اور انسانی قدروں کے سَوتے جاری کرنے ہوں گے۔ دلوں کی کدورتوں اور محبتوں کو ہر چھوٹی سے چھوٹی سطح پر ختم کرتے ہوئے وہ چشمے جاری کرنے ہوں گے جو دنیا کو زندگی بخش ٹھنڈا پانی مہیا کریں ، جو قلب و روح کی تسکین کا باعث بنیں ، جو جسمانی سکون بھی مہیا کریں اور روحانی سکون بھی مہیا کریں۔ ہمیں اپنے ہر عمل سے دنیا کو ظلم سے محفوظ رکھنے کیلئے کوشش کرنی ہو گی۔ ہمیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اور جو آیت میں نے پڑھی اُس میں بھی ذکر آتا ہے، ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہو گا۔ اگر یہ سب ہو گا تبھی ہم محسنِ انسانیت کے حقیقی محب بن سکیں گے۔ تبھی ہم رحمۃ للعالمین کے غلامِ صادق کے مشن کو آگے لے جانے والے بن سکیں گے۔ معاشرے میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ظلموں کو روکنے کے لئے ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی ہوگی۔ ہمارا یہاں جلسہ میں شامل ہونا تبھی فائدہ مند ہو گا جب ہم اپنے ایمان کو اعمالِ صالحہ کے ساتھ مضبوط کریں گے اور جیسا کہ میں نے کہا سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنی دعاؤں سے اپنی سجدہ گاہوں کو تَر کریں گے۔ ہماری دعائیں اپنے آپ کو ظلموں سے بچانے کے لئے نہیں ہوں گی بلکہ اپنے دل میں انسانیت کا درد رکھتے ہوئے ہم انسانیت کے لئے دعائیں کریں گے۔خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے دعائیں کریں گے۔ اپنی کوششوں کے ساتھ دنیا کو خدائے واحد کے قدموں میں ڈالنے کے لئے دعائیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کی مخلوق کے دل نرم ہونے کے لئے دعائیں کریں گے۔ رحمۃ للعالمینؐ کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لئے دعائیں کریں گے کہ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ اسی میں دنیا کی بقا ہے۔ اسی سے دنیا میں امن، محبت قائم ہو گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں اور کوئی طریق نہیں جو دنیا کو امن و محبت کے اسلوب سکھائے۔

 آجکل دنیاوی حکومتیں کہتی ہیں کہ ہم امن کی خاطر جنگ کر رہے ہیں۔ ہم انسانیت کو ظلموں سے بچانے کے لئے ہتھیار دے رہے ہیں۔ یہ سب غلط ہیں۔ یہ جھوٹے ہیں۔ اُن کے پیشِ نظر صرف اور صرف ذاتی مفادات ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جا کر جنگ کرنا صرف اس لئے ہے کہ دوسرے کی دولت پر نظر ہے۔ دولت کا حصول اصل مقصد ہے نہ کہ مقصد اَمن قائم کرنا ہے۔ یہ اپنی طاقت کا اظہار ہے اور دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش ہے۔ پس یہ ذاتی مفادات ہیں جو امن کے نام پر جنگوں کے محاذ کھول رہے ہیں۔ جو آزادی رائے اور آزادی ضمیر کی مدد کے نام پر دوسرے ملکوں میں اپنے اڈے قائم کر رہے ہیں یا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کے دنیاوی مفادات ہیں۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے دور ہیں اسلئے یہ دنیا دار انصاف کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے اور یہی ہم ان کے عملوں سے دیکھ رہے ہیں اور یہی دنیا میں ہمیں آجکل نظر آ رہا ہے۔ انصاف کے نام پر انسانیت کا خون ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں نئے سے نئے دہشت گرد گروہ پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں اور دنیا خوفناک تباہی کو آواز دیتی چلی جا رہی ہے۔

 پس اے مسیح محمدی کے غلامو! یہ آج تمہاری ذمہ داری ہے کہ اپنے عملوں سے، اپنی دعاؤں سے دنیا کے امن کو بحال رکھنے اور قائم رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ کو اس طرف پھیرتے ہوئے بھر پور کوشش کرو۔ امام الزمان کی اس بستی سے جہاں آپ اپنی روحانی بہتری کے لئے جمع ہوئے ہیں یہ عہد کر کے اُٹھیں کہ ہم اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر کے یہاں سے جائیں گے اور خدائے واحد و یگانہ سے وہ تعلق پیدا کریں گے جس سے جلد تر دنیا میں وہ انقلاب پیدا ہو جس سے دنیا مفاد پرستی اور بد امنی میں ڈوبنے کی بجائے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والی بن جائے کہ یہی وہ اہم مقصد تھا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور یہی وہ اہم مقصد ہے جس کے حاصل کرنے کے لئے آپ نے ہم سے بیعت لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

  اس کے بعد دعا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ خیریت سے آپ لوگوں کو اپنے گھروں میں لے جائے۔ راستے کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔ واپسی کے سفر کو بھی صدقات سے شروع کریں اور دعاؤں میں گزاریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔ درویشانِ قادیان اور اُن کی اولادوں کو، اسی طرح پاکستان کے احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ دنیا کے تمام احمدیوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ کسی بھی طرح ، کسی بھی قسم کی مشکل میں گرفتار لوگوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ دکھی انسانیت کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر فضل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں