خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ بروزہفتہ23؍جولائی 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج کے دن اس وقت اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر دورانِ سال فضلوں اور احسانوں کی جو بارش ہوئی ہے اُس کا تذکرہ ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُس کا مختصر تذکرہ ہوتا ہے۔ اس مختصر خلاصے کو جو تیار کیا گیا ہے اگرمَیں اس سارے کو آپ کے سامنے پیش کروں تو تب بھی شاید چھ سات گھنٹے لگ جائیں۔ لیکن اس خلاصے کا میں مزید خلاصہ نکالنے کی کوشش کروں گا تا کہ جلد ختم ہو کیونکہ اتنا عرصہ بیٹھنا مشکل ہے۔
نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 200ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے۔ 1984ء کے آرڈیننس کے بعد سے 27سالوں میں جبکہ مخالفین نے اپنا پورا زور لگایا۔ مختلف جگہوں پر خاص طور پر پاکستان میں اور انڈونیشیا میں احمدیت کی مخالفت کی انتہا کر دی۔ ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک احمدیوں سے روا رکھا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا ہے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے پیار کرنے والوں کے ساتھ ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو ہر آن اور ہر لمحہ پورا کرتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ 27سال میں 109ممالک جماعت احمدیہ کو عطا فرمائے ہیں۔
دو نئے ممالک چلی اور بارباڈوس اس سال جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔
چلّی(Republic of Chile) لاطینی امریکہ کا ایک خوشحال ملک ہے۔ کچھ مہینے پہلے وہاں ایک کان کا منہ بند ہونے سے، کان گرنے سے اس ملک کی بڑی مشہوری ہو گئی تھی۔ تیس بتیس آدمی کئی دن تک اندر ٹریپ(Trap) رہے۔ بہر حال چلّی نئے شامل ہونے والوں میں سے ہے۔ اس کے ہمسایہ ملک میں ارجنٹائن، پیرو، اور بولیویا ہیں۔ یہاں سپینش زبان بولی جاتی ہے۔ چلّی میں ایک عرصے سے جماعت کے نفوذ کے لئے کوشش ہو رہی تھی۔ 1998ء میں سپین سے ڈاکٹر عطا الٰہی منصور صاحب جو مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے بیٹے ہیں چلّی گئے تھے تومختلف لوگوں سے رابطے کئے، لٹریچر تقسیم کیا۔ پھر اس سال 2011ء میں گوئٹے مالا سے ہمارے مبلغ عبدالستار خان صاحب وہاں گئے۔ داؤ دصاحب جو سیکرٹری تبلیغ ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ تھے۔ان دونوں نے چلّی کا دورہ کیا اور جو پرانے زیرِ تبلیغ افراد تھے اُن سے رابطہ کیا۔ چلّی کی دو یونیورسٹیز میں قرآنِ کریم ، اسلامی اصول کی فلاسفی، مسیح ہندوستان میں اور دیگر کتب سپینش ترجمہ کے ساتھ دیں اور دیگر لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ چند سال قبل چلّی کی ایک خاتون مسز نورا نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُنہیں حجاب لینے کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کے بعد ملازمت سے نکال دیا گیا۔ وہاں مختلف اماموں کے پاس وہ گئیں۔ مسلمانوں نے کہا ہم تو مدد نہیں کر سکتے۔ خیر اُنہوں نے کیس کیا اور ہائی کورٹ نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا اور جس جگہ ملازم تھیں اُن کو کہا کہ اِن کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ (کورٹ نے) اُس کمپنی سے اِن کودس ہزار ڈالر جرمانہ ادا کروایا۔ جب ہمارے مبلغ کا اِن خاتون سے رابطہ ہوا تو دو روز تک ان خاتون سے تبلیغی گفتگو ہوتی رہی۔ اُنہوں نے لٹریچر دیا جو اُنہوں نے پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قبولِ احمدیت کی توفیق بخشی۔ اس طرح یہ پہلی چلّین احمدی خاتون ہیں اورچلّی میں احمدی ہوئی ہیں۔
اس کے بعد فروری 2011ء میں کینیڈا سے ایک واقفِ عارضی خالد مجید صاحب نے دورہ کیا۔ اور پھر انہی خاتون کے ذریعے سے مزید رابطے ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور خاتون کواحمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی جنہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی۔ پھر اسی طرح ایک اور خاتون نے احمدیت قبول کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب چلّی میں سات مقامی افراداحمدیت قبول کر چکے ہیں۔
بارباڈوس (Barbados)۔ یہ ملک بھی ویسٹ انڈیز کے ممالک میں سے ایک ہے۔ چھوٹا سا ملک ہے۔ دو لاکھ ترپن ہزار کی تھوڑی سی آبادی ہے۔ یہاں جماعت کا نفوذ ٹرینی ڈاڈ (Trinidad)کے ذریعہ 2009ء میں ہوا تھا۔ تبلیغی رابطے قائم ہوئے تھے اور 2011ء میں ٹرینی ڈاڈ کے مشنری انچارج ابراہیم بن یعقوب صاحب نے اس ملک کا دورہ کیا اور شہر میں ایک جگہ کھڑے ہو کر لیف لٹس(Leaflets) وغیرہ تقسیم کئے۔ لٹریچر لینے والوں کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس طرح وہاں بڑی کثرت سے فری لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ لوگ ان کے پاس آتے اور ان سے سوال جواب کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے واپس آ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کو دینے کے لئے پھر مزید لٹریچر مانگا۔ کہتے ہیں کہ پہلا سارا دن تو لٹریچر تقسیم کرنے میں گزرا۔ دوسرا دن پہلے سے بھی کامیاب رہا۔ اس دن پہلے سے زیادہ لوگ معلومات لینے کے لئے آتے رہے۔ ان کے سوالات کے جوابات دئیے گئے۔ ایک دوست تیسری مرتبہ آئے اور کہا کہ میری اسلام کی طرف پہلے ہی توجہ تھی۔ مَیں دو مرتبہ غانا بھی گیا ہوں اور وہاں جماعت احمدیہ کو اسلام کے لئے ایک روشنی کے طور پر دیکھا تھا۔ ابراہیم بن یعقوب صاحب بھی غانین اوریجن کے ہیں اور آج کل ٹرینی ڈاڈ میں مبلغ ہیں۔ اس کے بعد اُن کے ساتھ ہوٹل میں تبلیغی نشستیں بھی ہوئیں۔ چنانچہ چوتھے دن جوجمعہ کا دن تھا انہوں نے ہمارے سنٹر میں آ کے نمازِ جمعہ ادا کی اور بیعت فارم پُر کر کے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق پائی۔ یہ اس نئے ملک کی پہلی بیعت تھی۔ اس شخص نے پھر اپنی بہن کو بھی احمدیت کے بارہ میں معلومات دیں اور وہ بھی بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئیں۔ ان کی بہن کا نام لورین بروڈشا (Loren Brodshaw)ہے۔ اس طرح دو بیعتوں کے ساتھ یہاں بھی جماعت کا پودا لگا اور مزید دو ملکوں میں احمدیت کے رابطے قائم ہوئے ہیں۔
دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچاس ممالک میں وفود بھجوا کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے اور پرانے لوگوں سے رابطے زندہ کئے گئے۔ تعلیمی اور تربیتی پروگرام بنائے گئے۔ احبابِ جماعت کو منظم کیا گیا۔ بعض مقامات پر جماعتی نظام قائم کیا گیا اور اس میں بہت سارے ممالک شامل ہیں۔ اس وقت اُن کا نام لینے کا وقت نہیں ہے۔ ان ممالک میں بہت ساری بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ مساجد بھی بن رہی ہیں۔ مشن ہاؤس بھی بن رہے ہیں۔ بہر حال اس وقت چھوڑتا ہوں۔
نئی جماعتوں کا قیام
ملک وار جماعتوں کا قیام۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد آٹھ سو انتالیس ہے۔ آٹھ سو انتالیس جماعتوں کے علاوہ مختلف ملکوں میں، مختلف شہروں میںگیارہ سو اٹھارہ نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودالگا ہے۔
نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میںسیرالیون سرِ فہرست ہے جہاں اس سال 147جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر مالی ہے جہاں 57مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ تیسرے نمبر پر نائیجیریا ہے جہاں 54مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ برکینا فاسومیں 48، کانگو میں 37، نائیجر میں 36، بینن میں33 نئی جماعتیں بنی ہیں۔ اسی طرح سینیگال میں 23، ٹوگو میں 21، گھانا میں 19، آئیوری کوسٹ اور انڈیا میں 18،18، تنزانیہ میں 16، ملائشیا میں12، مڈغاسکر اور فجی میں 11،11 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ یو۔کے میں بھی امسال 10اور انڈونیشیا میں 9نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اسی طرح ایسے مزید 26ممالک ہیں جن میں کسی میں ایک یا دو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
جماعتوں کے قیام کے ایمان افروز واقعا ت
جماعتوں کے قیام کے بعض واقعات ہیں۔انڈونیشیا میں احمدی بھائیوں پر کئے جانے والے ظلم کی ویڈیو دیکھنا اور انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنا بڑا تکلیف دہ امر تھا ۔مَیں خطبہ میں بھی ذکر کر چکا ہوں۔ یہ ایک واقعہ ہے۔ اصغرعلی صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے پاس کچھ علماء کا وفد ملنے کے لئے آ رہا تھا ۔ انہوں نے ویڈیو ڈاؤن لوڈ کی تا کہ وہ اُن علماء کو دکھا سکیں کہ آج کے دور میں حقیقی اسلام کہاں ہے؟ حضرت بلالؓ اور حضرت یاسرؓ کے نمونے کہاں ہیں؟ قربانیاں کون دے رہے ہیں؟ چنانچہ جب علماء کایہ وفد ان سے ملنے آیا تو انہوں نے دے بے سو(Debesou) گاؤں کے اہلحدیث امام کو یہ ویڈیو دکھائی تو یہ ویڈیو دیکھتے ہی جیسے کرنٹ لگا ہو۔وہ لکھتے ہیں وہ سر پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے اور رو رو کر اونچی آواز میں اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی، اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا شروع کر دیا۔ پھر نہ صرف خود بلکہ ان کے گاؤں نے بھی بیعت کر لی۔ اس کے علاوہ اب تک ان کے ذریعہ سے مزید چار گاؤں بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس وفد میں مازوجی(Mazogi) گاؤں کے امام بھی ویڈیو دیکھ رہے تھے۔یہ علاقے کا بہت بڑا گاؤں ہے۔ یہ امام صاحب ان کریہہ ظلموں کو دیکھ کر اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے سن کر بڑے زور سے عربی میںکہنے لگے کہ کیا یہ ظالم لوگ یہود و نصاریٰ نہیں؟ اسی وقت انہوں نے مشن میں بیعت کی اور اعلان کیا کہ ان تین شہداء کے بدلے میں تین گاؤں احمدی کروں گا۔ چنانچہ انہوںنے تبلیغ شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تبلیغ سے تین گاؤں ،مازوجی (Mazogi)، مازوجی پِل(Mazogipill) اور ڈومبو (Domboo)بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور اس امام کے ذریعے تین نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں۔ مَیں نے پہلے بتایا تھا کہ انہوں نے کہا ہے کہ مَیںتین گاؤں کی بیعتیں کرواؤں گاتو اللہ کے فضل سے وہ تین گاؤں کی بیعتیں کروا چکے ہیں۔
نائیجیریا میں ایک شخص رؤیا کی بنا پر احمدی ہوا اور انہوں نے مجھے دیکھا اور مَیں نے اُن کو کہا کہ نور یہاں ہے۔ یہاںآؤ۔ اُس کے بعد وہ بیعت میں شامل ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے گاؤں میں تبلیغ کی اور تقریباً سارے گاؤں نے بیعت کر لی ہے۔
اصغر علی بھٹی صاحب ہی لکھتے ہیں کہ گڈاںمسلّاچی (Gidan Masalatchi)گاؤںمیں پہنچے ۔ گاؤںکے چیف سے ملاقات کی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ چیف نے کہا امام صاحب تو کہیں گئے ہوئے ہیں تا ہم آپ کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے۔ تبلیغی نشست کے بعد چیف صاحب نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ وہ امام صاحب سے مشورہ کر کے ہی کوئی جواب دے سکیں گے۔اس لئے آپ ایک ہفتے کے بعد آئیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک ہفتے کے بعد جب مَیں گیا تو امام صاحب موجود تھے اور ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ ہم سے ایسے ملے جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں۔مَیں نے حیرانگی سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے ایک لمبا عرصہ آبی جان آئیوری کوسٹ میں گزارا ہے ۔وہاں مَیں نے بیعت کی تھی اور مستقل جماعت کا ممبر رہا تھا۔ جب مَیں یہاں مالی میںواپس آیا ہوں تومالی میں کوئی جماعت نہیں تھی اور مَیں کسی کو جانتا نہیں تھا۔ اس لئے میں چُپ رہا مگر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ یہاں جماعت کا پتہ چل جائے۔ یہ میری دعاؤں کی قبولیت ہے کہ آپ خود ہمارے گاؤں جماعت کا پیغام لے کر پہنچ گئے ہیں۔ جس دن سے آپ تبلیغ کر کے واپس گئے ہیں۔ اس دن سے مَیں گاؤں والوں کو جماعتی نظام کے بارہ میں بتا رہا ہوں کہ جلسے کیسے ہوتے ہیں؟ تربیتی پروگرام کیسے ہوتے ہیں؟ مالی قربانی کیا ہے؟ وغیرہ۔ اب ہم سب آپ کی واپسی کا انتظام کر رہے تھے۔ بیعت فارم لائیں اور بیعت کروائیں۔ چنانچہ وہ پورا گاؤں احمدی ہو گیا۔( اس موقع پر احباب نے نعرے بلند کئے ۔ اس پر حضور نے فرمایا:اب نعرے ذرا وقفے سے لگانے پڑیں گے کیونکہ کافی لمبی رپورٹ ہے)۔
ہمارے مبلغ لکھتے ہیں ریجن کے ایک گاؤںگیڈاںباوا (Gidanmbawa)میں تبلیغ کے لئے پہنچا۔ نمازِ مغرب کے بعد تبلیغی پروگرام ہوا۔ پروگرام کے اختتام پر مبلغ صاحب نے حاضرین کو کہا کہ اگرکوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے؟ اس پر حاضرین میں سے ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور ہاؤسا زبان میں خطاب کرنا شروع کر دیا اور بار بار احمدیہ احمدیہ کا نام سمجھ آتا رہا۔ ان کے خطاب کے بعد ہمارے معلم صاحب نے ترجمہ کر کے بتایا کہ یہ بزرگ احمدیت کے حق میں بول رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ انہوں نے ایک لمبا عرصہ گیمبیامیں گزارا ہے اور وہیں اُنہوں نے بیعت کی تھی اور وہ احمدی ہیں۔ بعد میں واپس نائیجر اپنے علاقے میں آئے اور یہاں بھی کوئی احمدیت کو نہیں جانتا تھا۔ اب احمدی مبلغ کو دیکھ کر انہوں نے جوش کے ساتھ جماعت کے حق میں بولنا شروع کر دیا اور سب سے کہا کہ ہمیں فوراً بیعت کرلینی چاہئے۔ کیونکہ احمدیت ہی اس زمانے میں حقیقی اسلام ہے۔ اس پر گاؤں کے امام صاحب اور چیف نے جماعت کا شکریہ ادا کیا اور شمولیت کا اعلان کیا۔
نائیجر کے برنی کونی ریجن کے ایک گاؤں کی رپورٹ ہے کہ تبلیغ کی غرض سے مبلغِ سلسلہ وہاں گئے۔ دیکھا کہ مؤذن اذان دے رہا ہے اور امام صاحب اور دوسرے گاؤں کے لوگ مسجد کے باہر کھڑے ہیں۔ سلام دعا کے بعد امام صاحب نے جو پہلا فقرہ کہا وہ یہ تھا کہ مَیں صبح سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ اس پر مبلغ صاحب اور اُن کے ساتھی بہت حیران ہوئے کہ اِن کو کیسے پتہ چلا کہ ہم لوگ کون ہیں؟ اور کب ان کے گاؤں میں آنے والے ہیں؟ نماز کا وقت ہو گیا تھا نماز ادا کی گئی اور نماز کے بعد مبلغ صاحب نے جماعت کا تعارف کروایا اور جماعتی نصائح پر مشتمل ویڈیو دکھائی۔ اس پروگرام کے بعد لوگ سوال کرنے لگے۔ اُن کو دعوت دی گئی۔بہت سے لوگوں نے سوالات پوچھے مگر امام صاحب سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے۔ ہمارے مبلغ نے کہاکہ امام صاحب! آپ نے کوئی سوال نہیں پوچھا؟ اس پر امام صاحب کھڑے ہوگئے اور سورۃ فاتحہ اور درود پڑھنے کے بعد بڑے جوشیلے انداز میں فرمانے لگے کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے کل رات بتا دیا تھا کہ امام مہدی آ چکے ہیں اور مَیں تو کل رات اُن کی بیعت کر چکا ہوں اور اُس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ تم ہمارے گاؤں آنے والے ہو۔ اس لئے مَیں تو صبح سے آپ لوگوں کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا خواب سنایاکہ احمدی مبلغ اُن کے گاؤں پہنچے ہیں اور عین اُس جگہ جہاں ہمارے مبلغ کھڑے ہو کر تبلیغ کر رہے تھے، وہاںکھڑے ہیں اور لوگوں کو اکٹھا کر کے بتا رہے ہیں کہ امام مہدی آچکے ہیں، اُن کی جماعت میں شامل ہو جاؤ۔ پھر ہمارے مبلغ سب سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا تم امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کو تیار ہو؟ پورا گاؤں زور زور سے جواب دے رہا ہے کہ ہم تیار ہیں۔ اسی حالت میں امام صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ چنانچہ خواب سنانے کے بعد انہوں نے جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ پھر گاؤں والوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا کیا ارادہ ہے؟ اس پر سب نے یک زبان ہو کرکہا کہ ہم سب بھی امام مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔
سیرالیون کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بو (Bo)ریجن میں ایک گاؤں گامبیا(Gambia) ہے جہاں ہمارا کچھ عرصے سے رابطہ اور تبلیغ جاری تھی۔ اس دوران جلسہ سالانہ آ گیا اور ہم نے اِن کو جلسے کی دعوت دی۔ وہاںکے سیکشن امام ساٹھ افراد کے ساتھ جلسے میں شامل ہوئے۔ جلسے کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے گاؤں میں آنے کی دعوت دی جہاں پانچ اور امام اور سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔ بات چیت کے بعد انہوں نے بتایا کہ کافی دیر سے حق کی تلاش میں تھے لیکن غیر احمدی علماء نے ہمیں اندھیرے میں رکھا۔ اب ہم نے خود جلسے میں جا کر جماعت کے بھائی چارے، حسنِ اخلاق، اسلامی تعلیمات پر عمل اور اتحاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ ایسی جماعت کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جلسے پر ہم نے اُن غیر احمدی علماء کو بھی دیکھا جو ہمیں کہتے تھے کہ احمدیت جھوٹی ہے۔ یہ غیر احمدی علماء ہم سے چھپ رہے تھے اور شرمندہ ہو رہے تھے کیونکہ وہاں وہ جماعت کی تعریفیں کر رہے تھے۔ وہی غیر احمدی مولوی جو گاؤں میںجا کر ہمارے خلاف بول رہے تھے، جلسے پر کیونکہ بہت سارے سرکردہ لوگ بھی وہاں آتے ہیں تو اُن کو دکھانے کے لئے یہ مولوی وہاں آئے ہوئے تھے اور پھر اُن کے سامنے جماعت کی تعریف کر رہے تھے۔ جب گاؤں والوں نے ان کو دیکھا تو اُن کے سامنے چھپنے لگ گئے۔ تو وہ سیکشن امام کہتے ہیں کہ بعد میں مَیں سینٹرل مسجد گیا اور اماموں سے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ آج سے ہم احمدی ہیں اور اپنی مسجد اور ساتھی اماموں اور 102افراد کے ساتھ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہاں ایک باقاعدہ جماعت قائم ہو چکی ہے۔
آصف محمود صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیںکہ جون 2010ء میںجب کوکو (Koko)نامی گاؤں میں مسجد کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا جا رہا تھا تو قریبی گاؤں کے افراد کا وفد خاکسار کے پاس آیا اور پیشکش کی کہ اس تقریب کے لئے جو کھانا پکایا جا رہا ہے اس میں ہم بھی حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے تقریباً تین سو افراد کے کھانے کے لئے گوشت مہیا کیا اوریہ درخواست کی کہ آپ ہمارے پاس بھی تبلیغ کے لئے آئیں۔ چنانچہ دسمبر2010ء میں خاکسار نے اس گاؤں سے رابطہ کیا اور تبلیغ کا وقت لیا۔ تبلیغ کے نتیجے میں سارے کا سارا گاؤں احمدیت کی آغوش میں آ گیا اور یہاں 306افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو گئی۔
اسی طرح نائیجر کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مارادی ریجن کے ایک گاؤں زبورے (Zaboure) کے چیف صاحب ہمارے جلسہ سالانہ میں شریک ہو رہے تھے لیکن ابھی بیعت نہیں کی تھی۔ ایک دن اُن کے گاؤں میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب تبلیغ کی غرض سے آئے۔ سب گاؤںوالے اُن مولوی صاحب کی تبلیغ سننے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ جب ان مولوی صاحب نے جماعت کے خلاف بولنا شروع کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ ان کی نماز اور ہے، قرآن اور ہے، یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے تو تھوڑی دیر بعد گاؤں کے چیف صاحب اُٹھے اور اُنہوں نے مولوی صاحب کو تقریر کرنے سے روک دیا اور گاؤں والوں کو بتایا کہ یہ مولوی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے متعلق جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔ کیونکہ وہ بذاتِ خود جماعت کے جلسہ سالانہ اور دیگر پروگراموں میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے سوائے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے کچھ نہیں سنا۔ آج جماعتِ احمدیہ ہی ہے جو حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں پھیلا رہی ہے۔چیف صاحب کہنے لگے کہ آج مَیں جماعت میں شمولیت کا اعلان کرتا ہوں اور آپ سب کو بھی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ چیف صاحب کے اس اعلان پر مولوی صاحب تو وہاں سے چلے گئے اس کے بعد چیف صاحب نے ہمارے ریجنل مبلغ عامر علی شاہ صاحب کو اپنے گاؤں تبلیغ کی دعوت دی۔ تبلیغ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا گاؤں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گیا۔
نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد
دورانِ سال جماعت کو اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی ہے اُن کی مجموعی تعداد 419ہے۔ جس میں سے 121نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 298مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔
دورانِ سال مساجد کی تعمیر کا قدرے تفصیلی جائزہ بھی ہے لیکن بیان کرنا ذرا مشکل ہے۔ امریکہ میں بھی تین مساجد یا سینٹر بنے۔ کینیڈا میں بھی کچھ جگہیں خریدی گئیں۔ کچھ سینٹر بنے۔ جرمنی میں چھ مساجد بنیں جن کا میں نے افتتاح کیا تھا۔ آئیوری کوسٹ میں دو مساجد ۔ اس طرح بہت سارے ممالک کی مساجد ہیں۔
مختلف ممالک میںجماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر
جمیکا (Jamaica)میں امسال اللہ کے فضل سے جماعت کی پہلی مسجد ’مسجد مہدی‘ کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ یہ مسجد اولڈ ہاربر شہر میں تعمیر ہوئی ہے اور 8؍جولائی کو ہمارے گھانا کے مبلغ انچارج اور امیر عبدالوہاب آدم صاحب نے( اُن کو مَیں نے نمائندہ بنا کر بھیجا تھا) اس کا افتتاح کیا ہے۔ اور 10؍جولائی کو ایک افتتاحی تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تین صد مہمان شامل ہوئے۔ اس کی کچھ تفصیلات کل ٹی وی پر وقفے کے دوران جو پروگرام آ رہا تھا، اُس میں وہاب صاحب اور لال خان صاحب بیان بھی کر رہے تھے، جو اس وقت بیان نہیں ہو سکتیں۔ بہر حال یہ کہتے ہیں کہ شہر کے میئر اور مختلف مذہبی رہنما شامل تھے۔پولیس چیف نے خود سیکیورٹی کے انتظام کی نگرانی کی۔ اس موقع پر ایک بیعت بھی ہوئی۔ ایک دوست جو خود احمدی نہیں ہیں انہوں نے اپنے بچے کو وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مسجد کے اس قطعہ زمین کی خرید اور مسجد کی تعمیر پر ایک ملین ڈالر سے زائد لاگت آئی ہے۔
ناروے میں مسجد بیت النصر کی فنشنگ وغیرہ مکمل ہوئی ہے۔ آئر لینڈ میں اور پرتگال میںبھی بنیاد رکھی گئی ۔ اس طرح بہت ساری جگہوں پر چاڈ(Chad) وغیرہ میں زمین کی تلاش ہو رہی ہے ۔
مساجد کے تعلق میں بعض واقعات ہیں۔
نائیجیریا میںمنیٰ ایک نئی جماعت ہے۔ جہاں رافنجاتو (Rafinjato)گاؤں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو قبول کرنے کی سعادت پائی وہاں مقامی لوگوں کی کوششوں سے جماعت کی مسجد زیرِ تعمیر ہے۔ وہاں کے امام صاحب نے اعلان کیااور کھلے الفاظ میں لوگوں کو کہا کہ یہ مسجد جو زیرِ تعمیر ہے، احمدیہ مسلم جماعت کی مسجد ہے۔ اس لئے سب پرمَیں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جس نے اس مسجد کی تعمیر میں مدد کرنی ہے کرے۔ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو بے شک جماعت کے لئے کچھ بھی نہ دے کیونکہ ہم احمدی ہو چکے ہیں اور یہ مسجد بھی جو زیرِ تعمیر ہے خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی مسجد ہے۔ اس لئے کل کو کوئی کسی قسم کا شکوہ نہ کرے اور نائیجیریا میں اس طرح کہنا یہ بڑی بات ہے کیونکہ وہاں عموماً امام بہت مشکل سے شامل ہوتے ہیں۔
پھر امیر صاحب نائیجر بیان کرتے ہیں کہ کونی ریجن میں صدرانِ جماعت اور ائمہ کی ریجنل میٹنگ 27؍مئی کو رکھی گئی جس میں گڈاں کیبیا idan Kibiya) G)گاؤں سے آئے ہوئے احمدی امام اور زیرِ تبلیغ معلم نے بتایا کہ وہابی مولویوں کا وفد اُن کے گاؤں پہنچااور اُن سے کہا کہ ہم یہاں کئی بار تبلیغ کے لئے آئے اور ہم نے کہا تھا کہ وہابی ہو جاؤ۔ ہم تمہیں بہت بڑی مسجد بنا کر دیں گے مگر تم نے انکار کر دیا۔ اب احمدی آئے ہیں اور تم اُن کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو حالانکہ اُنہوں نے تمہیں کوئی مسجد بھی بنا کر نہیں دی۔ اب تمہارے پاس دوبارہ آئے ہیں کہ احمدیت چھوڑ دو۔ ہم فوراً بڑی مسجد بنا دیں گے اور ساتھ امام کی ماہانہ تنخواہ بھی لگا دیں گے۔ جس پر امام سمیت سب گاؤں والوں نے ان سے کہا کہ جماعت احمدیہ نے ہمیں نفرتوں کے بجائے محبت سکھائی ہے اور لینے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا سکھایا ہے تا کہ ہم بھی قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بن سکیں۔ آپ کا ہم پر یہی بڑا احسان ہو گا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ چنانچہ مولویوں کا یہ وفد ناکام لوٹا۔
پھر مبلغ بینن بیان کرتے ہیں کہ ان کی جماعت دَوْکَوْدَوْتُو(Doko Dotohoue) میں جماعت نے مسجد بنانی شروع کی تو عبادالرحمن والے آئے اور اس نومبائع جماعت کو ورغلانا شروع کر دیا۔ کہ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کن لوگوںکے ساتھ ہو؟ یہ تو کافر ہیں۔ ان کا اسلام اور ہے۔یہ لوگ تمہیں اور تمہارے دین کو خراب کر دیں گے۔ ان کو چھوڑو اور یہاں ان کی مسجد نہ بننے دو۔ ہم تمہیں اس سے بہت اچھی خوبصورت اور پکی مسجد بنا کر دیں گے۔ اس کے ساتھ معلم ہاؤس اور کنواں بھی بنائیں گے اور معلم بھی دیں گے۔ جماعت احمدیہ کے دجل سے بچ جاؤ۔ ہمارے ساتھ ملو اور اپنا اسلام بچاؤ۔ ان کی گفتگو پر گاؤں والوں نے کہا کہ ہم چار سال سے احمدی ہیں اور آج تک ہمارے دُکھ سکھ میں صرف جماعت ہی شریک ہوتی ہے۔ موسمی بیماریاں آئیں تو اِن کے فری میڈیکل کیمپ لگے۔ سیلاب آئے تو یہی ہماری مدد کو آئے۔ قحط سالی ہوئی تو اِن کے خلیفہ نے ہم تک گھر گھر خوراک پہنچائی۔ہم اُنہیں کیسے چھوڑ دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ اب تو ہماری جان و مال احمدیت کے لئے حاضر ہے۔ اب احمدیہ دین ہی ہمارے ہاں پھیلے گا اور اُنہی کی مسجد تعمیر ہو گی۔ (بیچارے کا بولنے کاانداز ہے، مقصد یہی تھا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہی یہاں پھیلے گا)۔ بہر کیف یہاں جماعت نے مسجد تعمیر کی اور مسجد کی مزید وسعت اور تزئین کے لئے جو لاگت تھی وہ جماعت کی طرف سے مقرر کردہ بجٹ سے تقریباً چار لاکھ پچاسی ہزار فرانک سے زائد تھی۔ یہ زائد رقم اسی گاؤں کے افراد نے محنت مزدوری کر کے ادا کی ہے۔ اور مسجد کی تعمیر کے لئے دو کلو میٹر دور سے پانی بھی لاتے رہے ہیں۔ وہاں پانی کی بہت تنگی ہوتی ہے۔
کانگو کنشاسا ڈویژنل چیف اور نمائندہ کیتھولک چرچ مسٹر تموزی فلسین (Tamozi Felicien)نے کہا کہ مَیں کیتھولک عیسائی ہوں۔مَیں پہلی دفعہ مسجد میں داخل ہوا ہوں۔ مَیں نے یہ سنا تھا کہ مسلمان صرف جنگ کرتے ہیںلیکن جو کچھ یہاں دیکھا ہے وہ بہت عمدہ ہے۔ آپ کا انتظام اور ڈسپلن اور سلوک بہت اعلیٰ ہے۔ آپ واقعتا خدائی جماعت ہیں۔ مَیں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔
پھر کانگو کنشاسا میں مسجد ناصر کے افتتاح کے موقع پر شامل ہونے والے ایک ممبر پارلیمنٹ نے اپنے ایڈریس میں کہا۔ میرا کوئی بھی مذہب ہو لیکن مَیں جانتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ایک سچی جماعت ہے اور خدائی جماعت ہے۔ خدائی جماعتیں بہت ترقی کر جاتی ہیں اور یہ خدا کی عبادت کرنے والے لوگ ہیں۔
ایک عیسائی پادری نے کہا میں آج یہاں یہ گواہی دینے کے لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آپ کی جماعت ہمیشہ محبت سے پیش آتی ہے اور عمدہ اخلاق کی حامل ہے۔ مجھے اس تقریب میں شرکت کر کے بہت خوشی ہوئی۔
ایک مہمان پادری نے کہا جب میری والدہ کو پتہ چلا کہ مَیں مسلمانوں کے پروگرام میں شرکت کے لئےجا رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ خبردار! احتیاط کرنا۔ لیکن مَیں نے یہی دیکھا ہے کہ اُن کا وسوسہ درست نہ تھا۔ مَیں اپنی والدہ کو جا کر بتاؤں گا کہ مَیں آج اُن لوگوں سے ملا ہوں جو باقی دنیا سے مختلف ہیں، جو حقیقت میں امن پسند ، امن قائم کرنے والے اور دنیا کو امن کا گھر بنانے کا پختہ عزم لئے ہوئے ہیں۔ دنیا کو ان مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں اور انہوں نے کہا۔ حقیقی امن اور سکون آپ لوگوں کے پاس ہی ہے۔ اس طرح اور بہت سارے لوگوں کے ریمارکس ہیں۔
امیر صاحب لائبیریا لکھتے ہیں کہ لائبیریا کی بانگ کاؤنٹی (Bong County) میں ہماری ایک مخلص جماعت سانُوَے(Sanoyea) ہے، اس گاؤں میں گو احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہے لیکن امامت ہمیشہ احمدیوں کے پاس ہی رہی ہے۔ مئی 2011ء میں منروویہ شہر سے کچھ شر پسند اس گاؤں میں پہنچے اور غیر احمدیوں کو جماعت کے خلاف بھڑکایا جس کے نتیجے میں غیر احمدیوں نے میٹنگ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ ہم سب مسلمان یہاں پر پہلے ہی رہ رہے تھے اور جماعت احمدیہ یہاں نئی پہنچی ہے اس لئے احمدیوں کو اپنی علیحدہ مسجد بنانی چاہئے۔ اس پر جماعت کے افراد مسجد سے نکل گئے۔ غیر احمدیوں نے اُنہیں پیشکش کی کہ اگر آپ مسجد میں نماز پڑھنا چاہیں تو بیشک پڑھیں لیکن صرف ہمارے امام کے پیچھے۔ اس پر احمدیوں نے بڑی استقامت کے ساتھ جواب دیا کہ ہم اُس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے جس نے امامِ وقت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امام مہدی علیہ السلام کا انکار کیا ہے۔ چنانچہ احمدیوں نے ایک گھر میں نمازیں ادا کرنی شروع کیں اور پھر ایک متروک کچن کو نماز سینٹر میں تبدیل کر لیا۔اب یہاں بھی ایک الگ مسجد تعمیر ہو گی ۔انشاء اللہ ۔
دورانِ سال جماعت احمدیہ رائنہ پالم (بھارت )میں شدید مخالفت کی وجہ سے ہمیں اُس مسجد سے جو بنی بنائی ہمیں ملی تھی دستبردار ہونا پڑا جس کی وجہ سے احمدی احباب نمازوں اور خاص طور پر نمازِ جمعہ کے لئے بہت پریشان تھے۔ ایسے حالات میں ایک مخلص احمدی خاندان نے ایک قطعہ زمین جماعت کو تحفتاً دے دیا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس جگہ مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔مساجد کی تعمیر میں غیر بھی ہماری مدد کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں یہ جماعت جو ہے یہاں غیر احمدیوں کی طرف سے شدید مخالفت کے موقع پر مقامی ایم ایل اے جو ہندو تھے انہوں نے ہمارے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا۔ افرادِ جماعت کو بہت حوصلہ دیا اور ہماری مسجد کے لئے انہوں نے اپنی ٹریکٹر اور مشینری وغیرہ بھجوائی جس سے تقریباً چالیس ہزار روپے کی بچت ہوئی۔
غانا کے امیر صاحب لکھتے ہیںکہ سال 2010ء میں الحاج مہاما سِنو صاحب (Mahama Senu) نے وا (Wa) شہر کے اندر خوبصورت مسجد تعمیر کر کے جماعت کے سپرد کی ہے۔ جماعت وا(wa) میں تو پہلے ہی ایک بہت بڑی خوبصورت مسجد تھی اب شاید دوسرے علاقے میں کی ہو۔ تو مسجد کے لئے جگہ بھی خود خریدی اور دی ہے اور بڑی مالی قربانی کر کے خوبصورت مسجد بنائی ہے۔
مبلغ زیمبیا اپنی نومبر2010ء کی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ دورانِ ماہ سات دن لوکل معلم کے ساتھ ’ پیٹو کے‘ (Petoke) شہر اور اس کی ایک دیہاتی جماعت’ کالوکو‘ میں گزارنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ’پیٹوکے‘ شہر کی مسجد کی تعمیر سے اس جماعت میں بھی نئی جان پیدا ہو گئی ہے۔ جب خاکسار نے احمدی گھرانوں کے ساتھ ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس انڈین مسلمان کافی دفعہ آئے ہیں اور ہم کو احمدیت چھوڑنے کے لئے کہتے تھے لیکن ہم نے اِن کو جواب دیا کہ اب ہمارا جینا اور مرنا احمدیت کے ساتھ ہے۔ اب ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اپنے اس عہد پر قائم ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اِن کو بہت زیادہ ثباتِ قدم عطا ہوا ہے۔
یوگنڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ احبابِ جماعت کے ایمانوں اور اخلاص میں غیر معمولی ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہمارے ایک مخیر دوست سلیمان مغابی صاحب’ امبالے ‘(Embale) کے رہنے والے ہیں اُن کو نومبائعین کے علاقے میں ایک مسجد کے لئے دو ملین کی تحریک کی۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد وہ سات ملین شلنگ لے کر میرے دفترمیں آئے اور مجھے دئیے اور کہا کہ جب سے میں نے مساجد بنوانے کا کام شروع کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کس طرح اور کہاں سے خدا تعالیٰ مجھے دے رہا ہے؟ اس لئے آپ نے ایک مسجد کے لئے کہا تھا میں تین مساجد کے لئے سات ملین دے رہا ہوں۔ آئندہ بھی مجھے اس نیکی سے محروم نہ رکھیں۔ جب بھی ضرورت پڑے مجھے ضرور بتائیں۔ انہوں نے اس سے قبل بھی پندرہ ہزار ڈالر دے کر ایک مسجد بنوائی تھی۔
کیمرون کے معلم ابوبکر صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کیمرون کے ایک قصبے باگامبی (Bagambi) سے گزر رہا تھا کہ ایک دن ایم ٹی اے پرخطبہ جمعہ لگا دیکھ کر رُکا۔ چلتے چلتے دیکھا تو احباب سے جو اُردو زبان میں آپ کا خطبہ سُن رہے تھے دریافت کیا کہ کیا کہہ رہے ہیں اور کون لوگ ہیں؟ اس پر ایک صاحب نے کہا کہ ہم بہت عرصے سے ایم ٹی اے پر ان صاحب کو درس و تدریس اور خطبہ جمعہ بیان کرتے دیکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور اندازِ بیان ایسا عمدہ ہے کہ گو ہمیں ان کی زبان تو سمجھ نہیں آتی مگر ان کی شخصیت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس شخص کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے اور ایک سچے کا چہرہ ہے۔ اس بزرگ کے برعکس جب ہم اپنے علماء کو، عرب علماء کو سنتے ہیں تو اُن کی تقریر و وعظ میں ایک عجیب مشددانہ رویہ معلوم ہوتا ہے اور دل ان کی تقریر و وعظ کو سننے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ لیکن ان کا بیان ایسا عمدہ ہے کہ زبان کی ناسمجھی کے باوجود دل کرتا ہے کہ دیکھتے جائیں اور خطبہ سنتے جائیں۔ معلم صاحب کہنے لگے کہ ان کی باتیں سن کر میں نے اُن کو ایم ٹی اے کے ریسیور پر فرنچ زبان کی فریکوینسی سیٹ کر دی جس پر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اُنہیں جماعت کا تعارف کروایا اور تبلیغ کی جس پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے چیف سمیت ایک سو سے زائد افراد نے جماعت احمدیہ کو قبول کرنے کی توفیق پائی۔
امیر صاحب غانا لکھتے ہیں کہ کو فوریڈوا(Kufuridua) میں ایک قطعہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے خریدا گیا تھا ۔ لجنہ اماء اللہ غانا نے یہاں اپنے خرچ پر مسجد تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہمارے پلاٹ کے آخر پر ایک عمارت تھی جس میں ایک بُت رکھا گیا تھا۔ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو اس عمارت کے مالک نے ہم پر مقدمہ دائر کر دیا کہ ہم اُس کی جگہ پر مسجد بنا رہے ہیں۔ چنانچہ عدالت نے مسجد کی تعمیر رکوا دی اور معاملہ کی تفتیش کا حکم دیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور بُت والی عمارت وہاں سے گرا دی گئی ہے۔ اب ہماری مسجد کی تعمیر انشاء اللہ جلدتکمیل کو پہنچے گی۔
تبلیغی مراکز
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ہمارے تبلیغی مراکز میں، مشن ہاؤسز میں 121کا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک گزشتہ سالوںکو شامل کر کے 102ممالک میں تبلیغی مراکز، مشن ہاؤسز کی تعداد تئیس سو پچیس (2325)ہو چکی ہے۔
تبلیغی مراکز کے قیام میں انڈیا کی جماعت سرِ فہرست ہے جہاں اس سال 26تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔ اُس کے بعد 14سیرالیون میں اور پھر برکینا فاسو، کینیا، مالی وغیرہ میں اور دوسرے افریقن ممالک میں۔ اسی طرح کینیڈا میں، امریکہ میں بفلو(Buffalo) میںبھی تبلیغی مراکز قائم ہوئے ہیں ۔فلپائن میں بھی ایک تبلیغی مرکز کا اضافہ ہوا ہے۔ یوکے میں دورانِ سال چار تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ ممالک مَیں وہ بیان کرنے لگا ہوں جہاں جماعت کا پہلا تبلیغی مرکزقائم ہوا ہے، مشن ہاؤس قائم ہوا ہے۔ ڈومینیکن ریپبلک میں ایک عمارت کرائے پر حاصل کی جہاںجماعت کاپہلا سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ ہیٹی(Haiti) میں پہلے ہیومینٹی فرسٹ کی عمارت بطور مرکز استعمال ہو رہی تھی۔ اب جماعت نے باقاعدہ ایک عمارت حاصل کر کے اپنا سینٹر قائم کیا ہے۔ اسی طرح بعض اَور ملک ہیں۔
اشاعت لٹریچر
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اشاعت کا جو کام ہے وہ 67 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دورانِ سال 549 مختلف کتب، پمفلٹ اور فولڈرز وغیرہ تقریباً اڑتیس(38) زبانوں میںطبع ہوئے جن کی تعداد چھہتر(76) لاکھ اٹھہتر(78) ہزار آٹھ سو چوالیس(844) ہے، جس میں مختلف زبانیں عربی، ترکش، جرمن وغیرہ شامل ہیں، ان کی تفصیل بیان کرنی مشکل ہے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب دوبارہ شائع ہوئی ہیں ۔کچھ عربی کتب شائع ہوئی ہیں،کچھ کا عربی ترجمہ ہوا ہے اور تفسیرِ کبیر عربی کی دس جلدیں مکمل ہو گئی ہیں۔ رسالہ الوصیت کا رشین ترجمہ شائع ہوا ہے۔ اسی طرح کشتی نوح ، ایک غلطی کا ازالہ تامل میں، ضرورۃ الامام ملیالم میں، شہادۃ القرآن ہندی میں، یہ انڈیا کی زبانیں ہیں۔ تو اس طرح بہت ساری کتب شائع ہوئی ہیں۔
تفسیرِ کبیر عربی مکمل دس جلدیں شائع ہو گئی ہیں۔ اس کے بارہ میں بعض تأثرات بھی ہیں ۔
گِنی بساؤ (Guinea Bissau)کے ایک امام محمد کبیر جالو صاحب جنہوں نے سعودی عرب سے اسلامیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور علاقہ میں ان کا بہت نام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے بہت سی تفاسیر کا مطالعہ کیا مگر اس جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی۔ کیونکہ اس میں ہر چیز واضح ہے اور ہر پہلو کو اجاگر کیا گیاہے۔ اس تفسیر کو پڑھے بغیر کوئی شخص قرآن کے حقیقی معنی نہیں سمجھ سکتا۔ انہوں نے بیعت کرنے سے پہلے ہی احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی اور گیمبیا کی جماعت کے سالانہ جلسے میں بھی شرکت کی۔ یہ کویت سنٹر میں قرآنِ کریم کے سب سے بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جب اس سینٹر میں کلاسز لیتا ہوںتو تفسیرِ کبیر کے علاوہ کچھ نہیں پڑھاتا۔
گیمبیا میں استادAlie Njie صاحب کو تفسیرِ کبیر دی گئی تو لکھتے ہیں کہ اس تحفہ کے ذریعہ ایک مرتبہ مجھ پر پھر عیاں ہو گیا ہے کہ آپ لوگوں کو غیر مسلم کہنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اس وقت تو احمدی ہی بہترین مسلمان ہیں۔
پھر اسی طرح گیمبیا کے ایک اورعالم اپنا اظہار کرتے ہیں کہ مَیں نے بہت سی تفاسیر پڑھی ہیں۔ سینیگال اور گیمبیا کے بہت سے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مگر اس معیار کی تفسیر میں نے کہیں نہیں دیکھی۔
تراجم قرآن کریم
وکالتِ تصنیف کی رپورٹ کے مطابق نئے تراجم قرآن میں امسال اضافہ تو نہیں ہوا البتہ گھانا کی زبان ’والے‘(Wali)میںیہ پیش رفت ہوئی ہے کہ اب اُس کی فائنل پروف ریڈنگ ہو رہی ہے۔ جو رپورٹ کے مطابق تین ماہ میں مکمل ہو کر ٹائپ سیٹنگ کا کام شروع ہو جائے گا۔ ساؤتھ پیسیفک کے ملک کریباتی (Kiribati)کی مقامی زبان کریباتی میں ترجمہ قرآن اس وقت ٹائپ سیٹ ہو رہا ہے اور عربی متن پیسٹ کیا جا رہا ہے۔ انشاء اللہ جلد چھپ جائے گا۔ اسی طرح گھانا کی زبان فانٹی (Fante)میں قرآنِ کریم کی ٹائپ سیٹنگ ہو چکی ہے۔ جلد انشاء اللہ تعالیٰ طبع ہو جائے گا۔ ان تین تراجم سمیت پندرہ زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمے پر کام ہو رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جلد شائع ہو جائے گا۔ اس سے قبل ستر(70) زبانوں میں قرآنِ کریم مکمل چھپ چکا ہے۔ اور اس سال ترکی زبان میں بھی قرآنِ کریم کا نیا ترجمہ تیار کیا گیا ہے۔پہلے کو ریوائز کیا گیا ہے اور اس میں کچھ نئی ایڈیشن کی گئی ہیں۔ بھارت میں قرآنِ کریم کا ہندی اور پنجابی میں نیا ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ اور یہ سب فضلِ عمر پرنٹنگ پریس قادیان سے شائع ہوا ہے۔ اللہ کے فضل سے جب پریس کی رپورٹ آئے گی تو وہاں بیان ہو جائے گا۔ یہ بھی اچھا کام کر رہا ہے۔
دورانِ سال شائع ہونے والی کتب کا تعارف
یہ تو بڑا مشکل ہے لیکن بہر حال مختصر ذکر کر دیتاہوں۔ دورانِ سال قرآنِ کریم کا ترکی زبان میں ترجمہ نئے سرے سے تیار ہو کر طبع کیا گیا۔ اسی طرح اس میں انڈیکس وغیرہ شامل کیا گیا اور اس میں جلال شمس صاحب، غفار صاحب اور ترکی کے امیر صاحب نے بڑا کردار ادا کیا۔ کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ترجمے ہوئے ہیں جو ہمارے عربی ڈیسک نے بھی کئے ہیں اور بعض ترجمے انفرادی طور پر مجید عامر صاحب اور محمد احمد نعیم صاحب نے کئے ہیں۔کچھ مشترکہ کوششوں سے ہوئے ہیں۔
’’تحریکِ جدید ایک الٰہی تحریک‘‘۔ یہ کتاب ہے جو خلفاء احمدیت کے ارشادات اور خطبات اور خطابات کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں بنائی گئی ہے۔گزشتہ سال تک اس کی پہلی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ الحمدللہ اس سال پانچویں جلدشائع کرنے کی توفیق ملی جو 1974ء سے 1982ء تک خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشادات پر مشتمل ہے ۔
ریویو آف ریلیجنز(Review of Religions)
گزشتہ سال جب مَیں نے اس کی تحریک کی تھی تو اُس وقت خریداران کی تعداد بارہ سو چوالیس(1244) تھی۔ اور اب اس جلسہ تک خریداروں کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دورانِ سال چھ ہزار سات سو چھپن کا اضافہ ہوا ہے۔ ابھی بھی یہ پیچھے ہیں۔ کم از کم یہ دس ہزار تو ہونی چاہئے۔ اب یہ رسالہ اللہ کے فضل سے بڑے وقت پر شائع ہوتا ہے اور بڑے اچھے مضامین اس میں آ رہے ہیں اور لوگوں کے اچھے فیڈ بیک (feed back)ہیں کہ ہماری نئی نسل کے لئے بھی اور پرانے علمی ذوق رکھنے والوں کے لئے بھی بڑے اچھے نئے مضامین ہیں۔
تقسیم لٹریچر
لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کا منصوبہ تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت ڈال دی ہے اور پیغام پہنچانے کے لحاظ سے اس میں درج ذیل ممالک نمایاں ہیں۔ کینیڈا۔ انہوںنے قریباً ایک ملین سے زائد تقسیم کئے ہیں یا الیکٹرک بل بورڈ وغیرہ استعمال کئے ہیں۔ اشتہارات وغیرہ دئیے ہیں۔ بکس سٹالز کے ذریعہ سے پچاسی ملین سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام ان کے ذریعے پہنچا ہے۔ جرمنی میں 1.6ملین سے زائد لیف لٹس تقسیم کئے گئے۔ وہاں بھی مختلف ذرائع سے آٹھ ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچا ہے۔ اللہ کے فضل سے اس دفعہ دورہ میںمَیں نے دیکھا ہے کہ جرمنی میں بھی احمدیت کی طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور تعارف بڑھا ہے۔ یوکے کی جماعت نے 1.5ملین لیف لیٹس تقسیم کئے ہیں۔ سویڈن نے تین لاکھ بیس ہزار فلائرز تقسیم کئے ہیںاور چار لاکھ دو ملین افراد تک پیغام پہنچایا ہے۔ ٹرینیڈاڈ میں پانچ لاکھ فلائرز تقسیم کئے گئے۔ ناروے نے دو لاکھ فلائر تقسیم کئے اور اس طرح تین لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں تک پیغام پہنچا۔ بیلجیئم میں چار لاکھ، ہالینڈ میں ساڑھے چار لاکھ، سپین میں ایک لاکھ چودہ ہزار، انڈیا میں تین لاکھ پچاس ہزار لیف لٹس تقسیم کئے گئے۔ افریقن ممالک نائیجیریا میں ایک لاکھ پچاسی ہزار، کانگو کنشاسا (Congo Kinshasa)میں ایک لاکھ دو ہزار، تنزانیہ میں ایک لاکھ، کینیا میں اکہتر ہزار، ٹوگو میں پچہتر ہزار، بینن میں ساٹھ ہزار لیف لیٹس تقسیم کئے گئے۔
لیف لیٹس تقسیم کے دوران جو بعض واقعات پیش آئے، اُن میں سے چند ایک ذکر کر دیتاہوں۔
ایک پادری نے پمفلٹ ملنے پر کہا کہ اگر عیسائی بھی اتنی محنت کرتے جتنی کہ آپ کر رہے ہیں تو کبھی ان کو شکست نہ ہوتی۔یہ جرمنی کا تأثر ہے۔ ایک شخص نے کہاکہ میرا خیال ہے تم لوگ دس نہیں تو چودہ سال میں جرمنی پر غالب آ جاؤ گے۔ میں احمدیوں کو جانتا ہوں یہ دوسرے ترکی مسلمانوں سے قطعاً مختلف ہیں۔
ایک شخص کو جب پمفلٹ دیا گیا تو اُس نے کہا تم دہشتگرد ہو لیکن جب اُس کے ساتھ تفصیل سے بات ہوئی تو آخر پر اُس نے کہا کہ اگر احمدی سچ بیان کر رہے ہیں تو اسلام کا مطلب امن کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ جرمنی میں بھی ایک پادری نے پمفلٹ بڑے غورسے پڑھا اور کہا کہ اس پمفلٹ کے ہر لفظ کا پیغام بہت عمدہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ باقی مسلمان بھی اس پیغام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اس طرح ایک اخبار نے لکھا کہ بانی ٔ سلسلہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں نوجوانوں کی تنظیم آج کی دنیا کے سامنے اسلام کی اصل پُرامن اور ترقی پسند تعلیم کو سختی کی تعلیم اور غلطیوں سے آزاد کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اس پمفلٹ کا یہی پیغام ہے کہ اسلام میں بنیادی انسانی حقوق، آزادی ٔاظہار، مذہبی آزادی اور مذہب کو اختیار یا تبدیل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ جرمنی کے مبلغ اشرف صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری لوکل امارت ’ویزبادن‘ میں بسوں اور بڑے پوسٹر کے ذریعے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا۔ شہر کی آبادی دو لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع کے علاوہ فلائر کی تقسیم کے ذریعے سے ساری آبادی تک پیغام پہنچ گیا ہے۔ بسوں میں پوسٹر لگائے گئے، گو ایک ہفتہ کے لئے تھے لیکن وہ اس قدر پسند کئے گئے اور اس پیغام کو اتنا سراہا گیا کہ بغیر معاوضہ کے انتظامیہ نے ایک ماہ سے اوپر ہو چلا ہے کہ اُسے بدستور شہر کی بسوں میں لگایا ہوا ہے۔ ایک جرمن دوست نے دوہزار سے زائد فلائر کا مطالبہ کیا کہ میں اُسے اپنے خرچ پر تقسیم کروں گا۔
امریکہ کے مبلغ انچارج نسیم مہدی صاحب لکھتے ہیں کہ جب نیویارک میں جماعت امریکہ کی طرف سے پریس کانفرنس کی گئی تو نیو یارک کے مشہور اخبار نیو یارک ٹائمز کے ایک سینئر صحافی سیموئیل فریڈمین کا فون آ گیا ۔ موصوف ایک مشہور یونیورسٹی میں جرنلزم کے پروفیسر بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ آپ لوگ گھر گھر جا کر امن کا پیغام فلائرز کی شکل میں تقسیم کر رہے ہیں۔ میں ایسی کسی بھی ٹیم کے ساتھ امریکہ کے کسی بھی شہر میں اپنے خرچ پر جا کر فلائرز کی تقسیم میں شامل ہونا چاہتا ہوں اور لوگوں کا ردّعمل دیکھ کر ایک کالم لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔چنانچہ انہیں ملواکی شہر میںاحمدی خدام کی ٹیم کے ساتھ بھجوایا گیا جس پر انہوں نے بہت ہی خوبصورت کالم لکھا جسے بہت سراہا گیا۔ اس کالم کے نتیجے میں شکاگو، ڈیٹرائٹ اور سان فرانسسکو کے مشہور اخبارات نے خواہش ظاہر کی کہ ہم بھی اپنی صحافی ٹیم آپ کے ساتھ بھجوانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی بہت اچھے کالم لکھے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد میامی سے امریکہ کے سب سے بڑے سپینش ٹی وی نیٹ ورک نے رابطہ کیا کہ ہم بھی اسی طرح اپنے رپورٹر آپ کی ٹیم کے ساتھ بھیج کر احمدیت پر ایک ڈاکو منٹری تیار کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے رپورٹر اور کیمرہ کریو (crew)ہماری تجویز پر لاس اینجلس بھجوایا۔ یہ رپورٹر ایک خاتون تھی۔ چنانچہ لجنہ کی ایک ٹیم کے ساتھ اُنہیں بھجوانے کا پروگرام بنایا گیا۔ جانے سے پہلے اس خاتون رپورٹر نے کہا کہ میرا برقعہ کہاں ہے؟ چنانچہ اُنہیں برقعہ پہنایا گیا۔(یہ ڈرامے کرتے ہیں ناں تھوڑے سے)تو انہوں نے ہمارے ساتھ کئی دن رہ کر ڈاکو منٹری تیار کی جو اس سپینش ٹی وی پر دکھائی گئی۔ امریکہ میں اس کے دیکھنے والے چھ ملین لوگ ہیں۔ لیکن بہر حال چاہے جس طرح بھی تھا احمدیت کا حقیقی پیغام چھ ملین لوگوں تک پہنچ گیا اور میکسیکو اور دیگر لاطینی امریکہ میں دیکھنے والے بھی کئی ملین لوگوں نے اُسے دیکھا۔
ہمارے ایک خادم فرینکفرٹ جرمنی میں فلائر تقسیم کر رہے تھے تو عین اس وقت ایک عیسائی گروپ بعض مسلمان ممالک میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جلوس نکال رہا تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف بھی جذبات رکھتے تھے۔ اس دوران ہمارے خادم نے بھی وہاں پر فلائر تقسیم کیا تو بعض عیسائیوں کی طرف سے بہت غضب کا اظہار ہوا یہاں تک کہ پولیس کو بلوایا گیا جس پر خادم نے کہا کہ مَیں تو ملکی قانون کے مطابق یہاں پر فلائر تقسیم کر رہا ہوں۔ علاوہ ازیں یہ لوگ یہاں پر نفرت پھیلا رہے ہیں جبکہ مَیں تو محبت کا پیغام دے رہا ہوں۔ اس پر پولیس والوں نے فلائر کو دیکھا اور اس کے بعد اس خادم کو کہا کہ ہم یہاں کھڑے ہیں۔ تم ہماری نگرانی میں تقسیم کرو۔تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔
جرمنی سے ہی ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ہیمبرگ میں تقسیم کے دوران ایک افریقن شخص ملا جس نے ہمارا فلائر دیکھا ۔اُس پر میری تصویر تھی تو اُس کو دیکھ کر کہتا ہے کہ مَیں ان کے خطبات باقاعدہ سنتا ہوں اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تواُس کو بھی جماعت کا تعارف پیش کیا گیا۔
جرمنی میں ہی برخسال(Bruchsal) کے صدر صاحب لکھتے ہیںکہ ہمارے خدام اور اطفال Islam for peaceکی ٹی شرٹس پہن کر فلائر تقسیم کر رہے تھے تو ایک خاتون کو یہ طریقہ کار اتنا پسند آیا کہ وہ تمام خدام و اطفال کے لئے اپنی جیب سے جوس خرید کر لائی اور کہا کہ مجھے آپ لوگوں کا یہ طریقِ کار پسند آیا ہے یہ میری طرف سے آپ کے لئے چھوٹا سا تحفہ ہے۔
امریکہ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک خادم نے بتایا کہ جب وہ ساری رات کی جاب کرنے کے بعد لیف لیٹس تقسیم کرنے کے لئے آئے تو رَش ختم ہو چکا تھا اور خال خال لوگ آ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں بہت غمگین ہوا اور دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ سارے فلائر جو میرے پاس ہیں تقسیم ہو جائیں۔ انہوں نے درود شریف پڑھنا شروع کر دیا اسی دوران ایک افریقن امریکن آیا اور ایک اشتہار مانگا کچھ دیر بعد واپس مڑ کر آیا اور کہا کہ چار پانچ لیف لیٹس مزید دے دو جو کہ اُسے دے دئیے گئے۔ پندرہ منٹ کے بعد پھر واپس آیا اور بڑی لجاجت سے کہنے لگا کہ کیا تم مجھے سارے اشتہارات دے سکتے ہو؟ پوچھنے پر اس نے کہا کہ اس کی ایک دکان ہے۔ یہ اشتہارات اس کو اتنے اچھے لگے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس اشتہار کو اپنی دکان پر تقسیم کرے۔ تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ تبلیغ کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔
وہاب آدم صاحب امیر غانا لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک کی دو بڑی شاہراہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویرپر مشتمل دو عدد بل بورڈز لگائے گئے ہیں۔ ان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی خوبصورت تصویر چسپاں ہے جس کے نیچے یہ الفاظ درج ہیں:
’’وہ مسیح موعود جس کا مدتوں سے انتظار تھا آ چکا ہے‘‘۔
ایک بورڈ کماسی سے اکرا آنے والی شاہراہ پرہے۔ دوسرا بورڈ ’اکرا‘ (Accra)سے سینٹرل ریجن جانے والی سڑک کے کنارے لگا ہوا ہے۔ یہ خوبصورت تصویر یہاں سے گزرنے والوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور اُسے زمانے کے مسیح موعود کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ یہ ایک مخلص احمدی نے تیار کروا کے دئیے ہیںاور اصل یہ ہے کہ لگوایا اس لئے گیا ہے کہ وہاں پادریوں نے یہ اعلان بھی کرنا شروع کر دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عنقریب مسیح آسمان سے نازل ہونے والا ہے `اس لئے اُس کا انتظار کرو۔تو اُس پر انہوں نے لگایا کہ تم انتظار نہ کرو وہ تو سو سال پہلے آ چکا ہے۔
واشنگٹن شہر میں دو مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ فلائر تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا تواس سے ہفتہ قبل ہی ایک دفعہ شدیدبرف باری کی اور دوسری دفعہ بارش اور آندھی کی شدید طوفان کی پیشگوئی تھی۔ مجھے بھی دعا کے لئے انہوں نے لکھا۔ فیکسز کیں۔ دعاؤں کے ساتھ کام شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے کام شروع کیاتو طوفان بھی ٹل گیا اور ان کے کام بھی ہوئے۔
یوکے کو دو ملین اشتہارات ہر گھر میں ڈالنے کی توفیق ملی۔ لجنہ اماء اللہ کے ذمہ سکولوں اور ڈاکٹرزکی سرجری اور لائبریریوں میں پمفلٹس پہنچانے کا کام تھا۔پانچ ہزار پانچ سو کے ٹارگٹ میں سے چار ہزار اُنسٹھ سکولوں، ڈاکٹر سرجری اور لائبریریوں میں پمفلٹ پہنچایا جا چکا ہے۔ ان کا ایک پروگرام تو زی ٹی وی پر چلایا گیا جس میں ٹی شرٹ تقسیم کر رہے تھے۔ ٹراموں وغیرہ پر بھی اشتہار دیا گیا۔
پھر ایک ویب سائٹ ہے loveforallhatredfornone.org ۔ اس پر بھی ایڈ(ad) دیا جا رہا ہے۔ اب تک تیس ہزار لوگ ویزٹ(Visit) کر چکے ہیں اور چار سو پچاس (450)فون کالز اور کثرت سے ای میلز اس Compaignکے نتیجے میں مل چکی ہیں۔ اخبار میں آرٹیکل بھی آئے ہیں۔
بکسٹالز وبک فیئرز
پانچ ہزار چھیانوے(5096) بُک سٹالز اور اکانوے(91) بک فیئرز میں شمولیت کے ذریعے اکیس(21) لاکھ چون(54) ہزار سے اوپر افراد تک پیغام پہنچا۔
قرآن مجید اور اس کے تراجم کی نمائشیں
قرآنِ مجید کی نمائش لگانے کے بارے میں جو مَیں نے کہا تھا اُس میں مجموعی طور پر دو ہزار اُنسٹھ(2959) نمائشوں کے ذریعے تیس(30) لاکھ اکتالیس(41) ہزار آٹھ سو انانوے(889) افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔
قرآنِ کریم کے تراجم کی نمائش کے بارہ میں یہ تاثرات ہیں کہ ایلورین میں ایک عیسائی دوست مارٹن ایژائی (Marten Ajayi) صاحب نے قرآنِ کریم کے ترجمہ کی نمائش کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ کے وہ عقائد جو آپ نے یہاں بیان کئے ہیں، مجھے بہت اچھے لگے ہیں ۔مَیں آپ لوگوں کا بہت مشکور ہے کہ آپ نے اس کا بیان اس عمدہ طریق پر کیا ہے۔ لیکن اس موقع پرمَیں یہ بھی کہوں گا کہ آپ میڈیا کو ساتھ لے کر اپنی مسجد میں جائیں اور اعلان کروائیں کہ لوگوں کو مارنا اسلام اور ہمارے عقائد کا حصہ نہیں اور شمال کے مسلمانوں کو بھی یہ بات بتائیں۔ اور اصل سچائی یہ ہے کہ ہم بھی امن سلامتی اور ملکی ترقی کے بارے میں وہی عقائد رکھتے ہیںجو آپ رکھتے ہیں۔ یہ ان کے تاثرات تھے اور بھی کافی تاثرات ہیں۔
اوشوں سٹیٹ (Osun State)سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میری بدقسمتی ہے کہ میں آج تک اسلامی تعلیمات سے بے خبر رہا اور آج آپ کی اس نمائش کے ذریعہ سے مجھے پتہ چلا ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے؟ اور کتنی خوبصورت ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام کی یہ تعلیم جو آپ نے بیان کی ہے اس کو ماننے سے ہی دنیا امن اور سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
بینن میں پوبے شہر میں مین روڈ کے ساتھ مشن ہاؤس کے سامنے تین روزہ نمائش لگائی گئی۔ اس نمائش کو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیکھا(یہ اُن کی رپورٹ ہے) تو ایک عیسائی اپنے تاثرات میں لکھتاہے کہ ہم آپ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ دوسرے مسلمان تو ہمیں قرآن کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ ہم نے کبھی بھی مسلمانوں کی طرف سے ایسا پروگرام نہیں دیکھا۔
بک سٹالز اور بُک فیئرز کے معاملات
امسال 7؍جولائی 2011ء کو ٹوکیو میں انٹر نیشنل بک فیئرز کے موقع پر سعودی عرب کے سفیر نے بھی جماعت کے سٹال پر وزٹ کیا اور قرآنِ کریم کے تراجم کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہا۔ عربی زبان میں لٹریچر کا پوچھا۔ اتفاق سے اُس وقت سب سے اوپر ’التقویٰ‘ کا ایک پرانا شمارہ پڑا ہوا تھا۔ سفیر صاحب نے اُسے کھول کر دیکھنا شروع کیا تو جو صفحہ سب سے پہلے کھلا اس پر مسجد فضل لندن کے افتتاح کے موقع پر شاہ فیصل کی تصویر اور اہلِ عرب کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ تھا۔ سفیر موصوف نے غیر معمولی دلچسپی سے مضمون کو پڑھنا شروع کیا اور جماعت کا تعارف حاصل کرنے کے لئے سٹال پر بیٹھ گئے۔ بعد میں اُنہیں باقی لٹریچر پہنچایا گیا ۔
پھر مبلغ انچارج جاپان لکھتے ہیں کہ ایک مصری دوست جو ڈاکٹر ہیں بُک فیئر پر آئے اور اُنہوںنے بتایاکہ وہ باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھتے ہیں۔ اسٹال دیکھتے ہی وہ خاکسار کی طرف دوڑے چلے آئے اور بڑے تپاک سے ملے اور شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ ایک دن ایم ٹی اے دیکھتے ہوئے امام جماعت احمدیہ کا وہ خطبہ سُنا جس میں آپ نے عرب ممالک اور مصر میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔ مصری عوام کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور عرب حکمرانوں کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کرنے پر میں امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ نیز کہنے لگے کہ اسلامی دنیا میں شاید وہ واحد مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے عرب حکمرانوں کو اس جامع اندازمیں متوجہ فرمایا ہے۔
زونل امیر ساؤتھ زون کرناٹک لکھتے ہیں کہ بنگلور شہر میں ایک شاندار بک فیئرہوا جس میں جماعت کی طرف سے بھی تین سٹال لگائے گئے۔ اُس میں میرے جومختلف دورہ جات ہیں اُن کی سی ڈیز دکھائی گئیںاور ہر آنے جانے والا اُسے دیکھتا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر تحفظِ ختم نبوت والے بوکھلا گئے اور پولیس اور اعلیٰ افسران سے مل کر ہمارے سٹال بند کروا دئیے۔ جماعتی وفد نے فوراً متعلقہ افسران سے جا کر ملاقات کی اور جب ہمارا مؤقف اُن کے سامنے رکھا گیا اور جماعتی لٹریچر اور کتب اُن کو دی گئیں تو ان افسران نے کہا کہ ہمیں مولویوں نے جماعت کے بارے میں غلط باتیں بتائی تھیں جس کی وجہ سے ہم نے یہ سٹال بند کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ انہوں نے نہ صرف سٹال کھولنے کی اجازت دی بلکہ سٹال کی حفاظت کے لئے دو پولیس والوں کی ڈیوٹی بھی لگا دی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت بڑھ گئی اور دس دن سٹال جاری رہا۔ اسّی ہزار لوگ اس سٹال سے وقتاً فوقتاً جماعتی لٹریچر اور کتب وغیرہ بھی لے جاتے رہے۔ ترپّن(53) ہزار کی کتب فروخت ہوئیں۔
احمدیہ پرنٹنگ پریس
اس وقت رقیم پریس انگلستان کی نگرانی میں افریقہ کے آٹھ ممالک ، غانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ، کینیا، گیمبیا اور برکینا فاسو میں ہمارے پریس کام کر رہے ہیں۔
اس سال رقیم پریس لندن سے طبع ہونے والے کتب و رسائل کی تعداد دو لاکھ پندرہ ہزار تین سو اڑتالیس ہے۔ الفضل انٹر نیشنل بھی اب یہیں سے شائع ہوتا ہے۔ افریقہ کے ممالک میں طبع ہونے والے مختلف کتب و رسائل کی تعداد جو ہمارے پریس سے شائع ہوئیں، وہ پانچ لاکھ تین ہزار سے اوپر ہے۔ گھانا پریس کی نئی مشینری گئی ہے۔ نیا پریس لگا ہے اور اللہ کے فضل سے جماعتی لٹریچر اور کتب کے علاوہ یہ باہر کا بھی کافی کام کر رہے ہیں۔ قومی اخبارات بھی یہاں سے شائع ہو رہے ہیں اور دونوں طرح یہ کافی اچھی آمد کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے پریس ہیں۔
بنگلہ ڈیسک
یہ بھی مختلف کتب پر کام کر رہے ہیں۔ دعوۃ الامیر کی نظر ثانی کا کام ہو گیا۔ سبز اشتہار کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ ایم ٹی اے پر بیالیس (42)گھنٹے بنگلہ کا لائیو پروگرام ’’شوترشندھے ‘‘پیش کیا جاتا ہے۔ بنگلہ ڈیسک کے خطوط جو میرے پاس آتے ہیں اُن پر بھی یہ کام کرتے ہیں۔ لائیو خطبات کا ترجمہ، تقریروں کا ترجمہ یہ سب، مختلف کام یہ کر رہے ہیں۔
چینی ڈیسک
چینی ڈیسک ہے۔ اس میں بھی قرآنِ کریم کا چینی زبان میں ترجمے کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا پروگرام ہے۔ اس ایڈیشن کی اشاعت سے قبل اس کی دو مرتبہ نظر ثانی کی گئی ہے۔ اب مکمل کر کے ربوہ بھجوایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر لوگوں سے رابطے بھی ہو رہے ہیں۔
ٹرکش ڈیسک
ٹرکش ڈیسک ہے۔ اس کے ذریعہ سے برکات الدعا، نماز ، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو کتاب جلال شمس صاحب نے تیار کی ہے اور لجنہ کے دستور اور کچھ اور کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
رشین ڈیسک
اس کے ذریعہ سے بھی کام میں کافی وسعت آئی ہے۔یہ اب خطبات کا باقاعدہ لائیو ترجمہ دے رہے ہیں ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ خطبے کو جو ٹرانسکرائب کرنا ہوتا تھا اس پر پہلے ربوہ سے آتے ہوئے دیر لگ جاتی تھی۔ اب یہ رشین ڈیسک ہی فوری طور پر کروا دیتا ہے۔ اور پھر اسی طرح دوسرے خطابات اور خلافت جوبلی کے جوخطابات وغیرہ ہیں انہوں نے شائع کئے ہیں۔
شوئم جان جمیلووف صاحب جن کا تعلق بخارا ازبکستان سے ہے لکھتے ہیں کہ دو سال پہلے میرے دل میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے بہت سے سوال پیداہوتے تھے۔ کیونکہ میں نے قرآن و کتب احادیث کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ مختلف مساجد میں جا کر علماء سے اس بارے میں سوال کرتا تھا لیکن کوئی مجھے تسلی بخش جواب نہ دیتا۔ تشفی نہ ہونے پر ہماری بحث شروع ہو جاتی اور میں ان سے کہتا کہ دیکھو اب ہم بحث میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارے پاس ایسی کوئی شخصیت نہیں جو ہمارے درمیان فیصلہ کروا سکے۔ عیسائیوں کے پاس پوپ ہے جو اُن کے فیصلے کر دیتا ہے۔ اور ہم جن کا دعویٰ ہے کہ ہمارا مذہب سب سے صحیح ہدایت دیتا ہے ہمارے پاس اس زمانے میں نہ توکوئی امام ہے اور نہ ہی کوئی خلیفہ، اس پر وہ تمام خاموش ہو جاتے۔ اس دوران میرے ایک دوست فرقان صاحب جنہوں نے اپنی محنت سے خود عربی زبان سیکھی تھی، اپنی عربی زبان کی مشق کے لئے مختلف چینل ڈھونڈ رہے تھے۔ اسی دوران اُن کو ایم۔ٹی۔اے العربیہ مل گیا اور وہاں پروگرام الحوار المباشر چل رہا تھا۔ مجھے عربی نہیں آتی تھی لیکن میرے دوست فرقان صاحب کو عربی آتی تھی اور وہ مجھے تمام پروگرام کا ترجمہ کر کے بتاتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں میرے دل میںموجود ہر سوال کا مجھے تسلی بخش جواب مل گیا اور میں اور فرقان صاحب باقاعدگی کے ساتھ یہ پروگرام دیکھنے لگے۔ اس کے بعد انٹر نیٹ پر بھی میں نے معلومات حاصل کیں۔ شروع میں تو مجھے تمام وہ سائٹس ملیں جو جماعت کے خلاف تھیں لیکن پھر alislam.orgمل گئی۔ اور یہاں سے میں نے ازبک زبان میں جماعت کا لٹریچر پڑھا اور یقین ہو گیا کہ یہی جماعت سچی ہے اور میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
فرنچ ڈیسک
فرنچ ڈیسک کا بھی اللہ کے فضل سے کام ہو رہا ہے۔ کچھ کتب کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ کچھ کی تصحیح ہو رہی ہے۔
انڈیا ڈیسک
انڈیا ڈیسک بھی اپنے کام کرتا ہے۔ وہاں انڈیا سے جتنی ڈاک کا آنا جانا ہے اُس کی ڈیلنگ،دفتری کام اور وہاں سارے نظام کو نئے سرے سے بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت وہاں کی مرکزی لائبریری میں ستر ہزار کتب موجود ہیں۔ اور اسی طرح اب مخزنِ تصاویر کے تحت وہاں ایک بہت بڑی نمائش بھی لگائی گئی ہے ۔ گیسٹ ہاؤسز نئے تعمیر ہوئے ہیں اور شعبہ تاریخِ احمدیت بھارت کا اجراء کیا گیا ہے اور فضل عمر پرنٹنگ پریس کی نئی مشینری آئی ہے۔ انہوں نے بہت اچھا کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ میری دائیں طرف میز پر کونے میں جو کتابیںپڑی ہیںیہ سب انڈیا کے فضلِ عمر پریس سے چھاپی گئی ہیں اور اللہ کے فضل سے انہوں نے بڑی معیاری کتب شائع کی ہیں۔ عموماً ہم کتب شائع کرتے ہیں اور بائنڈنگ وغیرہ باہر سے کرواتے ہیں لیکن یہ ہارڈ بائنڈنگ وغیرہ بھی انہوں نے اپنے پریس سے ہی کی ہے۔
عربک ڈیسک
عربی ڈیسک بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے۔ مختلف پمفلٹ تیار کئے ہیں۔کتب کا ترجمہ کیا ہے۔اور کافی تعداد میںکتب شائع کی ہیں ۔
ایم ٹی اے 3ا لعربیہ
ایم ٹی اے تھری العربیہ کے (بارہ میں ) جو تأثرات ہیں (ان میں سے )بعض بیان کر دیتا ہوں۔
عبدالخالق صاحب لکھتے ہیں کہ میری عمر پچاس سال ہے۔ شروع سے ملحدانہ زندگی گزاری۔ تقریباً ایک سال قبل ایک عجیب سی تجلی دیکھی جسے دل نے محسوس کیا اور آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف میں دیکھا۔جب یہ بات لوگوں کے سامنے بیان کی تو کوئی نہ مانا بلکہ مخالفت پر اُتر آئے۔ اس کے ایک سال کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمرؓ کے ہمراہ دیکھا جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناسخ و منسوخ کے بارے میں پوچھ رہے تھے لیکن حضورؐ نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہ آسکی کہ کیوں جواب نہ دیا۔ پھر اچانک ایم۔ٹی۔اے دیکھنے کا موقع مل گیا جس پر وہی بات جاری تھی جو مَیں نے خواب میں دیکھی تھی۔ یعنی حضرت عمرؓ کا ناسخ و منسوخ کے بارہ میں پوچھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب نہ دینا۔ چند لمحوں میں ہی میری تسلی ہو گئی اور مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ یہی میری جماعت ہے۔ اس کے بعد مَیں نے اپنے بھائی مؤفق کو تبلیغ کی۔ وہ بھی مطمئن ہو گیا اور ہم نے بیعت کا فیصلہ کرلیا۔
پھر مصر سے حسین صاحب لکھتے ہیں کہ تقریباً تیس سال قبل مَیںنے خواب دیکھا کہ ایک صحراء میں لوگوں کی ایک لمبی قطار کے ساتھ چل رہا ہوں۔ قطار بڑی منظم تھی، میں سب سے پیچھے تھا۔ اس کے باوجود سب سے اگلے آدمی کو دیکھ سکتا تھا۔ جس نے جھنڈا اُٹھایا ہوا تھا جس پرلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔لکھا تھا اور سارے لوگ بڑے وقار سے کلمہ طیبہ دہراتے جاتے تھے۔ اُسی وقت سے مَیں اس جماعت کی تلاش میں تھا کہ اچانک ایک روز ایم۔ٹی۔اے العربیہ مل گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ اسلام کی سچی نمائندہ جماعت ہے۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیار کردہ اسی کشتی نوح پر سوار ہونے کا فیصلہ کر لیا اور دل و جان سے مطمئن ہو کر بیعت فارم پر دستخط کئے ہیں۔ براہِ کرم قبول فرمائیں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔
ایک محمود صاحب ہیں جو سیریا سے لکھتے ہیں کہ میری ظاہری تعلیم تو کوئی نہیں لیکن دینی علم ضرور ہے۔ جماعت سے تعارف سے قبل مولویوں سے گفتگو کیا کرتا تھا اور ہمیشہ اُن کی باتوں سے اختلاف کرتا تھا کیونکہ اُن کی باتوں سے تسلی نہ ہوتی تھی۔ میں اپنی رائے پر مصر رہتا تھا یہاں تک کہ بعض مولوی کہتے کہ تم مسلمان ہی نہیں۔ میں اُنہیں کہتا کہ اگر یہی اسلام ہے جو تم پیش کرتے ہو تو میں اس اسلام سے باز آیا۔ خواب میں دیکھا کرتا تھاکہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کر رہا ہوں۔کیونکہ مَیں ہمیشہ آپ کی سیرتِ طیبہ کا دفاع کیا کرتا تھا۔ ہماری فیملی بیک گراؤنڈ عیسائی ہے تا ہم میرے والد نے جوانی کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ میرے سارے بچے بھی بیعت کرتے ہوئے قبولیت کی درخواست کرتے ہیں۔
پھر عبدالحمید صاحب اُردن سے لکھتے ہیں کہ حق و باطل میں پہچان کرنے کے لئے لمبے عرصے سے ایم ٹی اے دیکھ رہا تھا۔ آپ کوحق پر پا کر بیعت کرنا چاہتا ہوں ۔قبول فرمائیں۔ خواب میں دیکھا کہ ایک مسجد میں تین بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ درمیان والے نے اپنا تعارف کروایا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ دوسرے دونوں کے بارے میں بتایا کہ ایک حضرت مسیح موعود ہیں اور ایک عیسیٰ۔ ان میں سے حضرت مسیح موعود کی شکل وہی تھی جو ایم۔ٹی۔اے پر نظر آتی تھی۔
مصر سے ایک صاحبہ ہیں کہتی ہیں کہ میرے خاوند محترم محمد بدوی عبدالحمید صاحب نے حال ہی میں بیعت کی ہے۔ اُن کی بائیں آنکھ پیدائشی ناکارہ ہے۔ ہمارے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ فروری 2010ء میں اچانک حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر ایم ٹی اے پر دیکھ کر فوراً پہچان کر بیعت کر لی۔
پھر ایک یونس صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں گزشتہ چار ماہ سے آپ کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں اور میری تسلی ہو چکی ہے کہ آپ لوگ سچے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے اپنے طورپر خدا تعالیٰ کے ساتھ بیعت کرلی ہے۔ پھر مَیں نے خواب میں بھی بیعت کر لی۔ پھر ٹی وی کے ذریعے میں نے آپ کی بیعت کر لی۔ میرے پاس دینی علم تھا اور میں مختلف صوفیاء کی جماعتوں میں شامل رہا۔ میں نے اپنے شیخ جناب سلطان بدرانی صاحب سے جماعت کے بارے میں پوچھا کہ کیا جماعت احمدیہ اور امام مہدی علیہ السلام کی تعلیمات کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں۔مَیں نے خواب میں مکرم طاہر ندیم صاحب کو تبلیغ کرتے دیکھا۔ ان سے ملاقات کی ہے۔ مَیں نے اپنے علاقے میں 75گھروں کا دورہ کیا اور اُنہیں ایم۔ٹی۔اے کے پروگرام دیکھنے کی نصیحت کی۔ مَیں آپ لوگوں کو حق پر سمجھتا ہوں اورآپ کی جماعت کی صداقت پر یقین رکھتا ہوں۔
فلسطین سے ایک صاحب ہانی طاہر صاحب کو لکھتے ہیں کہ 1999ء میں مَیں نے اپنے بھائی ہانی طاہر کی زبانی احمدیت اور اس کے عقائد یعنی وفاتِ مسیح اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں سنا۔ گو میں ان کی باتیں سنتا تھا لیکن شاید ان امور میں تعمق اور تحقیق میرے بس کا کام نہ تھا۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان امور کی سمجھ نہیں آتی۔ تُو ہی کوئی ایسا واضح رؤیا دکھا جس سے احمدیت کی صداقت یا بطلان ثابت ہو جائے اور میں کسی فیصلہ پر پہنچ سکوں۔ چنانچہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک گاؤں کی خالی سڑک پر چل رہا ہوں جس کے ارد گرد بعض قدیم طرز کے مکان ہیں اور جن میں سے بعض مدتوں سے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ اس سڑک پر میں نے دو دیوقامت شخص دیکھے جن کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ڈنڈے تھے۔ ان کے عقب میں ایک بڑی سی کار کھڑی تھی جن میں کوئی سوار نہ تھا۔ ان دونوں قوی ہیکل اشخاص نے ڈنڈے لہراتے ہوئے میری طرف بڑھنا شروع کیا اور نسبتاً قریب آنے پر ایک نے کہا کہ اگر یہ امام مہدی سچاہے تو پھر آج تمہیں ہمارے ہاتھ سے بچا کر دکھائے۔ میں ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ اچانک وہ کار جس میں کوئی سوار موجود نہ تھا حرکت میں آئی اور اتنی تیزی سے ان کی طرف بڑھی کہ سنبھلنے سے قبل ہی اُنہیں کچل ڈالا۔ خوف کے مارے میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا سے مجھے میری مراد مل گئی۔ اور نہایت وضاحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میری مرضی کے مطابق مجھے سمجھا دیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سچے ہیں۔ لہٰذا میں نے کسی اور دلیل کے بغیر ہی بیعت کر لی۔
سعودی عرب کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے تیس سال قبل حضرت مسیح موعودؑ کو ایک غار میں دیکھا تھا جس میں ہر طرف نور چمک رہا تھا۔ حضور علیہ السلام میری طرف تشریف لائے اور میرا نام پوچھا۔ مَیں نے نام بتایا کہ میرا نام فلاں ہے۔ آپ نے دو تین دفعہ فرمایا کہ مَیں عبداللہ مہدی ہوں،مَیں مہدی ہوں۔ حضور نے سبز پگڑی پہن رکھی تھی۔ اُس وقت مجھے خیال ہوا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور نے خواب میں ہی مجھے فرمایا کہ تمہاری بیوی میری بیٹی ہے اس سے اچھا سلوک کیا کرو اور تنگ نہ کیا کرو۔ اس کے بعد میں نے اُس کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور نیک سلوک کرنے لگا۔ پھر کچھ ڈیڑھ سال قبل خواب میں ایم۔ٹی۔اے پر دیکھا تو وہی خواب یاد آ گئی۔
پھر ایک صاحب سلطنتِ عمّان سے لکھتے ہیں کہ ایک عرصہ سے حق کی تلاش میں تھا جسے اب پا لیاہے الحمدللہ۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر شدت سے خواہش ہوتی تھی کہ کاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ترقی کی خاطر دوبارہ تشریف لے آئیں۔ ایک بار مختلف چینل گھما رہا تھا کہ اچانک ایم ٹی اے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دیکھ کر یوں لگا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ہو۔ یہ تصویر دل میں گھر کر گئی۔ایک روز کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے بارہ میںذکر کیا۔ اور دجّال کے بارے بتایا کہ اس سے مراد عیسائی پادری ہیں۔ میں نے شروع میں اس کی سخت مخالفت کی لیکن بعد میں حقیقت کھل گئی۔ اس رات دو بجے تک ایم۔ٹی۔اے دیکھتا رہا اور جماعت اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ محبت بڑھتی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے صحیح اسلام کی طرف رہنمائی فرمائی اور قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ حضرت مسیح موعود کی کتب اور خلیفہ ثانی کی تفسیر کبیر پڑھی اور بہت پسند آئیں۔
اللہ کے فضل سے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔عربوں کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ بیان کرنے مشکل ہیں۔ اس لئے مَیں نے ماجد صاحب کو کہا ہے کہ وقتا فوقتاً مضمون لکھتے رہا کریں۔ واقعات بیان کرتے رہا کریں۔
پھر ایک صاحبہ، سعودی عرب سے لکھتی ہیں کہ مَیں مدینہ منورہ سے ہوں اور مکّہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ اے امیر المؤمنین! اے اسلام کے شمس و قمر! میری طرف سے سلام کا تحفہ قبول فرمائیں۔ اہلِ مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار بنے تھے، اب انہی انصار کی نسل سے ہم لوگ امام مہدی کے انصار بننے کو تیاربیٹھے ہیں۔ میری بیعت قبول کریں۔
پھر سعودیہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں نے جونہی امام مہدی علیہ السلام کے بارہ میں سنا فوراً ایمان لے آیا۔ وجہ یہ کہ جب میری عمر صرف گیارہ سال تھی اُس وقت مَیں نے دعا کی تھی اور تلاش بھی جاری رکھی کہ اے خدا! مجھے امام مہدی کے متبعین میں سے بنا۔ اور مجھے جواب آیا کہ تو اُن میں سے ہے۔ چنانچہ میرے پاس بہت سی خوابیں اور کشوف ہیں جن سے مجھے یقینی علم ہو گیا کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔میری بیعت قبول فرمائیں۔
پھر اسی طرح بہت ساری خوابیں ہیں جن میں بعضوں کو اللہ تعالیٰ نے بچپن سے بتا دیا تھا اور اب ایم۔ٹی۔اے کے ذریعہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر یا خلفاء کی تصویر دیکھتے ہیں، تو اُن کو کوئی نہ کوئی پہچان ہو جاتی ہے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا مینجمنٹ بورڈ ہے۔ اُس کے ماتحت چودہ ڈیپارٹمنٹ کام کر رہے ہیں۔ 123مرد اور 52خواتین ہیں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیںاللہ کے فضل سے چوبیس گھنٹے ایم ٹی اے چلتا ہے۔یہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ انٹر نیٹ پر بھی ایم ٹی اے کی وسعت ہو گئی ہے۔ امسال سٹریمنگ (Streaming)کے کام کو مرکزی طور پر اِن ہاؤس (In House)شروع کیا گیا ہے۔اس سے قبل یہ سروس باہر کی ایک کمپنی کے ذریعہ مہیا کی جارہی تھی، چنانچہ امسال ایم ٹی اے کے تینوں چینلز کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کے تراجم کی سٹریمنگ کا اجراء بھی کیا گیا ہے اور اس وقت ترجمہ کو ملا کر سولہ مختلف سٹریمز (Streams)انٹرنیٹ پر بیک وقت نشر ہو رہی ہیں۔ پھر اس سال بلیک بَری، آئی فون اور انڈرائیڈ فون پر ایم ٹی اے کا اجراء بھی ہو چکا ہے۔ دنیا کے جو مقبول ترین موبائل فون سسٹم ہیں اُن میں ایم ٹی اے کے تینوں چینلز کا اجراء کیا گیا ہے اور ان پر ایم ٹی اے کی نشریات دنیا بھر میں کہیں بھی دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔ دورانِ سفر، کالج، یونیورسٹی میں بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے، آئی پیڈ کے ذریعہ سے یہ دیکھا جا سکتا ہے اور اس سال اللہ کے فضل سے اب تک جورپورٹ ہے ہزاروں لوگوں نے آئی فون کے ذریعہ سے بھی اس جلسہ کی پہلے دن کی کارروائی سنی ہے ۔ اس دفعہ یہ نہیں ہے کہ شروع ہوا اور بند ہو گیا، کامیاب نہیں ہوا بلکہ گزشتہ تین مہینے سے تجربہ ہو رہا تھا۔ مَیں نے کہا تھا پہلے دیکھیں، کامیابی ہو گی تب اناؤنسمنٹ ہو گی۔
ایم ٹی اے پر اناؤنسمنٹ بھی آ رہی ہے اور اچھا فیڈ بیک بھی ہے۔
ایم ٹی اے کے ذریعہ بیعتیں
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہوتی ہیں۔ بینن سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ’اوجا ‘(Oja)تبلیغ کرنے کے لئے گئے تو وہاں امام مہدی علیہ السلام اور خلافتِ احمدیت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فولڈر جَآئَ الْمَسِیْح بھی دیا۔ اس فولڈر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور میری تصویر تھی۔ وہ دیکھتے ہی امام بڑی تڑپ سے مقامی زبان میں کہنے لگا کہ یہ تو میرے دوست کی تصویر ہے۔ یہ تو میرے دوست کی تصویر ہے۔ امام صاحب نے صحن کے ساتھ ہی کمرے میں پڑے ٹی وی کو آن کیا جہاں ایم ٹی اے آ رہا تھا اور میری تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ یہ روز آ کر ہمیں سکھاتے ہیں۔یہ میرے دوست ہیں۔ تم ان کا پیغام لائے ہو۔اُنہیں کیسے ماننا ہے؟ چنانچہ بیعت فارم لے کر امام صاحب فیملی سمیت احمدی ہو گئے۔
پھر باسیلا ریجن بینن کے لوکل مشنری بتاتے ہیں کہ ایک علاقے کے گاؤں میں’پاتاگو ‘کے ایک ٹیچرکا فون آیا کہ آپ کا ایک فولڈر جاء المسیح ملا ہے اور میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ گاؤں دور تھا۔ بہر حال ہفتے کے اندر مقررہ وقت پر ہم وہاں پہنچ گئے۔ مختصر سے تعارف کے بعد اُس نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے ایم۔ٹی۔اے چینل دیکھ رہا ہوں اور مَیں اس کوشش میں تھا کہ معلوم کروں کہ یہ لوگ کون ہیں جو دین کو اتنا صاف طور پر بیان کرتے ہیں اور تربیت کرتے ہیں۔ بالآخر آپ کے فولڈر سے آپ کا معلوم ہوا اور میں آپ لوگوں کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی اور ہمارے تبلیغی دورہ جات میں جانے لگے۔ اللہ کے فضل سے انہی صاحب کے ذریعہ سے 123نئے پھل عطا ہو چکے ہیں۔
ہالینڈ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مراکشی دوست نے 2000ء میں ایم ٹی اے دیکھا لیکن کوئی خاص توجہ نہ کی۔ اب مسلمانوں کی بدحالی اور انحطاط دیکھ کر توجہ پیدا ہوئی اور سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اس سے بد حالات کیا ہوں گے؟ اور یہ وقت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا ہے۔ یہ سوچ آتے ہی اُنہیں ایم ٹی اے کا خیال آیا کہ اس پر امام مہدی علیہ السلام کا ذکر ہو رہا تھا۔ چنانچہ گیارہ سال بعد ایم ٹی اے تلاش کر کے دوبارہ دیکھنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد شرح صدر ہو گیا اور بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو گئے۔
سپین سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان یوسف بن محمد آشیبان صاحب جو کہ بارسلونا سپین میں رہتے ہیں، نومبر 2010ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے۔ انہوں نے اپنی قبولیتِ احمدیت کا واقعہ اس طرح بیان کیا کہ جہاں میں کام کرتا تھا وہاں میرے ساتھJehova Witness کا ایک لڑکا بھی کام کرتا تھا۔ وہ لڑکا روزانہ مجھے عیسائیت کی خوبیاں بتاتا اور ہلکے پھلکے انداز میں اسلام پر ایسا اعتراض کر دیتا جس کا میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ اس پر عیسائیت کا مجھ پر غیر محسوس طور پر اثر ہونا شروع ہو گیا۔ مَیں ایک مرتبہ اُس کے ساتھ چرچ بھی گیا۔ وہ مجھے ایسی مجالس میں بھی لے گیا جہاں عیش و عشرت کے سامان میسر تھے اور مجھے کام کی بھی لالچ دینی شروع کر دی۔ قریب تھا کہ مَیں عیسائیت قبول کر لیتا کہ اتفاقاً ان دنوں میرے گھر کا رسیور خراب ہو گیا۔ نیا رسیور خرید کر لایا اور اُسے سیٹ کر کے جو چینل اس میں سے ختم کرنے تھے، اپنی بہن کے ساتھ مل کر اُنہیں ڈیلیٹ کر رہا تھا کہ ایم ٹی اے العربیہ دیکھا۔ پہلے تو ڈیلیٹ(Delete) کرنے لگا پھر اس خیال سے کہ اُسے دیکھ کر ختم کرتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟ چنانچہ جب اُسے دیکھنے لگا تو اُس وقت ایم ٹی اے پر عیسائیت کے متعلق ہی پروگرام چل رہا تھا جس سے دلچسپی بڑھ گئی اور اُسے ختم کرنے کی بجائے مستقل دیکھنا شروع کر دیا۔ مجھے اُن تمام اعتراضات کا جواب مل گیا جوJehova Witness والے اسلام پر کرتے تھے، چنانچہ یہ جوابات مَیں نے اُنہیں دئیے تو انہوں نے میرا پیچھا چھوڑا اور اس طرح میں عیسائیت کی طرف جاتے جاتے احمدیت کی برکت سے دوبارہ اسلام کی طرف آ گیا۔
ناروے کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک کُرد عرب خاتون نے ایم ٹی اے کے ذریعہ یکم اپریل 2011ء کو بیعت کی تھی۔ یہ اوسلو سے تقریباً 125کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ایک شہر فرینٹک (Frantic)میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے دو بیٹے تیرہ اور چودہ سال کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مربی صاحب اور اپنی اہلیہ کے ساتھ ان سے ملاقات اور رابطے کے لئے ان کے گھر گیا۔ اُن کی والدہ سے بھی ملاقات ہوئی۔بہت خوش ہوئیں۔ خاتون بتا رہی تھیں کہ اُنہیں انتظار تھا کہ نظامِ جماعت اُن سے رابطہ کرے۔ اُنہیں نظامِ جماعت، جماعت احمدیہ ناروے، مشن ہاؤس، مسجد ناروے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ 2006ء میں وہ مختلف TVچینلز دیکھ رہی تھیں کہ اچانک ایک چینل پر اُن کی نظر ٹھہر گئی جہاں کچھ لوگ عربی بول رہے تھے اور خدا اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کر رہے تھے۔ یہ چیز میرے لئے ایک انوکھی چیز تھی ۔مَیں نے چینل میں اُسے فیورٹ میں رجسٹر کر لیا۔ لیکن بعد میں بچوں نے ٹی وی کو چھیڑا تو یہ چینل گم ہو گیا۔بہت تلاش کیا مگر نہ مل سکا۔ 2009ء میں ٹی وی لگا رہی تھی اچانک ایم۔ٹی۔اے کا گمشدہ چینل مل گیا۔ میری کیفیت یہ تھی کہ جیسے برسوں کی گمشدہ چیز مل گئی ہو۔ یہ خاتون کہتی ہیں جب مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو مجھے اُسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
ایم ٹی اے کے ذریعہ نمایاں تبدیلیوں کے ایمان افروز واقعات
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض نمایاں تبدیلیاں بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ مجیب صاحب مبلغ باسا ریجن بینن لکھتے ہیں کہ ایک شہر کا مولوی عبدالکریم ایک مدرسے کا پڑھا ہوا ہے۔یہ جماعت کا شدید مخالف تھا اور لوگوں کو بتاتا رہتا تھا کہ یہ جماعت کافر ہے۔ اب کچھ عرصے سے اس کی جماعت کے خلاف مخالفانہ سرگرمیاں بہت حد تک ختم ہو چکی تھیں اور کچھ عرصے سے کوئی شور شرابہ نہ سنا تھا۔ چنانچہ اُس سے ملنے گئے کہ خاموشی کی وجہ پوچھیں۔ اُس نے بتایا کہ وہ کوتونو(Kotono) گیا تھا وہاں کسی نے بتایا کہ ایم ٹی اے چینل پر عرب لوگ اسلام کی صحیح تعلیم پیش کرتے ہیں۔ واپس گھر آ کر انہوں نے اپنی ڈش لگائی اور تب سے باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھ رہے ہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ اُنہیں اُس وقت کا بہت افسوس ہے جب وہ جماعت کے مخالف تھے حالانکہ اسلام تو آپ لوگوں کے پاس ہے۔ آپ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ یہی مولوی صاحب جو پہلے ہمیں کافر کہتے تھے اب دعائیں دیتے رہے۔
گیمبیا کی بھی خبر ہے۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ’سامباباجا‘ صاحب نے اپنے گھر میں ایم ٹی اے کا انتظام کیا اور اُن کے ایک دوست اسومانا(Ansumana) صاحب اکثر ان کے گھر آ کر ایم ٹی اے دیکھتے تھے۔ اُنہی دوست کے ایک بھائی سوئٹزرلینڈ میں زیرِ حراست تھے اور رہائش کے سلسلے میں سخت قسم کی مشکلات کا سامنا تھا۔ ہر قسم کی امید کھو چکے تھے۔ سامبا جا نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھر میں ایم ٹی اے کے لئے ڈش لگوا لے ۔ اسومانہ صاحب نے اپنے گھر میں ایم ٹی اے کے لئے ڈش لگوا لی جس سے جماعت کے عقائد کے متعلق ان کے علم میں مزید اضافہ ہوا۔ ایم ٹی اے دیکھنے کے ساتھ انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر احمدیت سچی ہے تو میرے بھائی کو ڈیپورٹ(Deport) ہونے سے بچا لے۔ رات کے وقت اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ انہوں نے میرے ساتھ ملاقات کی ہے اور ملاقات کے دوران وہ بہت خوفزدہ بھی ہیں تو مَیں نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور اُن سے کہا کہ وہ مادی چیزوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان کو احمدیت قبول کر لینی چاہئے۔ اور اُن کو کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ سب مشکلات کو حل کرنے والا ہے۔ اگلے ہی دن اُن کے بھائی کی سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں سماعت تھی۔ عدالت نے اُن کو بری کر دیا اور سوئٹزرلینڈ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ جاری کر دیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ احمدیت ایک سچائی ہے۔ اب وہ اپنے دوستوں کو بھی ایم ٹی اے لگانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
برکینا فاسو کے مبلغ واصف صاحب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک گاؤں زیلاسے کے امام سے گاؤں کے بچوں کے لئے قرآن کلاس شروع کرنے کو کہا تو امام کی طرف سے کوئی خاص جواب نہ ملا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے معلم صاحب کے ذریعہ متعدد دورہ جات کے دوران امام کی اس طرف توجہ مبذول کروائی مگر ہر دفعہ امام کی طرف سے کوئی نہ کوئی بہانہ سننے کو ملا۔ 2010ء سے جب اس گاؤں میں جماعتی طور پر ایم ٹی اے کے لئے ڈش لگائی گئی تو اس گاؤں کے احمدی ممبران کے ایمان میں کافی ترقی نظر آئی۔ چندہ جات اور اجلاسات میں شرکت بڑھ گئی۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ جب وہ دوبارہ معلم صاحب کے ساتھ اس جماعت کے دورہ پر گئے تو امام نے بغیر کسی یاددہانی کے قاعدہ یسرنا القرآن مانگے۔ جب مربی صاحب نے اُن سے پوچھا کہ اب کلاس شروع کرنے کی کیا وجہ ہے تو امام نے کہا کہ ہم ہر روز ایم ٹی اے پر خلیفۃ المسیح کی بچوں کے ساتھ کلاس دیکھتے ہیں۔ جب خلیفۃ المسیح خود چھوٹے چھوٹے بچوں کو قرآن اور دین کی باتیں سکھا رہے ہیں تو میں کیوں پیچھے رہوں۔
پھر آصف ڈار صاحب کہتے ہیں کہ ایک نومبائع گاؤں’ گا کپینو‘(Gah Kpenou) میں مسجد کی تعمیر جب آخری مراحل میں تھی تو وہاں ایم ٹی اے کی بھی انسٹالیشن (Instalation)کر دی گئی۔ وہاں پر موجود مستری نے بتایا کہ جس دن آپ ایم ٹی اے لگا کر گئے ہیں سارے کا سارا گاؤں تمام رات نہیں سویا۔ لوگ بڑی خوشی سے مسجد میں موجود رہے اور ایم ٹی اے دیکھتے رہے۔ گو صرف چند افراد ہی فرنچ زبان جانتے ہیں لیکن اُن کی ایم ٹی اے کے ساتھ اٹیچمنٹ(Attachment) بہت زیادہ ہے۔
ٹی وی پروگرام
پھر اسی طرح ایم ٹی اے کے علاوہ دنیا میں مختلف ٹیلیویژن چینلز کے ذریعہ سے اٹھارہ سو گھنٹے کے 1413پروگرام دکھائے گئے۔ دس کروڑ سے زائد افراد تک اس کے ذریعے سے پیغام پہنچا۔
ریڈیو پروگرام
ریڈیو سٹیشنز پر 5628گھنٹوں پر مشتمل 5820 پروگرام نشر ہوئے اور سات کروڑ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ افریقن ممالک میں جماعت کے ریڈیو سٹیشن بھی ہیں۔ برکینا فاسو کے 25ریڈیو سٹیشنز سے جماعت کے ہفتہ وار پروگرام پانچ زبانوں میں ہو رہے ہیں۔ علاوہ اپنے ریڈیو سٹیشن کے ملکی ریڈیو سٹیشن جو ہیں وہاں سے بھی پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ چار ریڈیو سٹیشنز برکینا فاسو میں جماعت احمدیہ کے قائم ہیں۔ سیرالیون میں بھی جو احمدیہ مسلم ریڈیو سٹیشن ہے اس سے آٹھ گھنٹے کی نشریات ہوتی ہیں اور 120میل کے علاقے تک سنی جاتی ہیں۔ مقامی زبان میںمیرا خطبہ بھی ہوتا ہے جو سنا جاتا ہے۔ ان کے مختلف پروگرام وہاں کے لوکل چینل بھی دکھاتے رہے۔
ریڈیو پروگراموں کے ذریعہ قبول احمدیت کے واقعات
برکینا فاسو کے ریجن’ لیو‘ کے ایک گاؤں ٹو سے دو افراد ہمارے مشن آئے اور بتایا کہ ریڈیو کے ذریعے سے ہم احمدیت سے واقف ہو چکے ہیں۔ تمام پروگرام جو ریڈیو پر نشر ہوتا ہے ہم وہ سنتے ہیں۔ جماعت احمدیہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بہترین خدمت کر رہی ہے۔ ہمارے بہت سے سوالات کے تسلی بخش جوابات ہمیں ریڈیو سے مل گئے ہیں۔ پھر اُن کو احمدیت کا تعارف کرایا اور اُنہوں نے کہا ہم گاؤں جا کر بتائیںگے۔ چنانچہ وہ گاؤں گئے اور وہاں سے پھر چالیس بیعتیں لے کر آئے۔
اسی طرح کافی پروگرام ہیں جو ریڈیو کے ذریعے سنے جاتے ہیں۔
برکینا فاسو کے ریجن بوبو جلاسو میں ایک خاتون جن کی عمر 54سال ہے ہمارے ریڈیو اسلامک احمدیہ میں آئیں اور کہا کہ آپ کے ریڈیو کے پروگرام سن کر الحمدللہ آج میں قرآنِ کریم پڑھ سکتی ہوں۔ آپ کے ریڈیو کی وجہ سے آج مردوں کی طرح ہم عورتیں بھی قرآنِ کریم پڑھنے کے قابل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح بچوں کے پروگرام ہیں وہ بھی بڑی خوشی سے آ کر بتاتے ہیں۔
سالانہ رپورٹ احمدیہ ویب سائٹ
اس کے انچارج ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب ہیں۔ روحانی خزائن کے حوالے تلاش کرنے کے لئے جو سسٹم انسٹال کیا گیا تھا اُس میں کچھ بہتری کی گئی ہے۔ اب اس میں انگریزی حصہ بھی ایڈ(Add) کر دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کے اردو اور انگریزی تراجم و تفاسیر کے علاوہ تیس زبانوں میں تراجم online availableہیں۔ ویب سائٹ میں تقریباً پانچ سو اُردو کتب اور 180انگریزی کتب مہیا کی گئی ہیں۔ آڈیو میں اُردو کی باسٹھ(62) کتابیں اور انگریزی میں چودہ (14)کتابیں میسر ہیں۔ خلفائے سلسلہ احمدیہ کے خطبات اٹھائیس سو (2800) کی تعداد میں آڈیو اور وڈیو کی صورت میں میسر ہیں۔ میڈیا اور لائبریری میں ایک ہزار کی تعداد میں ویڈیو پروگرام ڈالے گئے ہیں۔ اس طرح بہت سارے دوسرے پروگرام بھی ہیں۔ برکینا فاسو میں بھی یہ چل رہا ہے ۔
تحریکِ وقفِ نو
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال واقفینِ کی تعداد میں تین ہزار ایک سو چھہتّر(3176) واقفین کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ واقفین کی کل تعداد چوالیس(44) ہزار تین سو چھیانوے(396) ہو گئی ہے۔ لڑکوں کی تعداد ستائیس ہزار سات سو چھپن(27,756) اور لڑکیوں کی تعداد سولہ ہزار چھ سو چالیس (16,640)ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تناسب ایک اور ایک اعشاریہ سات ہے۔ اور سب سے زیادہ پاکستان کے ہیں اس کے بعد دوسرے ممالک کے۔
مخزن تصاویر
مخزنِ تصاویر میں بھی اچھی نمائش ہو رہی ہے۔ آرکائیو میں پُرانی تاریخی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔
پریس اینڈ پبلیکیشن
پریس اینڈ پبلیکیشن کاجو شعبہ ہے اس میں بھی اچھا کام ہو رہا ہے۔
مجلس نصرت جہاں
مجلس نصرت جہاں کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں انتالیس(39) ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ اکتالیس(41) ڈاکٹر خدمت میں مصروف ہیں۔ بارہ(12) ممالک میں ہمارے چھ سو چھپن (656)
ہائر سیکنڈری سکول ، جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں۔ کینیا میں شیانڈا(Shianda) کے مقام پر ہمارا ہسپتال قائم ہے اُس میں اس سال مزید بہتری پیدا کی گئی ہے۔ اُن کوبعض مشینیں دی گئی ہیں۔ مختلف سیاسی لیڈر اور وزیر اور صدران جو ہیں ہمارے ہسپتالوں اور سکولوں کی غیر معمولی تعریف کرتے ہیں۔ آج بھی آپ نے لائبیریا کے حوالے سے سنا۔ گیمبیا میں بصّے(Basse) کلینک کے انچارج ڈاکٹر تنویر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیس سالہ بیٹے کو ہمارے کلینک میں لایا جو فٹبال کھیلتے ہوئے زخمی ہو گیا تھا۔ اور اس کے بدن کا نچلا حصہ پیرالائز (paralyse)ہو گیا تھا۔ وہ چل نہیں سکتا تھا اور ایک سال سے بستر پر تھا۔ اُس نے کافی علاج کروایا اور مذہبی رہنماؤں کے پاس بھی گیا لیکن بے سود۔کہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ ہمارے پاس آ گیا۔ چیک اَپ کے بعد اُسے ایک ہفتہ کی دوائی دی۔ اُنہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے خط لکھا ۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ واپس آیا تو کچھ بہتری تھی۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے دو ہفتے کی اور دوائی دے دی۔ جب وہ دو ہفتے کے بعد آیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بیساکھی کے سہارے چل رہا تھا اور والد اور چچا اُس کے بہت خوش تھے۔ اس کی وجہ سے احمدیہ کلینک کا بڑا چرچا ہوا۔
ایک اور مریض یٰسین صاحب کو بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے گینگرین شروع ہوئی۔ اُن کی عمر ابھی صرف 32سال ہے۔ انہوں نے کافی ایلوپیتھک ادویات استعمال کیں مگر مرض بڑھتا گیا۔ دوسری اور تیسری انگلی بھی سیاہ ہو کر جلی ہوئی لکڑی کی طرح ہو گئیں۔ تمام بڑے بڑے ڈاکٹروں نے بھی اُسے کٹوانے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ میرا علاج کریں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں دعا کے لئے اپنے خلیفہ کو خط لکھتا ہوں۔ اس میں آپ کے لئے بھی دعا کا لکھ دیتا ہوں۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دوماہ کے علاج کے بعد اس کی انگلیاں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔ اور ڈاکٹر بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں۔
احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز
یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کر رہی ہے اور انہوں نے ایک ماڈل ویلیج جو مَیں نے پچھلے سال ان کو بنانے کاکہا تھا ، بنا دیا ہے اور اس سال انشاء اللہ تعالیٰ پانچ مختلف افریقن ممالک میں اور ماڈل ولیج بنائیں گے جن میں بجلی، پانی اور سڑکوں کی سہولت ہو گی۔ اور ایک چھوٹا سا گرین ہاؤس بھی ہو گا جہاں گاؤں والے سبزیاں وغیرہ اُگا سکیں گے۔ اللہ کے فضل سے انہوں نے کافی واٹر پمپ بھی لگائے ہیں اور پانی مہیا کرنے میں، بجلی مہیا کرنے میں یہ والنٹیئر کافی اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہاں سے اور یورپ سے لڑکے جاتے ہیںاور کام کرتے ہیں۔
انجینئرز ایسوسی ایشن کے دو ممبر نلکوں کی مرمت کے لئے یہاں سے مالی(Mali) میںبھجوائے گئے ۔بفضلہ تعالیٰ بیس دنوں میں انہوں نے اکتیس(31) نلکے مرمت کر دئیے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قوم میں دو تین مقامی افراد کو ٹریننگ بھی دی اور کمیٹی تشکیل دے دی۔ میئر اور چیف نے اس کام کو بہت سراہا۔ اور تمام سرکاری افسران نے ان کاموں کو بہت سراہا۔ اور پھر اس سے جماعت احمدیہ کووہاں کافی تعارف حاصل ہوا۔
بینن(Benin) کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں دو دریاؤں کے سنگم پر واقعہ ہے۔ہماری ٹیم بڑا دشوار گزار راستہ طے کر کے وہاں پہنچی اور واٹر فار لائف کے تحت کام شروع کیا۔ وہاں کا پمپ عرصہ بارہ سال سے بیکار تھا۔ زنگ آلود اور پرانا سامان باہر نکال کر کمپریسر سے پانی کی صفائی کی گئی۔ پانی جاری ہونے پر لوگوں کی خوشی قابلِ دید تھی۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو اس مردہ گھوڑے کو بھول چکے تھے، ہم آپ کا کس زبان سے شکریہ ادا کریں۔
ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First)
Humanity Firstکے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں، والنٹیئرز بھی جاتے ہیں، کچھ ان کے بھی ہیں اور کچھ دوسرے بھی بیچ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ہیومنٹی فرسٹ جرمنی کے تعاون سے آنکھوں کے ایک سو مفت آپریشن کئے گئے۔ جاپان کے زلزلے میں ہیومنٹی فرسٹ نے کافی خدمات سرانجام دیں۔
نومبائعین سے رابطوں کی بحالی
نو مبائعین سے رابطے میں غانا سرِ فہرست ہے۔ انہوں نے دورانِ سال چوبیس ہزار چار سو (24,400) نو مبائعین سے رابطہ کیا ہے اور گزشتہ چھ سالوں میں اب تک اللہ کے فضل سے نو لاکھ تیس ہزار دو سونو (930,209) نو مبائعین سے رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر نائیجیریا ہے انہوں نے اس سال اڑتیس (38)ہزار سے زائد نومبائعین سے رابطہ قائم کیا۔ اور ان کا بھی پانچ(5) لاکھ ساٹھ ہزار(60) سے اوپر رابطہ ہو چکا ہے۔ برکینا فاسو نے اس سال اٹھارہ ہزار چھ سو(18,600) نو مبائعین سے رابطہ زندہ کیا۔ دو لاکھ اڑتیس ہزار(2,38000) سے رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ آئیوری کوسٹ نے آٹھ ہزار نو سو(18,900)سے رابطہ کیا۔ یہ اب تک چھپن(56) ہزار سے زائد نو مبائعین سے رابطہ کر چکے ہیں۔ سیرالیون نے دورانِ سال چھتیس ہزار سات سو(36,700) نومبائعین سے رابطہ کیا اور اب تک ایک لاکھ اڑتیس (38)ہزار سے زائد سے رابطہ کر چکے ہیں۔ ہندوستان میں جو رابطے ہوئے ہیں اُن کی تعداد دو ہزار دو سو اکاسی (2,281)ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اکاسی ہزار نو سو (81,900)سے اوپر نومبائعین سے رابطہ کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش گیارہ سو ساٹھ(1108) سے زائد نو مبائعین سے رابطہ کیا۔ کینیا نے چار ہزار چھ سو (4,600)سے زائد افراد سے رابطہ قائم کیا۔ اس طرح چھیالیس(46) ہزار آٹھ سو (800)سے رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ یوگنڈا میں بھی اس سال اٹھارہ سو اکانوے(1891) نو مبائعین سے رابطہ ہوا۔ بینن میں دس ہزار نو سو (10,900)سے اوپر نو مبائعین سے رابطہ ہوا۔ اسی طرح باقی ممالک ہیں۔ ان رابطوں کے بعد اب وہاں کے مقامی علماء کو ، اماموں کو ٹریننگ دی جاتی ہے تا کہ وہ جماعت سے جڑے رہیں۔
یوکرائن کی ایک گمشدہ احمدی فیملی
نسیم مہدی صاحب لکھتے ہیں کہ چند ماہ قبل ایک احمدی خاتون نے بتایا کہ ان کی کمپنی کی ایک میٹنگ میں ان کا تعارف یوکرائن کی ایک خاتون سے ہوا جو اس کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ میٹنگ کے دوران جب کھانے کا وقفہ ہوا تو احمدی خاتون نے کھانے کے مینیو کو بغور دیکھنا شروع کیا تو وہ کہنے لگی کیا تم مسلمان ہو؟ انہوں نے کہاہاں، اس نے کہا چونکہ آپ مینیو کو بغور پڑھ رہی تھیں تو مَیں سمجھ گئی کہ آپ دیکھ رہی ہو کہ کوئی حرام چیز نہ ہو۔ ساتھ ہی پوچھا کہ تم کون سے فرقے کی مسلمان ہو؟ یہ احمدی بہن کہتی ہیں کہ مَیں حیران ہو گئی کہ یہ سفید فام عورت نامعلوم کیوں مجھ میں اتنی دلچسپی لے رہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں۔ اس نے فوراً کہا کہ مَیں بھی احمدی مسلمان ہوں۔ دونوں خوشی سے بغل گیر ہو گئیں۔ اس یوکرانین خاتون کا نام ’تمارا ‘ہے۔ اس نے بتایا کہ جنگِ عظیم دوم سے قبل میرے نانا بیلجیئم میں کام کرتے تھے۔ وہاں کسی احمدی سے ان کی ملاقات ہوئی اور اُن کی تبلیغ سے احمدی ہو گئے۔ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ احمدی مسلمان کہتے رہے۔ ان کی اولاد سے میری والدہ پکی احمدی ہیں اور اب تک زندہ ہیں اور بڑے درد سے احمدیوں سے رابطہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ دونوں بہنیں مجھے ملنے آئیں اور تمارا نے بیعت فارم پُر کیا ۔س دفعہ جلسہ سالانہ میں بھی شامل ہوئی ہیں۔ اب جلد ہی وہ اپنی والدہ کو امریکہ لانا چاہتی ہیں۔ یہ دیکھیں اللہ کی تقدیر کہ جنگِ عظیم سے قبل کی ایک احمدی فیملی سے رابطہ ہو گیا۔
بیعتوں کی تعداد
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال بیعتوں کی تعداد چار لاکھ اسّی ہزار(480,000)سے اوپر ہے۔ اس سال 124 ممالک سے تین سو باون(352) قومیں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں، الحمدللہ۔ انشاء اللہ کل عالمی بیعت میں ان کی نمائندگی ہو گی۔
نائیجریا کو اس سال ایک لاکھ سولہ ہزار (116,000)سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ چون(54) نئی جماعتیں بنی ہیں۔ گھانا کو ترپن ہزار (53,000)سے زائدبیعتوں کی توفیق ملی اور انیس (19)نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ مالی میں ایک لاکھ سے زائد بیعتیںہوئیں۔ یہاں مالی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی سے جماعت کا نفوذ ہو رہا ہے اور بڑے ایکٹو(Active) احمدی ہیں۔ یہ نہیں کہ پیچھے ہٹنے والے ہوں۔ بلکہ چندوں کے نظام میں بھی شامل ہوتے ہیں اور مستقل رابطے ہیں۔ برکینا فاسو میں اکتیس(31) ہزار سے زائد احمدیت میں داخل ہوئے۔ آئیوری کوسٹ میں اللہ کے فضل سے دورانِ سال پانچ ہزار(5,000) سے زائد بیعتیں ہوئیں۔ وہاں حالات بھی بڑے خراب رہے ہیں۔ سینیگال میں تیرہ ہزار(13,000) سے زائد بیعتیں ہوئیں۔ جماعت بینن کو امسال پینتیس ہزار(35,000) بیعتیں حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ جماعت نائیجر کو ستائیس ہزار
(27,000) بیعتوں کی توفیق ہوئی۔ کیمرون کو چودہ ہزار(14,000) بیعتوں کی توفیق ملی۔ یوگنڈا میں بیعتوں کی تعداد اللہ کے فضل سے تین ہزار (3000)سے اوپر ہے۔ چودہ (14)نئے مقامات پر جماعت احمدیہ کا پودا لگا ہے۔ کینیا کی بیعتیں بھی تقریباً چار ہزار(4,000) ہیں۔ سیرالیون کو چالیس ہزار(40,000) سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ کانگو برازاویل کو چھ ہزار (6,000)سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ ہندوستان میں اللہ کے فضل سے دو ہزار سے(2000) زائد بیعتیں ہوئیں۔
بیعتوں کے حوالے سے ڈاکٹر وسام البراقی صاحب نے مجھے سیریا سے ایک خط لکھا تھا کہ جب عالمی بیعت ہوتی ہے تو بعض مقامات پر صدر جماعت ٹی وی پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور دیگر حاضرین ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گویا وہ اس طرح عالمی بیعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ سوال پوچھا تھا کہ کیا یہ طریق جائز ہے؟ تو مَیں نے اُن کو جواب دیا تھا کہ یہ بالکل غلط طریقہ ہے اور یہ بدعت ہے جسے ختم ہونا چاہئے۔ اور مَیں نے اُن کو یہ بھی کہا تھا کہ مجھے یاد کروا دیں تو آج اس حوالے سے انہوں نے یاد کروایا ہے۔ یہاں جو بیعت ہو رہی ہے کیونکہ دستی بیعت ہو رہی ہوتی ہے اس لئے ایک دوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھ کے میرے ہاتھ تک اُن کا ہاتھ پہنچ جاتا ہے لیکن ٹی وی پر ہاتھ رکھنا یہ قطعاً غلط چیز ہے اور بدعتیں ہیں۔ بدعتوں کو ختم کرنے ہی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے۔
بیعتوں کے ایمان افروز واقعات
بیعتوں کے بارے میں چند واقعات بیان کر دیتا ہوں۔
ندیم صاحب نائیجر کے مبلغ ہیں،لکھتے ہیں کہ خاکسار اپنے علاقہ ’اکوانگا‘(Akwanga) میں ایک نئے مقام’ آنڈھا ‘(Andha)میں تبلیغ کے لئے گیا` تبلیغ کے بعد وہاں کے امام صاحب اور باقی تمام احباب نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ امام صاحب بہت عمر رسیدہ شخص ہیں اور اُن کی عمر بھی ایک سو پانچ سال ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے لمبی عمر دی ہے کہ میرے تک امام مہدی کا پیغام پہنچے اور مَیں اس پیغام کو قبول کروں۔ اس وقت سورج، چاند، درخت، پودے اور ہر چیز اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے۔ لہٰذا مَیں جماعت کو قبول کرتا ہوں۔ اُن دور دراز کے علاقوں کے اماموں کویہ نظر آ جاتا ہے`اگر نہیںنظر آتا تو بدقسمت اُن مولویوں کو جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔
مبلغِ سلسلہ بینن لکھتے ہیں کہ تبلیغ کر رہے تھے کہ وہاں غیر احمدیوں کی مسجد کا امام بھی تھوڑی دیر میں آ گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ ہمارے خلاف کچھ بولے گا ہم نے کچھ لٹریچر بھی نمائش کے لئے رکھا ہوا تھا اور اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی شامل تھی۔ وہ امام آتے ہی اس تصویر کو پکڑ کر فرنچ میں کہنے لگا۔کیا یہ وجود جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور بھلا یہ جھوٹ بولے گا؟ یہ جھوٹ بولے گا بھی کیوں؟ اور بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں داخل ہو گیا۔
سیرالیون کا ایک واقعہ ہے کہ پیراماؤنٹ چیف جو کہ مذہباً کٹّر عیسائی ہیں اُن کا پیغام آیا کہ ہم اُنہیں اُن کے چیفڈم میں آ کر ملیں۔ چنانچہ ہم پروگرام کے مطابق گئے ۔ مبلغ صاحب لکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور اس دن اپنے علاقہ کے بڑے لوگوں کی میٹنگ بھی رکھی۔ جس میں ان کے ٹاؤن کے چیف ، امام اور دوسرے عام لوگ بھی شامل تھے۔ چیف نے کہا، مَیں تو مذہباً عیسائی ہوں۔ میری چیفڈم میں کوئی بھی مسلم مشن کام نہیں کر رہا لیکن چیف ہونے کے ناطے مَیں اپنے ساٹھ فیصد مسلمانوں پر ظلم نہیں کر سکتا۔ میں جماعت احمدیہ کو بخوبی جانتا ہوں کہ وہ اس دور میں تمام مسلم جماعتوں میں بہترین جماعت ہے جو اسلام کی صحیح تعلیم دیتی ہے اور پُر امن ہے اس لئے آج مَیں اپنے تمام چیفڈم احمدیہ مسلم جماعت کو دیتا ہوں اور تمام چیفڈم میں موجود مسلمانوں کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی تلقین کرتا ہوں۔
پھر ایک نو احمدی کا جذبہ ایمانی دیکھیں۔ غانا کے امیر صاحب تحریر کرتے ہیںکہ اَپر ایسٹ ریجن میں الحاج سابون کوڈی صاحب بڑے بزنس مین شخص ہیں، جو ٹرانسپورٹ کا کام اور فارمنگ(Farming) کرتے ہیں۔ اُنہیں ریجن کی سطح پر بہترین فارمر (Farmer) کا اعزاز بھی ملا ہوا ہے۔ اُنہیں جماعت احمدیہ میں دلچسپی پیدا ہوئی اور خصوصاً اس بات سے کہ احمدیہ جماعت قرآنِ مجید ناظرہ کے ساتھ ترجمہ سیکھنے پر زور دیتی ہے اور نماز سادہ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سیکھنے کی تلقین کرتی ہے۔ ان کے احمدیت قبول کرنے نے سب کو حیران کر دیا۔ وہ چونکہ علاقے کی معروف شخصیت تھے اُنہیں غانا بھر سے فون آئے کہ احمدیت کیوں قبول کی ہے؟ اُنہوں نے سب کو یہی کہا کہ مَیں آپ کا کرایہ دوں گا آپ یہاں آئیں، مل کر بات کریں گے کہ احمدیت سچ ہے یا نہیں؟ مگر کسی کو وہاں جا کر بحث کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ ان کے علاقے میں مشنریز کو بھجوایا گیا اور پھر کانفرنس ہوئی، دوہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے۔ اور اللہ کے فضل سے بڑا اچھا اثر ہوا۔
خالد محمود صاحب جو ربوہ کے وکیل الدیوان ہیں اُن کو برما بھجوایا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ رنگون میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ’چوسے‘ شہر سے چار غیر از جماعت احباب کا وفد شامل ہوا۔ دورانِ جلسہ اور جلسہ کے بعد مختلف اوقات میں سوال وجواب ہوتے رہے، اُنہوں نے بڑی دلچسپی سے سوال پوچھے۔ لیکن بظاہر یہ علم نہ ہو سکا کہ یہ قائل ہوئے ہیں یا نہیں۔ واپس جاتے ہوئے اُنہوں نے اپنے گاؤں آنے کے لئے اصرار کیا۔ نیشنل صدر صاحب نے وقت کی کمی کے باعث اُن سے معذرت کی،لیکن اُن کا اصرار جاری رہا۔ آخر بھٹی صاحب نے اُن سے وعدہ کیا کہ گو وقت کم ہے لیکن خاکسار ضرور آئے گا۔ چونسے شہر رنگون سے ایک سو پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً دس ہزار ہے۔ بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لاماؤں کی تعداد بیس ہزار ہے۔ کہتے ہیں ہم وہاں گئے۔بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا گیا۔ گفتگو کے آغاز پر مختصراً صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کی گئی اور سوال کرنے کی دعوت دی گئی۔ گاؤں کے مولوی صاحب جو رنگون میں شامل ہوئے تھے، کھڑے ہو کر کہنے لگے، سچائی سچائی ہوتی ہے۔ مزید کسی سوال کی ضرورت نہیں ہے اور ساتھ ہی بیعت کا اعلان کر دیا۔
امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ ایک داعی الی اللہ اعجاز احمد صاحب ہملٹن ساؤتھ دو سال سے اپنے ایک دوست بروس گرفتھ(Bruce Griffth) سے مختلف موضوعات پر بات کرتے رہے۔ یہ دوست عیسائیت سے برگشتہ اور اسلام کی طرف مائل تھا۔اس دوران اُس کا رابطہ اہلِ سنت احباب سے ہوا۔ اُن سے رابطہ بڑھتا گیا۔ اعجاز صاحب نے اُن سے کہا کہ وہ اپنے اہلِ سنت دوستوں سے کہے کہ وہ قرآنِ مجید کی رو سے احمدیت کی صداقت کے بارہ میں ہم سے بحث کریں۔ نیز اُن کے علماء یہ بتائیں کہ اگر کوئی شخص عیسائیت سے اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ عیسائی ہونا چاہے تو اُس سے کیا معاملہ کیا جائے گا؟ اُس کے اہل سنت دوست ان سوالات کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ احمدی علماء کے جوابات سے وہ مطمئن ہو گیا اور احمدیہ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنی شروع کر دی۔ ایک دن اُسے مشن ہاؤس ٹورانٹو لے جا کر امیر صاحب کینیڈا سے ملاقات کروائی گئی۔ بعد ازاں جب اُسے زیرِ تعمیر طاہر ہال اور جامعہ احمدیہ کی بلڈنگ دکھائی گئیں اور بتایا گیا کہ ان بلڈنگز کی تعمیر میں ہم نے حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں لی بلکہ حکومت نے جو دو ملین ڈالر کی گرانٹ دی تھی وہ بھی شکریہ کے ساتھ واپس کر دی گئی ہے۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ میں نے کوئی ایسی جماعت نہیں دیکھی جو اتنے بڑے پراجیکٹ کے لئے گورنمنٹ سے گرانٹ نہ لیتی ہو۔ بلکہ منظور شدہ گرانٹ بھی واپس کر دے۔ اس لئے مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے یہ بڑے فعال احمدی ہیں ۔ اسی طرح اور بھی ہیں۔
آسام کے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ 2010ء میں ایک فرد ساکن جیرانگ،انڈیا اپنی فیملی کے ساتھ عیسائیت سے احمدیت میں داخل ہوا۔ دس سال تک یہ جماعتی کتب پڑھتے رہے تھے۔ چونکہ یہ خاشا زبان جانتے تھے اس لئے خاشا اخبار میں امام مہدی کے ظہور اور وفاتِ مسیح کے بارے میں مضامین لکھتے رہے۔ بہت جگہوں پر انہوں نے جماعت کے بارے میں معلوم کیا۔ کافی مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی۔ لوگوں نے اُنہیں کہا کہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھو۔یہ خراب لوگ ہیں۔ آخر کار گوہاٹی، نارنگی اور شانتی نگر پہاڑ کے اوپر جماعت کی مسجد میں آ کر جماعت سے رابطہ کیا۔ 2010ء میں انہوں نے امان علی صاحب زونل امیر اور سابق صوبائی امیر مشرق علی صاحب کے ذریعے بیعت کی۔ اس طرح ان کے کچھ اور واقعات ہیں۔
رؤیائے صادقہ کے ذریعہ سے لوگوں کی بیعتیں
فن لینڈ میں مقیم مراکش کے ایک دوست الامین اولیٰ اور ان کی بیگم’ ہانہ لِینا ایکونین‘(Hanna Leena Ikonen) اور ان کے دو بچے تقریباً عرصہ چھ سال سے ایم ٹی اے العربیہ سے متعارف تھے۔ الحوار المباشر پروگرام کی وجہ سے شروع سے ہی ان کو جماعت کی طرف رغبت حاصل ہو گئی یہاں تک کہ کام پر جانے اور سونے کے علاوہ تمام وقت ایم ٹی اے دیکھنے میں مصروف رہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں ہمیں تمام سوالوں کے جواب ملنے لگے۔ پھر انہوں نے جماعت کے بارہ میں تحقیق کرنا شروع کی اور تفسیرِ کبیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کا عربی زبان میں ترجمہ موجود تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنی پیاری عربی تحریر کبھی نہ پڑھی تھی اور اس عربی کا اُنہیں اتنا مزا آتا تھا کہ وہ کتب چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ اُنہوں نے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کے لئے استخارہ کیا اور خواب میں انہوں نے مجھے دیکھا۔ کہتے ہیں ہم نے خلیفۃ المسیح الخامس کو دیکھا کہ ساتھ کسی پہاڑ کی وادی میں موٹر گاڑی میں موجود ہیں اور چلا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ادھر موجود ہیں اور سلام کی غرض سے دور دور سے ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ اس پر اُن کے دل کو تسلی ہو گئی اور تقریباً چار سال سے وہ اور اُن کی بیگم اپنے آپ کو احمدی سمجھتے رہے اور دوسروں کو تبلیغ بھی کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے باقی خاندان کو تبلیغ کی اور اب انہوں نے باقاعدہ بیعت فارم پُر کر دیا۔
نصیر شاہد صاحب فرانس سے لکھتے ہیں کہ مراکش کے ایک دوست اصغیر جواد صاحب کا فون آیا تو اُن کے گھر ان کو لینے گیا ۔پھر اُن کو مشن ہاؤس لا کرمسجد دکھائی ۔نماز مغرب و عشاء پڑھی۔ گفتگو ہوئی۔ پھر کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مراکش میںاپنا ایک پُرانا واقعہ بتایا کہ سلفیوں کے ساتھ نمازیں پڑھتا تھا مگر وہ بہت متشدد نظریہ کے تھے۔ پھر الحیات ٹی وی دیکھنے لگ گیا ۔دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ حق ہے تو نصاریٰ میں شامل کر دے کیونکہ مَیں نور اور ہدایت چاہتا ہوں۔پھر کہتے ہیں مَیں فرانس آ گیا۔ اچانک ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ۔دوستوں اور گھر والوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا ، اَحَقٌّ ہُو۔ مہدی تو سعودی عرب میں آئے گا۔ مسیح آسمان سے اُترے گا۔ لیکن میں دن رات ایم ٹی اے الحوار المباشر دیکھتا رہا۔ اس دوران مَیں نے تین خوابیں دیکھیں۔ پہلی خواب یہ دیکھی کہ دو لڑکیاں حجاب میں دیکھیں۔مَیں نے پوچھا کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم احمدی ہیں۔ اس پر میں خوش ہوا۔ دوسری خواب میں دو آدمی دیکھے جو جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہیں۔مَیں بھاگ کر اُن سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں مگر غائب ہو جاتے ہیں۔ کسی سے پوچھ کر ان سے جا ملتا ہوں اورپوچھتا ہوں کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم جماعتِ احمدیہ سے ہیں؟ میں نے کہا کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا چندہ لیتے ہیں۔ تم بھی دو اور شامل ہو جاؤ۔ پھر مَیں کچھ پیسے دیتا ہوں اور اُن میں شامل ہو جاتا ہوں۔ پھر تیسرا خواب کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ مراکش کے کسی شہر میں ہوں، جمعہ کا دن ہے۔لوگوں کا اژدحام ہے۔سب مسجد کی طرف جا رہے ہیں۔ مَیں حیران ہوں کہ کہاں جاؤں، کس مسجد میں جاؤں۔ پھر مَیں ایک مسجد میں داخل ہوتا ہوں۔ اندر ایک بہت بڑی جماعت ہے۔ امام کی سفید داڑھی اور سر پر سفید عمامہ ہے۔ جمعہ اُن کے ساتھ پڑھا۔ کچھ دیر اُن کے ساتھ رہا اور باتیں کرتا رہا۔ پھر جماعت کے ساتھ مسجد سے باہر نکلا۔ دیکھتا ہوں کہ لوگ قطاروں میں ہیں اور ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ (پگڑی والا شخص جو نمازپڑھاتے ہوئے دیکھا وہ مَیں تھا) کہتے ہیں کہ پھر مراکش میں چوتھا خواب اُنہوں نے دیکھا جس میں مجھے اُنہوں نے دیکھا کہ مراکش میں میرے گھر میں ہیں( یعنی مَیں اُن کے گھر میں گیا ہوں)۔ مجھے آپ نے پانی دیا ۔میرے گھر سے چشمے کی صورت میں پانی نکلتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ زمزم کا پانی ہے۔
اسی طرح اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں۔ پھر بعض ایسی بیعتیں جو نشان دیکھ کر ہوئیں ان کا ایک آدھ واقعہ بھی ذکر کر دیتا ہوں۔
نشان دیکھ کراحمدیت قبول کرنے کے واقعات
ناصر محمود صاحب مبلغ بینن لکھتے ہیں کہ ہماری تبلیغی ٹیم ایک عیسائی گاؤں میں گئی اور لوگوں کو حضرت مسیح کی آمدِ ثانی اور مسلمانوں میں امام مہدی کا بتانا شروع کیا تو لوگوںمیں سے ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ایک بچہ لئے نکلا اور کہنے لگا کہ آپ مسیح مسیح کئے جا رہے ہیں۔ یہ بچہ مرا جا رہا ہے اس کو تو بچائیں۔ یہ بہت بیمار ہے۔یہ بچ گیا تو ہم سمجھیں گے کہ مسیح سچا ہے۔ اب یک دم ایسی صورتِ حال بن گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صدقہ خدا تعالیٰ سے بچے کے لئے سوائے شفا مانگنے کے اور کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی اور اسی لمحے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی تسلی دل پر نازل ہوئی کہ خدا تعالیٰ معجزہ دکھلانے والا ہے۔فوراً ہم نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے بچہ اپنی گود میں لے لیا کہ آپ تین دن بعد اس بچے کو صحت مندی کی حالت میں اپنے پاس پائیں گے۔ چنانچہ اُسے والدین کی اجازت سے ہم اپنے گھر لے آئے۔ ظاہری تدبیر کے طور پر دوا بھی دی اور خدا تعالیٰ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا واسطہ دے کر دعا کرتے رہے۔ اُس شفاؤں کے مالک خدا نے اس دور کے مسیح علیہ السلام کی شفاء کا معجزہ دکھایا کہ تیسرے دن بچہ سترّفیصد تک صحت یاب ہو چکا تھا۔ پھر یہ خاندان فوری طور پر احمدیت کی آغوش میں آ گیا۔
کناکری کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ گنی کناکری میں ہمارے ایک بہت مخلص احمدی نوجوان ’احمد دیدات کبا‘ ہیں۔ یہ سیکرٹری تبلیغ بھی ہیں۔ ان کی اہلیہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور احمدیت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں اور اس وجہ سے اُن کا اپنے خاوند سے اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ وہ اپنی اہلیہ سے کہتے تھے کہ احمدیت قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی میں آ جاؤ لیکن اُنہیں شرح صدر نہ تھی۔ ان کی اہلیہ ایک چھوٹا سا بزنس کرتی ہیں۔ سڑک کے کنارے کھانے اور پینے کی چیزیں فروخت کرتی ہیں۔ جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو ناجائز تجاوزات کو ختم کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس قسم کے کام کرنے والوں کی اشیاء ٹرک میں ڈال کر لے جاتے تھے۔ اسی دوران وہ ٹیم وہاں پربھی پہنچی جہاں یہ کام کرتی تھیں اور آس پاس جتنے بھی دوسرے لوگ تھے ان کا سامان اُٹھا کر ٹرک میں ڈالنا شروع کیا۔ ان کا بھی ایک بڑے سائز کا کُولر جس میں ٹھنڈا پانی اور سوفٹ ڈرنکس رکھتی تھیں وہاں موجود تھا وہ کہتی ہیں کہ مَیںدل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ اے اللہ! اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں تو یہ میرا سامان نہ لے کر جائیں۔ اور مَیں اُنہیں قبول بھی کر لوں گی۔ کہتی ہیں کہ اُنہوں نے میرا سامان اُٹھایا۔ اُسے دیکھا اور دوبارہ نیچے رکھ کر چلے گئے۔ میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی سے بھر گیا۔ چنانچہ گھر واپس آ کر اپنے خاوند سے کہا کہ یہ تین لاکھ فرانک چندہ لیں اور مَیں بیعت کر کے ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتی ہوں۔
احمدیوں کا نمونہ دیکھ کرقبول احمدیت
پھر بعض لوگ احمدیوں کانمونہ دیکھ کے بھی احمدی ہوتے ہیں۔مَیں کہا کرتا ہوں کہ ہمیشہ احمدی اپنا نمونہ دکھائیں۔ برکینا فاسو میں ہمارے’ سدرہ دوگو‘(Sidradougou) مشن ہاؤس کے پڑوس میں ایک فیملی رہتی تھی جو روزانہ جھگڑتی رہتی تھی۔ میاں بیوی کی لڑائی اتنی ہوتی تھی کہ ہاتھا پائی تک نوبت آ جاتی تھی۔ ہمارے معلم بتاتے ہیں کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میاں بیوی ہمارے مشن ہاؤس آنا شروع ہوئے۔ میاں میرے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتا اور اس کی فیملی میرے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتی۔ ابھی پندرہ دن گزرے تھے کہ دونوں میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور یہ گھر پھر جنت کا نظارہ بن گیا۔ ایک روزدونوں میاں بیوی ہمارے گھر آئے اور کہا کہ ہم جماعت میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ہماری بیعت لو۔ پھر اُس نے اپنی تمام کہانی بتائی کہ ہم دونوںمیاں بیوی جانوروں کی طرح رہ رہے تھے۔ آپ لوگوں سے تعلق رکھ کر ہماری زندگی بدل گئی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا معجزہ ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور پھر تمام فیملی نے بیعت کرلی۔ اس طرح کے اور واقعات بھی ہیں۔
مخالف علماء کی بحث و مباحثہ میں ناکامی دیکھ کر بیعتیں ہوئیں۔ امیر صاحب گیمبیا بیان کرتے ہیں کہ اَپر ریور ریجن میں ایک گاؤں کا واقعہ ہے کہ پچھلے سال اس گاؤں میں ایک سو بیس افراد نے احمدیت قبول کی۔ ایک مہینے کے بعد وہاںنو مبائعین کی تربیت کے لئے معلم بھیجا گیا۔ عرصہ گزرنے کے بعد وہاں لوگوں نے احمدیت کی مخالفت شروع کر دی اور ہمارے معلم کے خلاف بھی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ تاہم ہمارے احمدی بھائیوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور باقی لوگوں سے کہا کہ ہمارا معلم گاؤں سے نہیں جائے گا۔ مخالفین پولیس کے پاس بھی گئے مگر ان کو کامیابی نہ ملی۔ ایک دن ایک غیر احمدی نے گاؤں کے باہر سے کسی بڑے عالم کو بلوایا۔ جب اس عالم کی ہمارے معلم کے ساتھ بات ہوئی تو ہمارے معلم نے بہت عمدہ طریقے پر اُس کے سوالات کے جوابات دئیے مگر وہ بڑا عالم کسی بھی سوال کا جواب دینے میں کامیاب نہ ہوا۔ جب مباحثہ ختم ہوا تو وہ شخص جس نے اس عالم کو بلوایا تھا اس سے کہنے لگا کہ تم نے جوجوابات دئیے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ اگر تم اُن کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے تو پھر ہم احمدیت قبول کرتے ہیں اور اس شخص نے اپنے سارے خاندان سمیت اس مولوی کی حالت دیکھنے کے بعد بیعت کر لی۔
اللہ کے فضل سے نو مبائعین میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ تبلیغ کا شوق بھی اُن میں پیدا ہو گیا ہے۔ اسی طرح دعوتِ الی اللہ میں روکیں ڈالنے والے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں اُن کا ایک مختصر واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔
امیر صاحب فرانس بیان کرتے ہیں کہ کاسا بلانکا کے ایک نئے احمدی دوست نے بتایا کہ وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے، جس میں احمدیت کا ایک سخت مخالف بھی سفر کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی سخت اہانت کرنا شروع کر دی۔ الفاظ اس قدر دُکھ دینے والے تھے کہ برداشت سے باہر تھے۔ چونکہ ہمیں صبر اور دعا کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس لئے مَیں نے بڑے دردِ دل کے ساتھ دعا کرنی شروع کی کہ اے اللہ! یہ تیرے مسیح اور مہدی علیہ السلام کی سخت اہانت کر رہا ہے اب تو خود ہی کوئی نشان ظاہر فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اُس احمدی کی اس درد بھری دعا کو سنتے ہوئے اپنے وعدہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ ۔ کا نشان اس شوکت کے ساتھ ظاہر فرمایا کہ تھوڑی دیر بعد وہ ٹرین سے اُترا اور ایک کار کے نیچے کچلا گیا اور موقع پر ہلاک ہو گیا۔
اس طرح بعض اور واقعات ہیں۔
قبولیت دعا کے واقعات
کوتونو ریجن کے مبلغ میاں قمر ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ان کے علاقہ کے گاؤں اوگونگو کے صدر جماعت کی بیوی بیمار ہوئی۔ حالت اس قدر نازک ہوئی کہ سب کہنے لگے مر گئی ہے۔ اس وقت وہاں پر موجود ہمارے معلم
الفا نور الدین صاحب نے جذبات میں آ کر یہ دعا شروع کی کہ اے مولی! مَیں تو تیرے مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کرنے والا اور سچا خادم ہوں، اور آج اس سچے مہدی کا نشان دکھاتے ہوئے اسے موت سے حیات میں بدل دے۔ نامعلوم خدائے ذوالجلال کو اس معلم کے کون سے بول پسند آئے کہ کچھ ہی دیر بعد اُسے شفا ہونی شروع ہو گئی اور اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس طرح اور بھی دعا کی قبولیت کے واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت فرماتا ہے۔
غیروں کے بھی جماعت کے بارے میں بڑے تاثرات ہیں۔
مالی قربانی میں جماعت کی جوں جوں ضروریات بڑھ رہی ہیں اللہ تعالیٰ کا عجیب سلوک بھی ہے اور وسعتیں بھی بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اور اس کے بھی بعض واقعات ہیں۔ ریجنل مشنری حسین آلیولکھتے ہیں کہ ان کے علاقے کے گاؤں کی ایک عورت سارا سارا دن محنت کرتی لیکن اچھی انکم(Income) نہ ہوتی کہ کوئی گزارا بہتر رنگ میں کر سکے۔ اُسے چندہ دینے کی تحریک کی گئی کہ اگر ہم غریبوں کا سوچیں گے تو خدا ہمارا سوچے گا۔ چنانچہ اُس عورت نے کچھ معمولی سا چندہ دیا۔ اب چند ماہ بعد دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو وہ عورت سپیشل ملنے آئی اور بتانے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے کے بعد اس پر دو فضل فرمائے۔ ایک تو یہ کہ اُس کے کام میں بہت برکت پڑ گئی ہے اور دوسرا یہ کہ اُس کا بچہ پڑھائی میں بہت نکما تھا ۔اب بہت اچھا ہونے لگا ہے۔ اس کے دوست اور اساتذہ بھی اب اُس کی پڑھائی سے مطمئن ہیں۔ مزید اس عورت نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی مارابو جو جادو ٹونے کرتے ہیں اُن کی وجہ سے ہوئی ہے، مگر مَیں یہ کہتی ہوں کہ نہیں بلکہ جب سے مَیں نے احمدیہ جماعت کو چندہ دیا ہے اُس کے بعد سے میرے حالات بدلنا شروع ہوئے ہیں۔ پھر اُس نے بیٹے کی طرف سے بھی چندہ دیا۔
بینن سے آصف صاحب لکھتے ہیںکہ نو مبائعین کے چندوں اور مالی قربانی میں شامل ہونے کے لئے امسال خاص طور پر کوشش کی جا رہی ہے۔ مختلف مواقع پر بھی اور گھر گھر جا کر بھی۔ نو مبائعین کو اسلام اور احمدیت کے مالی نظام اور اُس کی برکات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ جو بالکل نو مبائعین کا ہے، یہاں سے بفضلہ تعالیٰ اچھا چندہ آنے لگا ہے۔ اور امسال ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں کہ چندہ سولہ لاکھ تیس ہزار فرانک سیفہ ہو چکا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال چھ ماہ کے دوران آٹھ لاکھ تیس ہزار فرانک سیفاتھا۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔چند ایک کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ بہت سے واقعات تو میں نے چھوڑ دئیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولویوں کو مخاطب کرتے ہوئے، مخالفینِ احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اے نادان قوم! یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔ تم اُس کو نابود نہیں کر سکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے۔ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے، بجز اُن چند حدیثوں کے جو تہتّر فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھی ہیں۔ رؤیتِ حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو۔ کیا یہ ضرور نہ تھا کہ خدا کا حَکَم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا۔ سو یہی اس وقت ہوا۔ وہ شخصحَکَم کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے۔ اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا۔ اور یقینا سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا۔ سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظرِ ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہو گئی ہو اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو‘‘۔ (اربعین نمبر 4روحانی خزائن جلد 17صفحہ456)
اللہ تعالیٰ اِن مولویوں کو عقل عطا فرمائے اور اُس قوم کو عقل عطا فرمائے جو ان مولویوں کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہی ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ